|

وقتِ اشاعت :   September 9 – 2021

افغانستان سے امریکا گیا کیوں، امریکا کا اگلا ہدف کیا ہوگا اور افغانستان میں حکومت کے قیام میں تاخیر سے کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں جبکہ اس وقت افغانستان کی صورتحال کیا ہے، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پریس کانفرنس میں اس تاثر کی ترید کی ہے کہ اْنہیں حکومت بنانے میں مشکلات اورعہدوں پر اختلاف ہے۔

اْنہوں نے کہا کہ وہ جلد افغانستان میں باقاعدہ حکومت کے قیام کا اعلان کرینگے جبکہ گزشتہ دنوں افغان طالبان نے افغان فورس کے افسران اور سپاہیوں کو بھی پیشکش کی تھی وہ آئیں اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اس وقت افغانستان میں تمام شعبوں میں غیر یقینی کی سی صورتحال ہے اور سرکاری عمارت اور دفاتر میں کام مکمل طور پر ٹھیک نہیں چل رہا ۔افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے افغانستان سے جہاں امریکی فورسز کیلئے کام کرنیوالے افراد تیزی سے ملک چھوڑ گئے تو وہیں صاحب استحقاق اشرافیہ ڈاکٹرز، انجیئنرز، اور فورسز کے لوگ جنہیں بھی موقع ملا وہ اپنے ملک سے ہجرت کرگئے ہیں جسکی وجہ سے ملکی انتظامات کی دیکھ بھال اور نظام چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ پنجشیر میں جاری لڑائی نے بھی افغانی عوام کو ذہنی ابہام میں مبتلا کر رکھا ہے ۔

اگر ہم طالبان کی افغانستان میں فتح کو دیکھیں تو اسکے پیچھے امریکا کی طرف سے طویل مذکرات نظر آتے ہیں کیونکہ امریکا افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتا تھا اب ممالک کے درمیان مسلح جنگیں ختم ہوتی جارہی ہیں اکنامی وار تیزی سے جاری ہے ۔امریکا نے عراق، شام اور افغانستان میں اربوں ڈالر پھونک دئیے جسکا خاموشی سے فائدہ چائنہ نے اْٹھایا۔ امریکا جب جنگیں لڑ رہا تھا تب چائنہ خاموشی سے ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری کررہا تھا اور اپنے ملک میں غریب صوبوں کو غربت سے اْوپر لانے کیلئے مختلف انڈسٹریز لگا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے چائنہ نے مکمل طور پر ایشیاء میں اپنی پروڈکٹس عام کردیں جسکے بعد چائنہ کا اگلا ہدف سی پیک منصوبہ اور ون بیلٹ روڈ کا قیام ہے جس سے چائنہ کو اپنے ملک میں تیار کی جانیوالی اشیاء فوری اور سستے طریقے سے ایشیائی و مغربی ممالک تک پہنچانے میں آسانی ہوگی، جبکہ آئی ایم ایف کے ٹھکرائے ممالک کو تھوڑے اور آسان قرضے دے کرچائنہ نے مضبوط تعلقات قائم کر لیے جسکا ادراک اب امریکا کو بہ خوبی ہوگیا ہے۔

امریکنز کی بڑی بڑی کمپنیاں اس وقت خسارے میں جا رہی ہیں اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے امریکا افغانستان سے نکل کر اپنی معاشی صورتحال کر مستحکم کرنے اور چائنہ کے بڑھتے اثرو رسوخ کو کم کرنے کیلئے بھر پور کوشش کر رہا ہے ۔پہلے بھی امریکا نے بھارت کو چائنہ کے مقابلے میں لانے کی کوشش کی لیکن یہمنصوبہ کامیاب نہیں ہوسکا۔

پچھلے 20 سالوں میں چائنہ نے جس رفتار سے ترقی کی ہے اْسے دیکھتے ہوئے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگلے 25 سالوں میں امریکا کا دنیا پر اثر ورسوخ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور نئی سپر پاور چائنہ بن کر اْبھرے گا جسکے لیے چائنہ کی بھرپور کوشش بھی جاری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ترقی کے عمل کو صرف امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا کر کے ہی روکا جا سکتا ہے جسکے لیے امریکا نے اچانک افغانستان سے انخلا ء کا اعلان کرکے کیا جس پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک نے شدید تحفظات کا بھی اظہار کیا خاص کر پاکستان جس نے قطر میں ہونیوالے امریکا اور طالبا ن کے مذکرات میں انتہائی کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن امریکا نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔

وہ کامیاب مذاکرات کے نام پر فوری طور پر افغان فورسز کو طالبان سے مقابلہ کیلئے چھوڑ کر فرار ہوا لیکن افغان فورسز کی طرف سے مزاحمت کا نہ ہونا اور طالبان کی تیزی سے پیش قدمی نے امریکا کے تمام منصوبے کو ناکام کر دیا کیونکہ اگر افغان فورس اور طالبان لڑ جاتے تو افغانستان میں آسانی سے داعش مضبوط ہو جاتی جسکے بعد افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک شدید متاثر ہوتے اور چین کی ترقی کا عمل بھی بْری طرح ناکام ہو جاتا جبکہ امریکا کی کمپنیاں اور اسلحہ کا کام پھر عْروج پر پہنچ جاتا لیکن یہ سب ہو نہ سکا اور مْعاملات تیزی سے بدل گئے لیکن اگر افغانستان میں جلد مستحکم حکومت کا قیام عمل میں نہ آیا تو معاملات اب بھی طالبان کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے۔

جبکہ چین خطے کو پْر امن رکھنے کی ہر کوشش کر نے کو تیار ہے۔ رہی بات ایران کی تو ماضی میں ہم نے ایسی کئی رپورٹس دیکھیں جن میں افغان طالبان کو ایران نے امریکا مخالف فورس سمجھ کر معاشی اور فوجی مدد کی ہے اور جب طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی جاری تھی تب بھی ایرانیوں کی طرف سے خوشی کا اظہار کیا جارہا تھا جس سے ظاہر ہے کہ ایران کو بھی طالبان کی حکومت کے قیام میں مسئلہ نہیں لیکن گزشتہ دن امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے بی بی سی کو ایک انٹریو میں کہا کہ اْنکا خیال ہے کہ ہم افغانستان واپس جائیں گے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا تو افغانستان میں طالبان القاعدہ کو مضبوط کرسکتے ہیں اور جن کا مشن ہے کہ وہ ہمیں مشرق وسطیٰ سے باہر کر دیں۔

امریکی سینیٹر کی جانب سے اس قسم کا بیان آنا یقینی طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل کر حیران ہے افغانستان میں طالبان کی طرف سے حکومت کے قیام میں تاخیرکا فائدہ امریکا اور دیگر ممالک اْٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت افغانستان میں حکومتی مشینری فعال نہیں ہے جبکہ گزشتہ دنوں امریکی بلیک کاک ہیلی کاپٹر طالبان کے حوالے کرنیوالے افغان ائیر فورس کے پائلٹ ادریس مومند نے کہا ہے کہ جب کابل میں افغان طالبان قبضہ کر رہے تھے تب کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا تب وہ ہیلی کاپٹر لے کر اپنے علاقے کنڑ چلے گئے تھے اس لیے وہ ہیلی کاپٹر بچ گیا تھا ۔اْنکے مطابق 2021میں افغانستان میں 183 طیارے اور 7000 ائیر مین تھے۔

جبکہ اْنکی اطلاعات کے مطابق 46طیارے اور 22ہیلی کاپٹر ازبکستان میں موجود ہیں جبکہ فضائی عملہ کام چھوڑ چکا ہے اور افغان ائیر پورٹ فعال نہیں ہے۔ ادریس مومند کوہیلی کاپٹر طالبان کے حوالے کرنے کے بعد طالبان نے اْنہیں ڈیڑھ لاکھ افغانی انعام اور تین گارڈز دئیے تھے۔ جب امریکن یہاں سے گئے تو ہیلی کاپٹرز اور طیاروں کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا تاہم یہ معلومات کنفرم نہیں کہ نقصان امریکن فورسز نے خود پہنچایا کہ طالبان یہ سامان استعمال نہ کر سکیں یا پھر عوام نے کیونکہ امریکن کے جانے کے بعد کابل ائیر پورٹ کی سیکورٹی نہیں تھی نقصان پہنچنے والے کئی طیاروں کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں لیکن چند ایک کی مرمت کی جاسکتی ہے۔

مگر انجئنیرز اور پائلٹ نہ ہونیکی وجہ سے مکمل طور پر افغان فورس فعال نہیں ہوسکتی۔ ائیر پورٹ اور ائیر فورس کی طرح باقی ماندہ سرکاری محکمے بھی مکمل فعال نہیں ہیں اگرافغان حکومت کا قیام جلد عمل میں آجائے تو ہمسایہ ممالک افغانستان کے ساتھ تعلقات کیلئے مکمل طور پر تیارہونگے جبکہ حکومتی ڈھانچے اور طالبان کی حکومتی پالیسی کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک بھی افغانستان سے نئے سرے سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرینگے اور افغان حکومتی مشینری بھی مکمل فعال ہوجائیگی جسے افغانیوں کے ذہنوں میں طالبان حکومت کی پالیسی سے متعلق پائے جانیوالے خدشات اور ابہام دم توڑ جائیں گے۔