|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2021

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل فیض حمید نے گزشتہ روز کابل میں چائے کا کپ کیا پیا کہ تصویر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوگئی۔ کئی ممالک کے میڈیا نے آئی ایس آئی کے چیف کے دورے پر مختلف تجزیے کیے لیکن سب سے زیادہ واویلا بھارت کی طرف سے آرہا ہے اور انڈیا کا میڈیا اس دورے پر کافی تنقیدی تجزیے کر رہا ہے۔ آج پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت کوچیف انٹیلی جنس کے دورے پر اتنا شور کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ واحد چیف کا دورہ نہیں ہے اس سے قبل امریکہ ترکی اور قطر کے چیف بھی افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ افغانستان میں مختلف انٹیلی جنس کے سربراہان دورے کر رہے ہیں اورطالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات بھی کر رہے ہیں اور پھرآخر پاکستانی انٹیلی جنس چیف کے ہی دورے پر بھارت کو اتنی پریشانی کیوں ہے؟ تو جناب بات یہ ہے کہ امریکا تو یہاں سے نکل گیا ہے اب افغانستان میں طالبان اپنی حکومت بنانے جارہے ہیں جبکہ متوقع ہے کہ طالبان اپنی حکومت کا باقاعدہ اعلان 11 ستمبر کو کریں گے تو یقینا اس وقت دنیا بھرکی نظریں افغانستان پر مرکوز ہیں کیونکہ افغانستان میں ہونیوالے تمام حالات و واقعات کے اثرات ایشیائی ممالک کوزیادہ متاثر کرینگے خاص کر پاکستان جسکی طویل سرحد افغانستان سے جوڑتی ہے اور اسی طرح افغانستان کی صورتحال ایران پر بھی اثر انداز ہوگی

جبکہ چین جس نے اس وقت خطے میں ٹھیک ٹھاک قسم کی سی پیک اور ون بیلٹ روڈ سمیت دیگر منصوبو ں میں سرمایہ کارکر رکھی ہے وہ بھی تمام صورتحال پر واضح نظر رکھے ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ چین نے سب سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا بیان سفارتی سطح پر دیا تھا۔ اب رہی بات بھارت کی کہ آخر انڈیا کیوں طالبان کی حکومت آنے سے پریشان ہے تو بات یہ کہ بھار ت نے صدر اشرف غنی کی حکومت کے دور میں افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جسکا مقصد صرف اور صرف دشمن کا ہمسایہ دوست کی پالیسی تھی اور افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جارہی تھی ۔بھارت نے افغانستان میں اپنامضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کر لیا تھا جو تیزی سے پاکستان کے خلاف کام کر رہا تھا نیٹو فورسز کے افغانستان سے واپس جانے کے اعلان کے بعد بھارت کو پکا یقین تھا کہ افغانستان میں بھارت کی مکمل طور پر رسائی ہوگی لیکن طالبان کے تیزی سے افغانستان کے تمام صوبوں پر قبضے نے بھارت کی نیندیں حرام کردیں تھیں اور انڈیا راتوں رات اپنے سفارتخانوں اور عملے کو سمیٹ کر اپنے ملک کی یاترا کرگیا ۔

اب ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل فیض حمید کے دورے پر انڈیا کی نیندیں مزید اْڑ چکی ہیں کیونکہ اربوں ڈالر تو بھارت کے ڈوب ہی چکے ہیں تو وہیں انڈیا کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ بڑھ چکا ہے کیونکہ بھارت نے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی خوب چھیڑ چھاڑ کر رکھی ہے اور اب جو حالات نظر آرہے ہیں تو اس میں پاکستان ایران چین ترکی اور روس کا مضبوط اتحاد بننے والا ہے جس میں افغانستان کا بہت اہم کردار ہوگا ۔پاکستانی انٹیلی جنس کے چیف نے کابل میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا اگر ہم پاکستان کو گزشتہ تین سالوں میں دیکھیں توہر فارم پر افغانستان کے امن کو پاکستان کے امن سے مشرط قرار دیا جاتا رہا ہے اور اب اس بات کی مکمل وضاحت پاکستانی انٹیلی جنس کے سربراہ نے کابل میں یہ بیان دے کر کردی ہے کہ اب پریشانی کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہوگیا ہے کیونکہ افغانستان سے بھارت اور دیگر کئی ممالک کی انٹیلی جنس مختلف طریقوں سے پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے ڈی جی آئی ایس آئی کے دورے سے متعلق کہا ہے کہ چیف نے افغان طالبان سے پاکستان مخالف کاروائیاں کرنیوالوں کے بارے میں بھی بات کی ہوگی۔ انٹیلی جنس کے سربراہ کے دورے کو پاکستان کے تجزیہ کار افغانستان میں نئی قائم ہونیوالی حکومت سے بہترین تعلقات کی پہلی کڑی قرار دے رہے ہیں۔کیونکہ جہاں پاکستان کیلئے افغانستان سے اچھے تعلقات قائم کرنا ضروری ہے تو وہیں طالبان بھی ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات قائم کیے بغیر اپنی حکومت آسانی سے قائم نہیں کر سکتے۔ اب تک تمام مْعاملات میں طالبان کی جانب سے انتہائی ذمہ دارنہ اقدامات نظر آرہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان کی قیادت کو یہ بہ خوبی ادراک ہے کہ بغیر امن اور ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات قائم کیے بغیر حکومت بنانا اور ریاست چلنا ممکن نہیں ہے۔ طالبان کے سنجیدہ اقدامات دیکھ کر امریکا اور بھارت بھی پریشان ہیں کیونکہ امریکا کا خیال یہ تھا کہ نیٹو کے نکلتے ہی طالبان اور افغان فورسز میں شدید جھڑپیں ہونگی جو بعد میں خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کر جائیں گی جس کے بعد نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان ایران اور چین شدید متاثر ہونگے جس سے نہ صرف پاکستان اور ایران عدم استحکام کا شکار ہوںگے بلکہ چین کے لگائے گئے اربوں ڈالر بھی ڈوب جائیں گے اور چائنہ کو اکناومی طور پر شدید دھچکا لگے گا لیکن

افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال نے تمام تجزیہ نگاروں اور تھینک ٹینکس کو سرپرائز کردیا ہے۔