ستمبر بلوچ قوم کے لئے ستم گر ثابت ہوا۔ 2 ستمبر کو عظیم بلوچ قوم پرست سرخیل عطاء اللہ خان مینگل ہمیشہ کے لئے رخصت کرگئے، سردار عطاء اللہ مینگل کا سانحہ ارتحال بلوچ قوم پر بجلی بن کر گری۔ بلوچستان غم میں ڈوب گیا اور ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر دل غم سے نڈھال ہے۔
سردار عطاء اللہ مینگل کے بغیر بلوچ سیاست، مزاحمت اور تاریخ ہمیشہ نامکمل رہے گی، تاریخ کا ایک ایسا انمٹ نام جو صدیوں تک بلوچ سیاست پر راج کرتا رہیگا جس کا ذکر مورخ طمطراق سے کرتے رہینگے اور ادب و شاعری میں اس عظیم کردار کے بغیر تخلیق کرنا بھی ایک مشکل عمل ہوگا کیونکہ جب بھی جہاں بھی وطن سے عشق کرنے والوں کا ذکر ہوگا وہاں یہ عاشق وطن راوی کے نہ چاہتے ہوئے بھی دیوان کا حصہ رہیگا۔
سردار عطاء اللہ مینگل سیاست، تاریخ، جہد مسلسل اور مزاحمت کا استعارہ و روشن باب ہے جو اس راہ پر چلنے والوں کو روشنی فراہم کرتا رہیگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ بلوچ نیشنل ازم کا ماہ تاب ہے جو گھپ سیاہ راتوں میں اس پرخار، پرخطر راہ کے مسافروں کی رہنمائی کرتی رہے گی تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ وہ برگد کا سایہ دار درخت تھا جس کے سایہ سے بلوچ محروم ہوگئی لیکن اْنکی نظریاتی جڑیں بہت مضبوط ہیں انہوں نے نوجوانوں کی فکری نشو و نما کی ہے یہ زرخیز زمین ہے کونپلیں پھر پھوٹ آئیں گی۔
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے رہبروں کو نہیں سمجھتے، انکی رہنمائی سے استفادہ نہیں کرتے، سردار عطاء اللہ مینگل اپنے آپ میں ایک دارالعلوم اور علم، ادب، تاریخ و سیاست کا منبع تھے۔ ایسے عظیم مفکر سے ہم نے کبھی سیکھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انہیں سمجھنے کی ۔
ہم نے چند ایک اخباری بیانات کو لے کر ان کی قربانیوں کو فراموش کیا۔ کچھ نام نہاد دانشوروں کو استعمال کرکے ان کی عظیم قربانیوں اور کردار پر سوالات اٹھائے گئے کردار کشی کی گئی، جھوٹے تہمات لگائے گئے، بہتان بازی، الزام تراشی کے ذریعے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے اور یہ تاریخ نے ثابت کیا جب 3 ستمبر کو بلوچ قوم بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین نے بلا رنگ و نسل، قبائلی، سیاسی اور علاقائی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے عظیم قومی رہبر کو قومی اعزاز کیساتھ الوداع اور سپرد گل زمین کیا جو سردار عطاء اللہ مینگل سے والہانہ محبت کا اظہار تھا۔
عطاء اللہ مینگل کی فکری پختگی، ثابت قدمی، قربانیوں، وطن پرستی، قوم پرستی، اصولوں پر ڈٹے رہنے اور استقامت کے مخالف بھی معترف ہیں لیکن وہ اس خوف سے اس کا اعتراف نہیں کرتے کہ ان کا قد چھوٹا پڑ جائیگا۔ آج تاریخ کی بے رحمی دیکھیں سردار عطاء اللہ مینگل کے سیاسی مخالف اور دشمن ایک ہی صف میں کھڑے ہیں لیکن پھر بھی عطاء اللہ مینگل کل بھی فلک بوس تھا آج بھی فلک بوس ہے۔
سردار عطاء اللہ مایوس نہیں تھا وہ مایوس ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ عطاء قدرت کا ایک ایسا تحفہ جو اپنی ذہنی مہارت، بلند حوصلوں کے ذریعے پیچیدہ حالات اور گرداب سے نمٹنے اور نکلنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے وہ اگر خاموش تھے نہیں بولتے تھے بقول میر انیس۔
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
سردار عطاء اللہ جب بولتے دشمن کیساتھ اپنے بھی خائف ہوجاتے وہ ان کے الفاظ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے، وہ غلامی کو سخت ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ غلامی سے مرنے کو ترجیح دونگا کسی کا غلام نہیں بنوںگا۔ کماش بلوچستان کی لڑائی کو فرض سمجھتے وہ کہتے تھے کہ جس طرح نماز ایک مسلمان پر فرض ہے اسی طرح بلوچستان کے لئے لڑنا مجھ پر فرض ہے۔ وہ نوجوانوں کو تلقین کرتے تھے کہ لڑنا ہے جی بھر کر لڑو ورنا اپنے مائوں کو مت رلائو۔ اگر دیکھا جائے ان کے ایک ایک لفظ میں فلسفہ پنہاں ہے۔
اگر ہم سردار عطاء اللہ مینگل کو سمجھنا چاہتے ہیں اور عملی بنیادوں پر ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں نمود و نمائش، خالی و خولی دعوئوں اور نعروں سے آگے بڑھ کر نظریاتی، عملی و فکری بنیادوں پر جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا۔ سردار عطاء اللہ مینگل محض اس لئے (خان ئنا خت) درخت کے قریب اور اس علامتی مقام پر دفن ہونے کے لئے وصیت نہیں کی تھی کہ 17 ویں صدی میں نوری نصیر خان نے یہاں پڑائو کیا تھا۔ سردار صاحب کے اس وصیت کو بہت گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے صرف قبر اور درخت کیساتھ تصاویر نکال کر ہم اپنے ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکتے، سردار عطاء اللہ نے ہمیں نوری نصیر خان سے دوبارہ روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ہمیں نوری نصیر خان کے بلوچستان کا جغرافیہ سمجھانے اور اس کواپنانے کے لئے جدوجہد کا پیغام دیا ہے۔
جب بھی ہم سردار عطاء اللہ مینگل کے قبر پر حاضری دینے کے لئے جائیں گے وہ ہمیں یہ پیغام دیتے رہیں گے اور بلوچستان سے محبت کا تقاضا کرتے رہیں گے۔ وہ ہلمند سے ڈیرہ جات اور بولان سے چابہار تک بلوچوں کا لیڈر ہے۔سردار عطاء اللہ مینگل کی اس وصیت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ بلوچوں کے درمیان سامراجی طاقتوں کی جانب سے لکیر کھنچنے اور بلوچ قوم کو سرحدات کے ذریعہ تقسیم کرنے کو تسلیم نہیں کرتے تھے وہ نوآبادیاتی قبضہ و جبر کیخلاف آخری سانس تک لڑتے رہے۔ قوموں کی تاریخ میں شاذ و نادر ایسے عظیم تاریخ ساز شخصیات ملتی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی وطن اور قوم کے لئے وقف کی ہو، قربانیاں دی ہوں اور مسلسل و مستقل طور پر ثابت قدمی، مخلصی سے جدوجہد کرتے رہے ہوں۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے بھی اپنی زندگی بلوچ قوم کے نام کررکھا تھا انہوں نے سختیاں جھیلیں، قید و بند کی اذیتیں برداشت کیں، اپنے لخت جگر اسد مینگل کو بھی سرزمین کے لئے قربان کیا لیکن کبھی بھی، کسی بھی مرحلے پر ایک لمحے کے لئے مایوسی، مصلحت پسندی اور تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ دل کے عارضے میں مبتلا ہونے اور کئی مرتبہ بائی پاس آپریشن کی تکلیفوں کا سامنا بھی کیا لیکن اس کے باوجود عزم و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا ،جدوجہد کرتے رہے اور آنے والی نسلوں کو راہ دکھاتے رہے اور خود بھی صراط مستقیم پر چلتے رہے۔
سردار عطاء اللہ مینگل بلوچ نوجوانوں کے نام اپنے ایک سبق آموز پیغام میں کہتے ہیں کہ خدا کے لئے اور اس سرزمین کی خاک کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں جو آپ پر بحیثیت نئی نسل کی عائد ہوتی ہیں۔ آپ مت بھولیے کہ آج آپ تاریخ کے سامنے جواب دہ ہیں کل جو مورخ آپ کی تاریخ لکھے گا وہ آپ سے پوچھ کے نہیں لکھے گا بلکہ آپ کے کردار کو دیکھ کر لکھے گا۔ اپنے آپ کو ایک مقام اس تاریخ میں دیں جس پر آپ کی آنے والی نسلیں فخر کرسکیں نہ کہ وہ آپ کے کردار کو دیکھ کر شرمندہ ہوں۔
نوجوان اس پیغام کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور حرف بہ حرف سمجھنے کی کوشش کریں کہ بحیثیت نئی نسل ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور آج کے ان گھمبیر حالات میں سرزمین ان سے کیا تقاضا کررہی ہے اور تاریخ کے اس اہم موڑ پر ان کو اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھانی ہیں، اگر اب بھی نوجوان اپنی ذمہ داریوں کا ادراک اور اپنا قومی فریضہ ادا نہیں کرتے تو تاریخ اور نسلیں انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرینگی۔ اب کوئی اور عطاء اللہ مینگل ہمیں نصیحت کرنے نہیں آئے گا ،اب ہمیں خود اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے وقتی بھول بھلیوں میں الجھنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرکے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ ایک عہد تمام ہوا، اب سردار مینگل جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن نظریاتی و فکری حوالے سے وہ تاابد ہماری رہنمائی کرتی رہینگے اور ان کی تعلیمات و فرمودات ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنی منزل کو پا سکتے ہیں لہذا خدا کے لئے اس سرزمین کی خاک کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
(ساحر لودھیانوی)