|

وقتِ اشاعت :   September 8 – 2021

پاکستانی اخبارات میں وقتاً فوقتاً جنگ عظیم دوئم میں حصہ لینے والے مغربی ممالک کے ہیروز کے انتقال کی خبریں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان ممالک کو اس جنگ میں فتح ہوئی تھی یا شکست ، یہ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کریں۔ اس کے برعکس مسلم امہ کا المیہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے اپنے اپنے ہیروز بنائے ہوئے ہیں وہ اپنے ہیروز کو متنازعہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہاں ! البتہ قوم پر کوئی ابتلاء آجائے تو انہیں یہ ہیروز یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

مثلاً گزشتہ دنوں جب سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کرنے والے ایک بھارتی طیارے کو مارگرایا تو قوم کو ان میں ایک اور ائیر کموڈور (ریٹائرڈ)ایم ایم عالم نظر آنے لگے۔ راقم نے اپنے ایک دوست کی صاحبزادی سے جو ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں، ایم ایم عالم کے بارے میں سو ال کیا تو پہلے انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اورمیرے اصرار پر آخرکار انہوں نے لاعلمی کا اظہار کردیا ۔ کہنے لگیں پرسوںاخبار میں ان کا نام پڑھا تھا۔مقام افسوس ہے کہ نئی نسل اپنے مشاہیر کی زندگی اور ان کے کارناموں کے بارے میں بے خبر ہے اور اگر کسی نے اپنی پر قلم اٹھایا بھی ہے تو سطحی معلومات یا پھر ذاتی تعلق یا ذاتی پرخاش کو بنیاد بنایا ہے۔

بلاشبہ پاکستان ائیرفورس کے درخشاں ستارے ائیرکموڈور(ریٹائرڈ) محمد محمود عالم (ایم ایم عالم) کی مثال دنیا کی کسی بھی فضائیہ کی تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ آج بھی ہماری قومی تاریخ کاماتھے کا جھومر ہے اور رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔لیکن افسوس !ہم نے اپنی تاریخی روایت کے مطابق اپنے ہیرو کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا اور ان کے آخری دن انتہائی کسمپرسی کے عالم میں گزرے۔

ایم ایم عالم6جولائی 1935ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے، 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ مشرقی پاکستان ہجرت کی۔ ایم ایم عالم نے 1952ء میں پاکستان ائیرفورس میں شمولیت اختیار کی اور 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ سکواڈرن لیڈر تھے۔ 6ستمبر کو جنگ چھڑنے کے بعد پہلے ہی دن سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو ہلواڑا ائیربیس پر حملے کا حکم ملا۔دشمن کے اس اہم ائیربیس پربے انتہادفاعی انتظامات کیے گئے تھے۔ جونہی ایم ایم عالم اپنے سکواڈرن کے ساتھ ٹارگٹ پر پہنچے بھارت کے کئی ہنٹر جہازوں نے انہیں اپنے گھیر ے میں لے لیا۔گھیرا توڑتے ہوئے ایم ایم عالم نے اپنے فرسودہ سیبر طیارے سے دشمن کا ایک ہنٹر(اس وقت کا جدید ترین طیارہ )مارگرایا اوراپنی چار سیبر طیاروں کی فارمیشن کے ساتھ ائیر بیس پر چکرلگاتے ہوئے اپنے پیچھے صرف تین F-86 طیاروں کی فارمیشن کے ساتھ آنے والے سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کوائیربیس پرمحوپرواز دشمن کے کئی ہنٹر طیاروں کے پرواز کے بارے میں مطلع کیا۔بزدل آدمی یہ سنتے ہی واپسی کی راہ لیتا لیکن پرعزم سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی نے پاکستان ائیرفورس کی درخشاں روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھا، ائیربیس پر دشمن کے کئی ہنٹر طیاروں نے پاک فضائیہ کے تین لڑاکا طیاروں کوگھیرے میں لے کر نقصان پہنچایا۔ اسی اثناء میں سرفراز رفیقی کے سیبر جیٹ طیارے کی گنیں جام ہو گئیں۔

انہوں نے فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کو کمان اپنے ہاتھوں میں لینے کو کہا لیکن اپنے مشن کو ادھورا چھوڑنے کی بجائے وہیں رہتے ہوئے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کو ترجیح دی۔تاہم بھارت کے ہنٹرطیاروں نے ان کے مفلوج F-86 سیبرطیارے کو مار گرایا اور اس طرح پاک فضائیہ کے اس بہادر ترین پائلٹ نے اس دن جام شہادت نوش کیا۔بعد میں ان کی یاد میں شورکوٹ ائیربیس کا نام رفیقی ائیربیس رکھا گیا۔

جنگ چھڑجانے کے اگلے ہی دن یعنی 7ستمبر 1965ء کوپاک فضائیہ کے سرگودھاائیربیس پر دشمن کے طیاروں نے حملہ کردیا جسے پاک فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے روکا۔یہ اس جنگ کی دونوں متحارب ملکوں کے درمیان پہلی براہ راست فضائی جھڑپ تھی۔اس جھڑپ میں سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے ایک منٹ کے اندر اندر بھارتی فضائیہ کے پانچ ہنٹر طیاروں کومار گراکر تاریخی ریکارڈ قائم کیا۔ان میں سے دو طیارے انہوں نے میزائل کے ذریعے اور تین گن فائر سے گرائے۔ ایم ایم عالم نے ان پانچ میں سے چار طیارے صرف تیس سیکنڈ میںمار گرائے۔ ان کے بقول چند لمحوں میں پانچ طیارے مارگرانا ایک معجزہ تھا اور اللہ نے انہیں یہ موقع ان کا جذبہ دیکھتے ہوئے عطافرمایا۔اس کے فوراً بعد ایم ایم عالم نے دشمن کے مزید چار (فرانسیسی ساختہ Mystere)طیاروں کو مار گرایا۔ اس طرح ایم ایم عالم دشمن کے نو لڑاکا طیارے گراکر پاک فضائیہ کے پائلٹوں کے لئے آئیکون بن گئے۔ان کے شجاعت کے اعتراف میں انہیں دومرتبہ ستارہ جرات سے نوازا گیاانہیں لٹل ڈریگن اور ٹاپ گن کے خطابات ملے۔

1965ء کی جنگ کے دوران راقم چوتھی جماعت کا طالب علم تھا،اسے اچھی طرح یاد ہے کہ ایم ایم عالم کو ان کے اس کارنامے کے فوراً بعد ہی ملک کے طول و عرض میں شہرت مل چکی تھی ۔ جونہی لائلپور (حال فیصل آباد) میںسائرن بجتا اور فضا میں طیارے نمودار ہوتے، نعرہ تکبیر کے گونج کے بعد’’ایم ایم عالم آرہا ہے‘‘ کی صدائیں سنائی دینے لگتیں۔تاہم 1971ء کی جنگ کے دوران ایم ایم عالم کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کی جاتی رہیں۔

اواخر اگست 1998ء میں راقم نے اسلام آباد کے ایک ہفت روزہ میگزین کیلئے ایم ایم عالم کا ایک انٹرویو کیا۔انہیں دیکھ کر یقین نہ آیا کہ یہ واقعی ہمارے قومی ہیرو ہیں۔ سفید براق رنگ، چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی، سفیدقمیض شلوار میں ملبوس چہرے پر تبسم سجائے ایم ایم عالم مذہبی عالم دکھائی دے رہے تھے۔1971ء کی جنگ کے بارے میں سوال کے جواب میں آبدیدہ ہوگئے۔ ان کے بقول ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اس جنگ میں بھی حصہ لیتے لیکن ان کی دلی خواہش کے باوجودانہیں گرائونڈ کردیاگیا تھا۔انٹرویو کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن نے کسی ذریعے سے انہیں اپنے ملک کی فضائیہ کے چیف کا عہدہ سنبھالنے کی پیش کش کی تھی لیکن انہوں نے اسے حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا تھا کہ زندگی سمیت ان کا سب کچھ پاکستان سے وابستہ تھا۔

ایم ایم عالم نے ساری زندگی مجرد گزاری تھی۔ اسی انٹرویومیں جب راقم نے ان سے اس بارے میں سوال کیا توپہلے زیرلب مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ کسی کشمیری لڑکی سے شادی کریں گی، اس کے بعد قدرے سنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے کہ میری زندگی ایک کاز کیلئے وقف ہے اور اس کے سامنے دیگرسب خواہشات ہیچ ہیں۔
جب ان کی توجہ ان رپورٹوں کی طرف دلائی گئی کہ انہیں زبردستی ریٹائر کرکے پنشن سے محروم کردیا گیا تھا تو ایم ایم عالم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انہیں پنشن سے محروم نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے خود پنشن لینے سے انکار کردیاتھا۔جب راقم نے ان سے تفصیل جاننے کی خواہش کا اظہار کیا توانہوں نے فقط اتنا جواب دیاــ’’اصول کے سامنے سب رول (rules) ہیچ ہوتے ہیں‘‘۔انہوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی تبلیغ کیلئے وقف کررکھی ہے لیکن اگر اب بھی انہیں وطن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی جائے تووہ اس کیلئے بخوشی تیار ہیں۔

ایم ایم عالم پاک فضائیہ میں ائیر کموڈر کے عہدے تک پہنچے۔ بقول ائیر مارشل (ریٹائرڈ) ایاز احمدخان، ایم ایم عالم کی ایمانداری اور اعلیٰ کردار ایک مثال تھے، وہ سرکاری معاملات اور اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایمانداری کے اعلیٰ معیارات کو حرزجاں رکھتے تھے۔ اس وقت کے ائیرچیف مارشل انورشمیم کی پاک فضائیہ کو چلانے کی پالیسیوں اور انداز سے وہ مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے ائیرچیف کواس سلسلے میں پھیلنے والی افواہوں سے آگاہ کرنا اپنافرض سمجھا۔ ان کے مشورے اور تنقیدپر ائیرچیف مارشل انورشمیم انتہائی ناراض ہوئے۔ چنانچہ ایم ایم عالم نے پاک فضائیہ کی شاندار ساکھ کو بچانے کیلئے صدر ضیاء الحق کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ پاک فضائیہ میں کیا ہورہا ہے۔پاک فضائیہ کے سربراہ ہونے کی وجہ سے انورشمیم صدر ضیاء الحق کے بہت قریب تھے چنانچہ صدر نے ان کے خلاف شکایت نظر انداز کردی۔اس سے ائیرچیف مارشل انورشمیم ایم ایم عالم سے مزید ناراض ہوگئے اور1980ء میں انہیں قبل از وقت ریٹائر کردیا گیا اور اس طرح ہمارا مایہ ناز ہیرو اپنے سینئرز کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا۔اپنی ہتک آمیزریٹائرمنٹ پر دلبرداشتہ ایم ایم عالم نے پنشن جو ان کا آئینی وقانونی حق تھا لینے سے انکار کردیااور کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہونے اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم رہے۔انورشمیم کے بعد ائیر چیف مارشل جمال احمدخان پاک فضائیہ کے سربراہ بنے اور انہوں نے ایم ایم عالم کو پنشن وصول کرنے پر آمادہ کرنے کی بے حد کوشش کی لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

کچھ عرصے بعد ایم ایم عالم منظرعام سے غائب ہوگئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے سوویت تسلط کے خاتمے کیلئے افغان مجاہدین کو تربیت دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوویت فوج کے خلاف جلال آباد اور قندھار کی لڑائیوں میں حصہ بھی لیا۔

بقول ائیر مارشل (ریٹائرڈ) ایاز احمد خان کئی مہینوں کے بعد ایک روز نصف شب کے بعد اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی، انہوں نے دروازہ کھولا تودہلیز پر پختون ٹوپی پہنے ایک فاقہ زدہ اور مفلوک الحال شخص کو پایااور پوچھا کہ وہ اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ اس شخص نے کہا ’’کیا میں اندرآسکتا ہوں؟‘‘ آواز سنتے ہی ائیروائس مارشل ایاز احمد خان کو ایک جھٹکا لگا ’’عالم آپ! یہ آ پ نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے؟‘‘ ایم ایم عالم نے انہیں بتایا کہ وہ دو دن سے فاقے میں ہیں اور انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔بعد میںجس طرح ایم ایم عالم نے کھانا کھایا اس سے پتہ چل رہاتھا کہ وہ واقعی ہی دو دن سے بھوکے تھے، وہ بہت تھکے ہوئے تھے اور کھانا کھاکر تین دن تک سوتے رہے ۔

2013ء میںکراچی کے ایک روزنامہ میں یہ افسوسناک خبر شائع ہوئی کہ ائیرکموڈور (ریٹائرڈ) ایم ایم عالم مقامی پاکستان نیول سٹیشن شفا ہسپتال میں داخل ہیں اور کسی نے ان کی خیریت دریافت کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ سانس کی تکلیف میںمبتلاایم ایم عالم اٹھارہ ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد 18مارچ 2013ء کو 77 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ان کی نماز جنازہ پی اے ایف مسرور میں ادا کی گئی جہاں انہوں نے اپنے کیرئیر کے کچھ اہم سال گزارے تھے۔

ایم ایم عالم کے بے مثال کارنامے پر اپنے خفت مٹانے کیلئے جہاں دشمن نے سوشل میڈیا پر مسلسل پراپیگنڈہ مہم جاری رکھی ہوئی ہے وہیں حاسدین نے بھی پاکستانی کلچر کے مطابق انہیں ان کے مقام سے گرانے کیلئے مختلف طرح کی افواہیں پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ سرگودھا میں ہونے والے فضائی معرکے جس میں ایم ایم عالم نے پانچ جہاز گرائے تھے، کی وڈیو بھی انٹرنیٹ پر لوڈ ہوچکی ہے اور بھارتی فضائیہ کے مارے جانے والے دو سکواڈرن لیڈرز، دو فلائنگ آفیسرز او ر ایک فلائیٹ لیفٹیننٹ کے نام تک منظر عام پر آچکے ہیں۔اس کے علاوہ حاسدین نے نام کی مماثلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم ایم عالم کے مسلک کو بھی متنازعہ بنانے اور ان کا تعلق ایک غیرمسلم اقلیت (حالانکہ محمد اور محمود صرف پیغمبر اسلام ﷺ کے اسمائے گرامی ہیں)سے بھی جوڑنے کی کوشش کی۔ تاہم ایم ایم عالم راسخ العقیدہ مسلمان تھے اوراکثر تبلیغی مشن پر رہتے تھے۔ ان کی افغان مجاہدین سے وابستگی پر اعتراض کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی یہی وابستگی حاسدین کے پراپیگنڈے کو جھٹلانے کیلئے کافی ہے۔

افسوس ائیرکموڈور (ریٹائرڈ) ایم ایم عالم کی حیثیت کو کم کرنے کیلئے انہیں صرف پاک فضائیہ کا ہیروکہہ کرپکارا جاتا ہے جبکہ ان کاایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ گرانے کا ریکارڈ عالمی ہے۔ اگرچہ اب فضائیہ کا کردار اور فضائی جنگ کے انداز بدل چکے ہیں اور فضائیہ کو ہراول دستے کی پوزیشن حاصل ہوچکی ہے لیکن ایم ایم عالم کا ریکارڈ دائمی ہے اور یہ رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔

راقم کی خواہش ہے کہ حکومت سرگودھا میں جہاں ایم ایم عالم نے دشمن کے پانچ لڑاکا طیارے مارگرائے تھے، ان کی ایک یادگار تعمیر کریاور ان کے نام سے ایک میوزیم قائم کرے۔ نیز ایک ایسا غیرجانبدارادارہ قایم کیا جائے جو سیاست سے بالا تر رہتے ہوئے قومی مشاہیر کی ذاتی زندگی سے قطع نظر ان کے کارناموں پر تحقیق کرکے ان کے مقام کا تعین کرے۔مثلاً سابق صدرایوب خان نے چین کے ساتھ’’کچھ لوکچھ دو‘‘ کی بنیاد پرکشمیر کا سمجھوتہ کرتے ہوئے پاکستان چین سرحد کو محفوظ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان پائیدا ردوستی کی بنیاد رکھی تھی۔ ایوب خان پر الزام ہے کہ انہوں نے تین دریا بھارت کو بیچ دئیے تھے، اس سمجھوتے کے مندرجات منظر عام پر لائے جائیں تاکہ نئی نسل کو معلوم ہوسکے کہ یہ دوملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ تھا جس کے تحت ایک عرصے تک پاکستان پانی کے سلسلے میں بھارت کی محتاجی سے بچا رہا تاآنکہ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی۔اسی طرح جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں پاکستان دولخت ہوا۔ ان کی بشری کمزوریوں سے قطع نظر انہیں کوئٹہ سٹاف کالج کا بہترین انسٹرکٹر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں رباط میں اسلامی کانفرنس کے موقع پربھارت کے وفد کی موجودگی تک کانفرنس کی کاروائی میںشرکت سے قطعی انکار کی بازگشت سنائی دی۔ اس لئے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر رہتے ہوئے ان حالات کا تجزیہ کیاجائے جن کی وجہ سے وہ اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے سے قاصر رہے۔

اسی طرح ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نیازی کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے پر مطعون کیا جاتا ہے۔تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جب مصلحتوں کے تحت یا انسانی ضیاع کو بچانے کیلئے مسلما ن کمانڈروں نے صلح کی ہے یا جنگ بندی کی ہے۔ راقم سے ایک انٹرویو میں لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے کہا تھا کہ بھارتیوں کو مذاکرات میں الجھا کر انہوں نے بہت سے مغربی پاکستانی باشندوں کومشرقی پاکستان سے انخلاء کا موقع دیاتھا کیونکہ اسلحہ کی فراہمی کے ضمن میں مغربی پاکستان سے صاف جواب مل چکاتھا اورمزید لڑنے کی صورت میں بھی بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے غنڈوں ڈھاکہ اور دوسرے شہروں میں داخل ہوجاتے اور بالخصوص خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے۔ مرحوم نیازی پر ایک اور الزام جنگ بندی کا معاہدہ کرتے ہوئے بھارتی کمانڈر کو گندے لطیفے سنانا ہے جو غیر منطقی ہے۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف ان پر مجمع میں سے جوتے پھینکے جارہے ہوں اور وہ گندے لطیفے سنا رہے ہوں۔

تاریخ کو درست رکھنے کیلئے ان واقعات کی طرح سیاچن ، کارگل اور حالیہ بھارتی جارحیت کا سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔