ضلع خضدار کے عوام سیاسی انتقامی کاروائیوں کے زد میں آگئے۔ یہاں کے تعلیم اور صحت کے منصوبے سیاست کی نذر ہوگئے۔ عوام کے دیرینہ مسائل کے منصوبوں پرکام ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ خضدار کے عوام کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدواروں کی جگہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو چنا اور اپنے قیمتی ووٹوں سے انہیں منتخب کیا جس کی سزا وہ آج بھگت رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کی حکومت کے دور میں بلوچستان کے تعلیمی معیار کو بہتر اور صحت کی فراہمی کے حوالے سے بلوچستان کے لئے تین میڈیکل کالجز کا اعلان کیاگیا۔ یہ منصوبے ضلع خضدار، ضلع لورالائی اور ضلع کیچ میں بننے تھے۔ ان منصوبوں میں لورالائی اور کیچ کے منصوبے مکمل ہوگئے جبکہ خضدار میں بننے جھالاوان میڈیکل کمپلیکس کاکام 2018 سے بند پڑا ہے۔ چھ ارب کی لاگت سے بننے والے منصوبے کو ختم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ موجودہ حکومت پانچ سو ایکڑ اراضی پرمشتمل جھالاوان میڈیکل کمپلیکس کے منصوبے کے خاتمے پر تاحال بضد ہے۔ خضدار کے علاقے موضع بالینہ کٹھان میں 500 ایکڑ پر مشتمل میڈیکل کمپلیکس میں 250 بستروں پرمشتمل اسپتال کی تعمیر، میڈیکل کالج، ہاسٹل اور رہائشی سہولیات کی تعمیر کا آغاز تاحال بند پڑا ہے۔
سابق نیشنل پارٹی کی حکومت نے پانچ سو ایکڑ اراضی پر میڈیکل کمپلیکس کی چاردیواری مکمل کرلی تھی۔ جس پر ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت بھی آئی تھی۔ تاہم موجودہ حکومت نے آتے ہی کام بند کردیا۔ تاحال یہ منصوبہ سردخانے کی نذر ہے۔ اس منصوبے پر کام روکنے کے خلاف آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی خضدار نے مہم کا آغاز کردیا۔ احتجاج اور پریس کانفرنس کے انعقاد کا عمل شروع ہوگیا۔ کمیٹی کی طویل جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی۔ موجودہ حکومت نے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ صوبائی حکومت کواپنے حالیہ بجٹ میں اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے ایک ارب تیس کروڑ روپے مختص کرنا پڑے۔ تاہم موضع بالینہ کٹھان کے علاقے میں 500 ایکڑ اراضی پر میڈیکل کمپلیکس کی عمارت تعمیر کرنے کے بجائے حکومت نے وومن پولی ٹیکنیکل کی عمارت کے احاطے میں بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ تو یہ حربے کس لئے؟ بات صاف ہے یہ سب حربے جھالاوان میڈیکل کالج اور وومن پولی ٹیکنیکل کے منصوبے کو ختم کرنے کی حکمت عملی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جھالاوان میڈیکل کالج میں تین سو سے چارسو بچے زیر تعلیم ہیں۔ عمارت تعمیر نہ ہونے کی صورت میں وہ عارضی طور پر وومن پولی ٹیکنیکل کالج کی عمارت میں زیرتعلیم ہیں۔ واضح رہے کہ وومن پولی ٹیکنیکل کالج کی عمارت مکمل ہونے کے باوجود اس میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں۔عمارت مکمل ہوچکی ہے۔ جہاں لڑکیوں اور بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا ہے۔
بلوچستان جیسے پسماندہ خطے میں وومن پولی ٹیکنیکل کالج کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ بلوچستان کی خواتین کا اسکل ڈیولپ ہوسکے۔ وہ ہنرمند بن کر معاشی اور سماجی طورپر خود کفیل ہوسکیں۔ پولی ٹیکنیکل کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ ہے۔ اس کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
حال ہی میں بلوچستان کے اعلیٰ حکام نے آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی خضدار کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد تھا کہ وہ کمیٹی سے مذاکرات کرکے انہیں ان کے مطالبات سے دستبردار کروائیں۔ کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ جھالاوان میڈیکل کمپلیکس کی مختص جگہ کے بجائے بند وومن پولی ٹیکنیکل کی عمارت کے احاطے میں میڈیکل کیمپلیکس کی عمارت تعمیر کرے، جس پر آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی خضدار کے رہنماؤں نے حکومت کی اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا میڈیکل کمپلیکس کی عمارت وومن پولی ٹیکنیکل کے احاطے کے بجائے موضع بالینہ کٹھان میں پانچ سو ایکڑ اراضی پر کمپلیکس کی عمارت تعمیر کریںجس کی چاردیواری کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔ جس پر حکومتی حکام اور آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی خضدار کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے۔ آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی خضدار کے رہنماؤں کے مطابق وومن پولی ٹیکنیکل کو فعال کیا جائے تاکہ وہاں بھی بچے زیر تعلیم ہوسکیں اور جھالاوان میڈیکل کمپلیکس اپنی اصلی جگہ پر مکمل ہوسکے۔
مستقبل میں 250 بستروں پرمشتمل ہسپتال نہ صرف ضلع خضدار بلکہ ضلع آواران،ضلع مستونگ، ضلع قلات، ضلع واشک اور دیگر پسماندہ اضلاع کے عوام کی اشد ضرورت ہے۔ ان اضلاع میں صحت کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کراچی اور کوئٹہ شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اس اسپتال کے بننے سے ان کو درپیش صحت کے مسائل کسی حد تک کم ہونگے۔
آل پارٹیز شہری ایکشن کمیٹی خضدار نے اس مسئلے پر ایک مرتبہ پھر احتجاج کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ موضع بالینہ کٹھان خضدار میں 500 ایکڑ پر مشتمل میڈیکل کمپلیکس میں 250 بستروں پرمشتمل ہسپتال کی تعمیر جلد از جلد شروع کرے۔ میڈیکل کالج کے ہاسٹل اور رہائشی سہولیات کی تعمیر کو بھی فوری شروع کیاجائے۔آرسی ڈی روڈ پہ وویمن پولی ٹیکنیک کا بلڈنگ خالی کرکے جلد از جلد خواتین کی پولی ٹیکنیک کلاسز شروع کی جائیں۔
دوسری جانب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے اپنے متعدد مراسلوں میں حکومتِ بلوچستان کو یہ واضح کیا ہے کہ اگر پی سی ون (1-PC) کے مطابق جھالاوان میڈیکل کالج بشمول 250 بستروں کا ہسپتال 2023 تک مکمل نہیں ہوا تو جھالاوان میڈیکل کالج کی رجسٹریشن ختم کردی جائیگی۔
اگر بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی پر نظر ڈالی جائے تو صورتحال کچھ یوں ہے۔ اس وقت بلوچستان میں 36لاکھ بچوں میں سے صرف 13لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں۔ جن میں اکثریت لڑکوں کی ہے۔ تعلیمی اداروں کی زبوں حالی پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کے علاوہ اگر صوبے کے کالجز اور یونیورسٹیز کی بات کی جائے، تو یہاں پر بھی حالت قابلِ تشویش ہے۔ جن مشکلات کا سامنا طلبہ کو کرنا پڑتا ہے۔ اْن میں سب سے بڑا مسئلہ فیسوں میں مسلسل اضافہ، ہاسٹلز کی عدم موجودگی، ٹرانسپورٹ کے مسائل، کیمپس میں سیکیورٹی فورسز کی موجودگی، اساتذہ کی کمی، غیر منظم سمسٹر سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ صوبے میں حالیہ نئے میڈیکل کالجز کے طلبہ مسلسل احتجاج پر ہیں جن کے مطالبات تعلیمی نظام کی ناقص صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔
صحت کی سہولیات اور علاج معالجے کا مسئلہ بلوچستان میں اس وقت شدید نوعیت اختیار کرگیا ہے۔ صوبے میں صحت کے حوالے سے صورتحال مزید تشویشناک ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے صوبے میں 7300افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی لیبارٹریز میں چند ایک ٹیسٹوں کے علاوہ باقی تمام ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹریز سے کرائے جاتے ہیں۔ جبکہ آپریشن تھیٹر اور وارڈز میں درکار تمام ادویات مارکیٹ سے خریدنی پڑتی ہیں۔ پورے بلوچستان میں کسی بھی حادثے کی صورت میں مریض کسی علاج معالجے کے بغیر ہی مر جاتا ہے۔
ہر سال خضدار، آواران، مستونگ، قلات، واشک، چاغی، خاران، کچھی، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، کیچ، گوادر، پنجگور اور دیگر اضلاع میں کینسر کے موذی مرض سے سینکڑوں افراد کی ہلاکتیں رپورٹ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ یرقان، زکام کے وائرس کی طرح عام ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور عطائیوں کی بھرمار ہے۔ ایشیاء میں پاکستان کینسر کی بیماری میں ٹاپ پر ہے، مگر یہاں بھی کم آبادی رکھنے والے صوبے یعنی بلوچستان کا نمبر پاکستان میں پہلا ہے۔