محض خامیاں نکالنے اور آئندہ کے لئے دونوں سے نہ تو کبھی کسی قسم کے معاملات حل ہوئے ہیں اور نہ ہی ملکی معیشت میں سدھار آسکتا ہے۔ ہم 77برسوں سے یہی دیکھ رہے ہیں جو بھی حکمران آتا ہے پرانوں کی خامیاں نکالتا ہے اسی تنقیدی رویے میں اپنی مدت بھی مکمل کرتے ہوئے آخری دنوں میں یہ کہہ کر چلتا ہے کہ سارا قصور عوام کا ہے عوام کے مسائل ایک دن میں حل نہیں ہو سکتے اس کے لیے طویل جدوجہد چائیے۔
یہ بات ہم نے ان حکمرانوں کے منہ سے بھی سنی جنہوں نے گیارہ گیارہ سال حکمرانی کی، وہ بھی چلتے بنے جنہوں نے چھ اور آٹھ سال حکمرانی کی۔ اسی طرح ان پارٹیوں کے سربراہوں کو بھی سنا جو خالص عوامی پارٹی ہونے کے دعویدار تھے اور وہ بھی یہی کہتے ہوئے ملے جنہوںنے بار بار حکمرانی کی ۔وزیراعظم عمران خان نے اب ایک نئی بات کہہ دی کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے بغیر اعمال کے جنت جانا چاہتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کی گارنٹی کیا ہے کہ عوام ہی دوزخی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں سے مراد اگر عام عوام ہیں تو وہ بیچارے سب سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں ۔سرکاری ملازمین تنخواہ وصولنے سے پہلے ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں باقی مارکیٹ میں وہ کون سی چیز ہے جو ٹیکسوں کے بغیر بک رہی ہے۔
کیا بجلی ‘ گیس ‘ ٹیکی فون کے بلوں میں ٹیکس شامل نہیں۔ کاش وزیراعظم کے مذکورہ بیان میں صاف صاف بتایا جاتا کہ ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے ٹیکسوں میں ہیرا پھیری ہورہی ہے یا پھر متعلقہ ادارے کہیںنہ کہیں ڈھنڈی مار رہے ہیں یا پھر ٹیکس پر مبنی نظام درست نہیں، نہ جانے کیوں حکمران عوام کو بے وقوف سمجھ کر جوجی میں آئے بول دیتے ہیں ۔ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علم میں یہ بات نہیں کہ اس وقت مصنوعی مہنگائی کا چرچا ہر طرف سنائی دے رہا ہے جس طرح ایک باپ اپنے بچے کو گھسیٹ کر سکول تک لے کر جاتا ہے اسی طرح ذرا ملک سدھارنے والوں کو بھی مارکیٹوں کے دورے کروائے جائیں جب تک یہ مہنگائی کی آگ میں خود نہیں جھلسیں گے ان کو عوام کے چیخنے کے اسباب معلوم نہیں ہوں گے۔
یا تو بچے کو گھسیٹنے والے باپ کو روک کر پوچھا جائے کہ بھائی اس بچے سے ذرا پوچھو آخر یہ سکول جانا کیوں نہیں چاہتا کہیں ایسا تو نہیں کہ مدرسے میں تشدد کا ماحول ہے ،وہاں اساتذہ کے رویوں کا مسئلہ ہے۔ کہیں نصاب میں گڑ بڑ تو نہیں ،تھپڑ مارنا تو آسان ہے بیزاری کے اصل وجوہات کیا ہیں؟ یہ جاننے کے لئے کوئی تیار نہیں اسی لیے حکمران بھی کسی دکاندار سے یہ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتے آخر یہ مصنوعی مہنگائی کیوں اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں ؟ظاہر ہے ایک دکاندار کا روباری شخص کا تعلق بھی اسی معاشرے سے ہے۔
ذرا پتہ چلایا جائے انہیں کہاں کہاں بھتہ دینے کا معاملہ درپیش ہے ۔ہمیں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر طرف لٹیرے اور لوٹنے والوں کا راج ہے بیچ میں محروم ومحکوم اور پسماندہ عوام کے پسنے اور مختلف تکالیف سے گزرنے کی داستان ہے۔ ایسی صورت حال میں جنت کی خوش فہمی نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر اعمال کی بات ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چائیے خاص طورپر حکمرانی کے لیے جن اوصاف و اعمال کی ضرورت ہے ۔
کیا اس کے پیمانے پر ہمارے حکمران پورااترتے ہیں ؟جہاں تک چین کا رول ماڈل بنانے کی بات ہے ذرا چینی قیادت جیسے اوصاف تو پیدا کیے جائیں وہاں سب سے پہلے انصاف پر مبنی نظام سے خود کو با خبر رکھا جائے، اگر وہ آج سپر پاور بنے ہیں اسکے پیچھے رہنماؤں کی قربانیوں کے بارے میں پڑھا جائے ،ان کے ہاں جدید علوم سے واقفیت اور دلچسپی کو دیکھا جائے ۔
اتنی بڑی آبادی کو ایک قوم بنانے میں ان کی جدوجہد کی داستان پڑھی جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے کہ سب سے پہلے کس پر اپنا قبلہ درست کرنے کی ذمہ د اری عائد ہوتی ہے ۔یہ کی بات ہوئی’’ بٹن دبانے سے نیا پاکستان نہیں بن سکتا ‘‘یہ بات تو عوام نے نہیں کی وہ بیچارے ووٹ اور وقت دے کر ابھی تک اچھائی کی امید لیے بیٹھے ہیں اب اگر مینڈیٹ ملنے اور تین سال تک حکمرانی کرنے کے بعد بھی یہ بات کی جا رہی ہے تو پھر اس غریب عوام کا قصور بتایاجائے وہ تو ابھی تک کنٹینروں پر کیے گئے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں ۔