اپوزیشن جماعتیں جو آج کل پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے موجودہ حکومت کے خلاف محاذ گر م کیے ہوئے ہیں اْنکے کئی مطالبات میں میڈیا کی آزادی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کی تاریخ دیکھی جائے تو بر سراقتدار آنیوالی جماعتوں کی کوشش میڈیا کو دبانے کی ہی رہی ہے ۔بڑے بتاتے ہیں کہ صحافت میں لفافہ کلچر کو عام کرنے میں نواز شریف حکومت کااہم کردار رہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے قریبی صحافیوں کوخوب فیضیاب کیا ہے، تو وہیں برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بھی اپنے منظور نظر صحافیوں پر بھر پور توجہ جاری ہے۔ کئی صحافی اور یوٹیوبرز موجودہ حکومت سے خوب استفادہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سسٹم کی تبدیلی وکلاء، صحافی اور مزدور تنظیموں کی بیداری سے ہوتی ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں کہیں نہ کہیں اپنے مفاد یا کمزوری کے آگے ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی میڈیا انڈسٹری تیزی سے تباہی کے دہانے پر پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ میڈیا ہاوسز کی بندش،صحافیوں کی ملازمتوں سے جبری برطرفیاں، اور دکھائی نہ دینے والی سینسر شپ کے مسائل سر فہرست ہیں، رہی سہی کثر میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے بنایا جانے والاآرڈیننس ہے جسکے ذریعے مکمل طور پر میڈیا کو 22گریڈ کے سرکاری ملازم کے ماتحت کرنیکی تیاری کی جارہی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ سرکاری آفیسر صرف حکومتی ایما پر چلنے والی خبروں پر ہی مطمئن ہو گا اور میڈیا ہاؤسز و صحافیوں کو باآسانی کنٹرول کرلیاجائے گا۔ اس کالے قانون کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ہر پلیٹ فارم پر بھرپور آواز اْٹھا رہی ہے تنظیم نے اس آرڈینس کے خلاف شہر شہر احتجاجی مظاہرے کیے اورملک بھر سے صحافیوں کے احتجاجی لانگ مارچ کاپلان تشکیل دیالیکن کورونا وائرس کی صوتحال کے باعث لانگ مارچ کی تاریخ ملتوی کرنا پڑی تھی لیکن ایک بار پھر اب صحافیوں کی یہ تنظیم اپنی 70سالہ تاریخ کو برقرار رکھتے ہوئے اس آرڈینس کے خلاف بھر پور احتجاج کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
نئی حکومت کے قیام سے لیکر اب تک میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ادرالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں کو حراساں کرنے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے صحافیوں کو شدید تحفظات لاحق ہیں ۔ماضی میں صحافی کو صرف اپنی جان کا خطرہ لاحق تھا لیکن آج صورتحال ماضی سے زیادہ تشویشنا ک ہے آ ج کے صحافی کو جان اور معاشی قتل کا خطرہ درپیش ہے نوجوان صحافی اپنے مستقبل سے خوف زدہ ہیں ۔موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایک پالیسی کے تحت میڈیا انڈسٹری کو تباہ اور صحافیوں کو بحران میں دھکیلا جا رہا ہے تاکہ یہ شعبہ بْری طرح سے ناکام ہوجائے اور من پسند صحافی اور صحافت جاری رہے جبکہ مقتدر حلقوں کی جانب سے ملکی حالات کو بہتر کرنیکا حل میڈیا کی آواز بند کردینا سمجھا جا رہا ہے جو کہ انتہائی غلط سوچ کی عکاسی کر تا ہے۔
یقینی طورپر میڈیا میں بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہوں نے زرد صحافت کر کے صحافیوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومتوں کو گرانے بنانے میں جانبداری کا مظاہرہ اور وزراء، اراکین اسمبلی، بیوروکریسی یا اسٹبلشمنٹ کے بااثر افراد کے ذاتی ایجنڈے کومعمولی مفاد کی خاطر پروان چڑھانے میں کردار اداکرتے رہے یا کر رہے ہیں لیکن ایسے نام نہاد صحافیوں کی تعداد بہت کم ہے جن کے نام کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، لیکن ایسے افراد کو اْجاگر کرنے کی بجائے میڈیا کو بکا ئو اور ہر صحافی کو لفافہ صحافی کے القابات سے نوازنا کہاں کا انصاف ہے؟ معلوم تو ایسے ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک سازش ہے جو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صحافیوں کی ساکھ نقصان پہنچانے کیلئے کام کر رہی ہے جسکے ذمہ دار ہماری صحافی تنظیموں کے لیڈران بھی ہیں جنہوں نے ایسے افراد کی کھلے عام حوصلہ شکنی نہیں کی۔
بہر حال حکومت اور ملکی نظام چلانے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ میڈیا انڈسٹری سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے جس میں صرف صحافی کام نہیں کرتے یہاں کیمرہ مین، ویڈیو ایڈیٹر، انجیئنر،ٹیکنشن، فوٹوگرافر، کمپیوٹر آپریٹرز مشین آپریٹرز اور درجہ چہارم کے کئی ملازمین کے گھروں کے چولہے اسی انڈسڑی سے جل رہے ہیں۔ مٹھی بھر مفاد پرست صحافیوں کو دیکھتے ہوئے پوری انڈسٹری کو زوال کی طرف دھکیلنا کہاں کا اصول ہے حکومت کو چاہئے کہ میڈیا مالکان اور چند سالوں میں کروڑ پتی بننے والے صحافیوں کا احتساب کرے تاکہ صحافت کے مقدس شہبے پر لفافہ لفظ کا داغ صاف ہو اور میڈیا انڈسٹری و صحافی پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں۔ آج میڈیا جرنلزم کرنیوالے نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہیں جبکہ میڈیا میں کام کرنیوالے نوجوان صحافی ملکی حالات و واقعات کو دیکھ کر شدید ذہنی دباؤ میں ہیں جو موجودہ حکومت اور ارباب اختیار کی توجہ کے طالب ہیں۔