فروری1973 کی اس دوپہر کو کوئٹہ میں خلاف معمول دھوپ نکلی ہوئی تھی یہ مہینے کی 13 تاریخ تھی. اور جناح روڈ کے ڈان چوک پر چاروں طرف لوگ جمع تھے. سردار عطا اللہ مینگل، صوبہ بلوچستان کے پہلے منتخب جمہوری وزیر اعلیٰ مجمع کو بتارہے تھے کہ انکی حکومت کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی، صدر ذوالفقار علی بھٹو، وزیر داخلہ قیوم خان اور گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کیا کیا سازشیں کررہے ہیں – لوگ انہماک سے انکی باتیں سن رہے تھے-درمیان میں کوئی جوشیلا کارکن عطا اللہ مینگل زندہ باد کا نعرہ بھی لگا دیتا-ایک اخباری رپورٹر کی حیثیت سے میں انکی شیریں اور نستعلیق اردو میں کی جانے والی تقریر کا ایک ایک لفظ اپنی نوٹ بک میں درج کررہا تھا-
ان کے ساتھ کھڑے ہوئیمیر گل خان نصیر اور دیگر رہنما سر ہلا کر اپنے رہنما کی باتوں کی تائید کررہے تھے-سننے اور لکھنے کی اس محویت کو ایک ساتھی کی سرگوشی نے توڑا–‘‘ابھی ابھی ریڈیو پر اعلان ہوا ہے کہ صدر مملکت نے سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت برطرف کردی ہے”-ایک لمحہ کو میں سکتہ میں رہ گیا-گو کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ماحول میں جو انتہائی تناؤ تھا اس میں یہ اطلاع غیر متوقع نہیں تھی لیکن ہم میں سے بہتوں کو اتنی عجلت کا یقین نہیں تھا-اسی دوران ایک شخص نیکاغذ پر لکھ کر یہ اطلاع سردار عطا اللہ مینگل تک بھی پہنچا دی-وزیر اعلی نے کاغذ پر نگاہ ڈالی-ایک لمحہ کو خاموش ہوئے اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابھی ابھی مجھے یہ پرچی دی گئی ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ بلوچستان میں میری منتخب حکومت ختم کر دی گئی ہے – کتنی دلچسپ بات ہے کہ میں یہاں ایک وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے آیا تھا اور اب ایک عام شہری کی حیثیت سے جاؤں گا. اب میں آپ سے وزیر اعلی کی حیثیت سے نہیں قوم کے ایک دوست کی حیثیت سے بات کرونگا – انہوں نے بلوچستان کی گل زمین اور بلوچستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا. اس دوران کچھ افراد نینعرے بازی بھی کی جنہیں سردار صاحب نے منع کردیا. تقریر مکمل کرکے جب وی چوک کے چبوترے سے اترے تو میں نے ان سے پوچھا”سردار صاحب! اب”
انہوں نے گہری سنجیدگی سے کہا “گھر یا جیل”
اور پھر گاڑی پر لگے جھنڈے اتروا کر وہ روانہ ہوگئے-بعد میں اس نکتے پر عرصے تک بحث ہوتی رہی کہ سردار مینگل کوتقریر کے دوران اس طرح اطلاع نہیں دینا چاہیے تھی. بہرحال وہ اطلاع ایک ذمہ دار اور ذہین رہنما کو دی گئی تھی. جس نے تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا. یہ سب کہانی آج بھی
لوگوں کے ذہن میں ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ کو اسکی حکومت کی برطرفی کی اطلاع مجمع عام میں ملی.
سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت288 دن قائم رہی. پہلے دن سے ہی آزمائشوں میں گھر گئی. یہ آزمائشیں کچھ اپنی پیدا کردہ تھیں کچھ وفاقی حکومت اور صوبہ میں موجود انکے حامیوں کی طرف سے تھیں. سردار مینگل کی یہ حکومت مخلوط تھی ان کی شراکت دار جماعت مولانا مفتی محمود مرحوم کی جمعیت علمائے اسلام تھی. صوبائی حکومت کا مزاج کبھی قبائلی ہوجاتا اور کبھی جمہوری. جب قبائلی مزاج غالب آجاتا تو لشکر کشی جیسے فیصلے کیے جاتے اور وقت جمہوری انداز سے انتظام چلانے کا تقاضا کرتا. سیاست میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی اس وقت تو قطعی نہیں جب سامنے ذوالفقار علی بھٹو جیسا زیرک سیاستدان ہو. اور جس کے پاس کھر جیسی درانتیاں بھی ہوں. یہ کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا. کامل اقتدار کے حصول کی خوایش تلے اتنا دب کئے کہ قومی مفاد اور جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال دیا. اصولآ مخلوط حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے تھا، مشرقی پاکستان کا زخم ابھی تازہ تھا. یہ وقت مخاصمت کا نہیں مدد کرنے اور ساتھ لے کر چلنے کا تھا. سردار مینگل اور انکی کابینہ نے پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اور یہ حلف ریت پر لکھی تحریر نہیں تھا جسے ہوا مٹادے