|

وقتِ اشاعت :   September 10 – 2021

بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ میدان جنگ بن گیا۔ طلبا کے پرامن احتجاج پرپولیس نے دھاوا بول دیا۔مظاہرین پر پولیس نے لاٹھی چارج کرکے درجنوں طلبا کوگرفتار کر لیا۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ بے شمار طلبا لہولہان ہوگئے۔ ان بچوں کا صرف قصور اتنا تھا کہ وہ تعلیم کے حصول کو آسان بنانے کے لئے پرامن احتجاج کررہے تھے۔

میڈیکل طلبا کے مطابق پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کی جانب سے اعلان کردہ این ایل ای انٹری ٹیسٹ میڈیکل کے طلبا کو تعلیم کے حصول سے دور رکھنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انٹری ٹیسٹ میں بہت سے سوالات آؤٹ آف سلیبس ہوتے ہیں۔ کبھی ٹیسٹ کو آسان کردیاجاتا ہے۔ تو کبھی مشکل کردیا جاتا ہے۔ اور زیادہ ترسوالات سلیبس سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ جن کو حل کے لئے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بچوں کا کہنا ہے کہ یہ انٹری ٹیسٹ دراصل غریب اور مستحق طلبا کو تعلیم کے حصول سے دور رکھنے کی ایک سازش ہے۔ اس کو فوری طورپر ختم کرنا چاہئے۔ طلبا کا یہ بھی کہنا ہے کہ میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ طلبانے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کراپنے من پسند لوگوں کو سیلیکٹ کرنے کے لئے بے ضابطگیاں کر رہے ہیں۔ اعلیٰ حکام و متعلقہ اداروں نے نوٹس لینے کے بجائے طلبا کے پر امن احتجاج پہ دھاوا بول دیا۔ طلبا پہ تشدد کیاگیا کئی طلبا کو حوالات میں بند کیاگیا، جو کہ ایک مجرمانہ عمل ہے-

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین ظریف رند اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے مظاہرین پر پولیس تشدد وگرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس انٹری ٹیسٹ کے باعث سینکڑوں طالبعلموں کا مستقبل تباہ ہوجائیگا۔نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے بھی کوئٹہ میں طلبا کیخلاف پولیس کی غنڈہ گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کرنے والے طلبا ء وطالبات پر جس وحشیانہ انداز میں تشدد کیاگیااس کی مثال نہیں ملتی اور جس قدران اقدامات کی مذمت کی جائے کم ہے۔

پاکستان میں روز اول سے یہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان میں سردار تعلیم اور ترقی کے خلاف ہیں۔ سرداروں کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیم کا فقدان ہے۔ سردار تعلیم کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری جانب حکومت یہ کھوکھلے دعوے بھی کرتی رہی کہ حکومت چاہتی ہے کہ بلوچستان میں دودھ کی نہریں بہیں۔ تعلیم عام ہو۔ ہر غریب کا بچہ تعلیم یافتہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ کے جیسے نعرے لگاتے رہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں تمام سرداروں کو باکردار اور تعلیم دوست قرار دیا گیاکیونکہ تمام کے تمام نواب اور سردار پرویز مشرف کی حکومت کے حصہ تھے۔تمام سرداروں کو کلین چٹ دے دی گئی۔ جبکہ تین سرداروں پر بلاوجہ تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مشرف حکومت کا کہنا تھا کہ شہید نواب اکبر بگٹی، نواب خیربخش مری اور سردار عطااللہ مینگل بلوچستان میں ترقی کے خلاف ہیں۔

تین سرداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ بالآخر ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیاگیا۔ نواب اکبر خان بگٹی سمیت سینکڑوں بلوچوں نے شہادت حاصل کرلی۔ ہزاروں سیاسی کارکن لاپتہ کردیئے گئے۔ جو آج تک لاپتہ ہیں۔ نواب خیربخش مری اور سردار عطااللہ مینگل بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اب تو کوئی سردار نہیں ہے۔ جو ہیں وہ سرکاری سردار ہیں۔اور وہ حکومت کا حصہ بن چکے ہیں۔
اسرائیل کی ایک پالیسی ہے کہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے اتنا پروپیگنڈہ کیا جائے کہ جھوٹ بھی سچ لگے۔ لگتا ہے کہ ہماری سرکار بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جھوٹ پھر بھی جھوٹ ہوتا ہے۔ ایک دن ثابت ہوجاتا ہے کہ سچ کچھ اور تھا۔ بلوچستان پسماندہ صوبہ ہے جہاں تعلیمی مراکز کی کمی ہے ملک کے دیگر علاقوں میں ان کے لیے تعلیم کے دروازے بند کرنا انہیں اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔احتجاج میں شامل طلباء نہایت پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں تعلیمی مراکز کی کمی ہے۔
بلوچستان میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق شرحِ خواندگی دیگرصوبوں کی نسبت کم ہے۔ تعلیمی اداروں کی نہ دیواریں ہیں، نہ پینے کا پانی اور نہ تعلیمی اداروں کو ملنے والی دیگر ضروریات موجود ہیں۔
بلوچ بچوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسیاں ختم کی جائیں۔ ایساں نہ ہو کہ یہ بچے یونیورسٹیوں سے پہاڑوں کا رخ کریں۔ ماضی میں بھی ایسے بے شمار واقعات آن ریکارڈ ہیں۔ جن میں شہداد بلوچ اور احسان بلوچ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ شہداد بلوچ اور احسان بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ انہوں نے قلم کی جگہ بندوق کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ایسے حالات کس نے پیدا کیئے کہ یہ بچے قلم کو چھوڑ کر بندوق اٹھائیں؟ان دونوں بچوں کو قلات اور خاران کے درمیانی علاقے شور پارود میں ایک مقابلے کے دوران ماردیا گیا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ اس لڑائی میں شہد داد بلوچ عرف درّا اور احسان بلوچ عرف شاہ داد آخری دم تک مقابلے کرتے رہے۔

شہداد بلوچ 23 اکتوبر 2017 میں قائد اعظم یونیورسٹی میں طلباء تصادم کے دوران شدید زخمی بھی ہوا تھا۔ جس طرح آج کوئٹہ میں یہ بچے تعلیم کے حصول کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ اور وہ بھی لہو لہان ہوچکے ہیں۔ خدارا ایسی پالیسیاں مت بنائیںجن سے بلوچ نوجوان قلم چھوڑ کر بندوق اْٹھا کر پہاڑوں کا رْخ کریں۔ ظاہر ہے جب ریاست تمام راستے بند کرتی ہے تو ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے اور وہ راستہ مزاحمت کا ہے۔