نامور بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کے انتقال سے بلوچستان ایک عظیم لیڈر سے محروم ہوگیا ہے۔ سردار صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں اور علم و فراست اور سیاسی تدبرکا ایک زمانہ معترف تھا۔ مطالعے کی وسعت کی بنا پر ان کا شمار اہل علم میں ہوتا تھا۔ 1970 کے انتخابات میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ انتخابات کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان اور ان کے سیاسی ساتھی غوث بخش بزنجوگورنر بلوچستان منتخب ہوئے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل بلوچستان کے علاقے وڈھ سے تعلق رکھنے والے ممتاز سیاست دان و قبائلی رہنما تھے۔ وہ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ تھے۔ اور یہ منصب یکم مئی 1972ء سے 12 مئی 1973ء ان کے پاس رہا۔ وہ مینگل قبیلے کے سربراہ تھے۔
دو سال کے بعد ان کی حکومت کو برطرف کرکے ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کردی گئی۔ سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری، میرغوث بخش بزنجوِ، موجودہ روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کے بانی صدیق بلوچ اور میرے (راقم) استاد اور سنیئر صحافی لطیف بلوچ سمیت نیپ کی دیگر قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔
حکومت کے خلاف سازش کے مشہور مقدمے حیدرآباد سازش کیس سے رہائی کے بعد نواب خیربخش مری نے مذاحمتی تحریک کا اعلان کیا اور اپنے قبیلے کے ساتھ افغانستان منتقل ہوگئے۔ جبکہ سردار عطااللہ مینگل علاج کے سلسلے میں لندن چلے گئے۔عطاء اللہ مینگل واحد لیڈر تھے۔ جس کے صاحبزادے اسداللہ مینگل کو لاپتہ کردیا گیا۔ جس کی لاش آج تک نہیں ملی۔ کہا جاتا ہے کہ اسداللہ مینگل بلوچستان کا ’پہلا جبری لاپتہ‘ نوجوان تھا۔ جس کی موت تاحال ایک معمہ ہے۔ جب ان کے والد سردار عطااللہ مینگل ان دنوں حیدرآباد سازش کیس میں قید اور جناح ہسپتال کے شعبے کارڈیولوجی میں زیرعلاج تھے۔ اسدللہ مینگل کی کار کراچی میں بلخ شیر مزاری کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر پائی گئی۔ جو بری طرح تباہ ہو چکی تھی جب کار کو کھولا گیا تو اگلی نشست پر خون کے دھبے تھے۔ لیکن اسداللہ مینگل اور ان کے دوست احمد شاہ کرد دونوں ہی غائب تھے۔ اور تلاش کے باوجود وہ کہیں مل نہ سکے۔اسد مینگل کی عمر 19 سال تھی وہ کراچی میں نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ایک نجی چینل پر ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ وہ اسد مینگل کو زخمی حالت میں مظفر آباد کشمیر میں جلالی کیمپ لائے تھے اور تشدد سے اس کی شہادت ہوئی تھی۔
لندن سے واپسی کے بعد سردار عطااللہ مینگل نے سندھی، پشتون، بلوچ اور دیگر قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ محکوم قوموں کی تحریک (پونم) کی بنیاد ڈالی۔ میری (راقم) سردار عطااللہ مینگل سے بیس سے تیس ملاقاتیں رہی ہیں۔ خرابی صحت کی وجہ سے سیاست میں غیر فعال ہونے کے بعد وہ اپنا بیشتر وقت کراچی میں گزارتے تھے۔سردار عطاء اللہ مینگل گو کہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے لیکن بلوچ نیشنل ازم کے حوالے سے وہ ایک فکری رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔ نئی نسل ان کے افکار وخیالات سے متاثر تھی اور اس سلسلے میں ان سے رہنمائی بھی لیتی تھی۔
عطاء اللہ مینگل کی زندگی اور اْن کا کردار دنیا بھر کے محکوم اقوام کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ انہوں نے پوری زندگی بلوچ قومی تحریک آزادی کے تبلیغ میں گزاری۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ آج کی مزاحمتی سیاست انہی کی مرہون منت ہے۔ موقع پرستانہ سیاست کے مقابلے میں بلوچ قومی سیاست اور قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کا راستہ دکھایا۔ اسی فکر پر عمل پیرا رہ کر ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بلوچ قومی آزادی کو جدوجہد کو برقرار رکھا ہے۔ عطاء اللہ مینگل نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیکر آزادی کی جدوجہد میں زندگی گزاری۔ ان کے چھوٹے صاحبزادے جاوید مینگل آزادی پسند رہنما ہیں۔ وہ بلوچستان کی مذاحمتی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ ان کے دوسرے صاحبزادے اختر مینگل پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست کرنے کے باوجود بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اختر مینگل کو شک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل مختلف حالات اور سخت ترین صورت حال میں بھی اپنے موقف اور نظریے پر قائم رہے۔ کئی مصائب کے باجود عطاء اللہ مینگل کا اپنے موقف پر ڈٹے رہنا محکوم اقوام کو ہمیشہ حوصلہ فراہم کرتا رہے گا۔ اپنی زندگی کی ابتدائی ایام سے لیکر آخر دم تک عطاء اللہ مینگل نے بلوچ آزادی کی جدوجہد کے لئے جو قربانیاں دیں اْن پر بلوچوں کی آئندہ نسلیں فخر کریں گی۔ عطاء اللہ مینگل بلوچ عوام کے لئے ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جو ترقی پسند نظریات پر مبنی ہو اور وہاں عوام یکساں طور پر خوش حال ہوں۔ عطاء اللہ مینگل کی قربانیاں بلوچ تاریخ کے لئے ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ عطاء اللہ مینگل نے آنے والے نسلوں کے لئے ایک روشن مثال قائم کی کہ کس طرح لالچ اور خوف سے بالاتر ہوکر اخلاص اور دیانت داری سے اپنے وطن کی خدمت کی جاسکتی ہے۔
بالخصوص 1960ء کی دہائی کے آخری نصف اور 1970ء کی دہائی کے پہلے نصف پر مشتمل ان کی زندگی کے دس سال بہت تیز رفتار اور بنیادی فیصلوں کے سال رہے۔’’ون یونٹ توڑ دو‘‘ کے نعرے سے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کرنے والے عطاء اللہ مینگل کو سیاسی انتقام کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کے لیے نہ صرف جدوجہد کی بلکہ اس کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے کسی بھی حکومت سے تعلقات ’’خوشگوار‘‘ نہیں رہے۔سابق صدرپرویز مشرف کی سردار عطااللہ مینگل، نواب خیربخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی کے بارے میں یہ رائے تھی کہ یہ تین سردار بلوچستان میں معاشی ترقی اورخوش حالی نہیں چاہتے ہیں۔ اور وہ اس راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اس کے برعکس بلوچ قوم پرستوں کا کہنا تھا کہ فوجی حکمران ہر مخالف رائے کو بزور قوت کچلنا چاہتی ہے اس کی انہی کوششوں کی وجہ سے بلوچستان اس حال کو پہنچ گیا ہے۔ باوجود اس کے آج یہ تینوں رہنما اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ مگر بلوچستان کی موجودہ صورتحال حالت مزید ابتر کیوں ہورہی ہے؟۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ مشرف کا یہ الزام بے بنیاد تھا۔ اور اس کا شروع کیا ہوا فوجی آپریشن بالکل غلط فیصلہ تھا۔ جس کی وجہ سے آج بلوچستان ایک نہ ختم ہونے والی جنگ سے گزررہا ہے۔ جس کی ذمہ دار فوجی حکمران ہیں۔
سردار عطاء اللہ مینگل نے اصولوں پرکبھی سمجھوتہ نہیں کیا اپنے موقف پر آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سابقہ حکومتوں نے ان سے کئی مرتبہ تعاون طلب کیا تاہم ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ پہلے حکمران بلوچوں کو حقوق دینے کے لیے خلوص نیت سے کام لیں۔ وہ ایک اصول پرست سیاست دان تھے۔ جنہوں نے تمام عمر اصول پرستی کی خاطر جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور جلا وطنی کی زندگی گزاری۔ مرحوم کی بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جدوجہد کو بھی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ بلاشبہ بلوچستان کی سیاست میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو مدتوں پر نہیں کیا جا سکے گا۔