|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2021

مکران ڈویژن ایک مرتبہ پھر جل اٹھا۔ ہر طرف مسلح جتھوں کا راج ہے۔ اغوا برائے تاوان، قتل، چوری اور ڈکیتی روز کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن اس دفعہ مکران ڈویژن کے ضلع کیچ نہیں بلکہ ضلع پنجگور کی باری ہے۔ مسلح جتھوں کو پیدا کیاگیاہے۔انہیں مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ ضلع میں امن و امان کی مخدوش صورتحال ہوگئی۔ تاجر اور عام لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ ایک ماہ کے دوران ایک درجن سے زائد شہریوں کوقتل کردیاگیا۔ قاتل سرِعام گھوم رہے ہیں۔

انہیں گرفتار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پیشہ ور گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ ان کے سامنے بے بس ہے۔ جرائم پیشہ افرادکے سامنے پولیس اور انتظامیہ نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک حکمت عملی کے تحت پنجگور کے امن و امان کو خراب کیا جارہا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دیے گئے ہیں۔ ان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ضلع میں حکومت کی رٹ نہیں ہے۔ جرائم پیشہ افراد سرِعام گھوم رہے ہیں۔ہر روز بے گناہ شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ ضلع بھر میں ایک خوف کا سماں ہے۔ ہر شہری خوف میں مبتلا ہے۔ کسی کی جان ومالاور عزت وناموس محفوظ نہیں ہے۔ عوام کو قاتلوں چوروں ڈاکوؤں رہزنوں کے حوالے کردیاگیاہے۔قاتلوں کو مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔گھروں میں داخل ہوکر خواتین اور بچوں کے سامنے بزرگ اورجوانوں کو بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ اب تک پنجگور میں مولوی عبدالحئی، صغیر، جلیل سنجرانی، علاؤالدین، قدیر موسیٰ، سفیر موسیٰ اور ان کے بزرگ والد حاجی موسیٰ، آفتاب مجید، معصوم قدیر خلیل، عابد، خان محمد بلوچ، نصیر احمد، تابش بلوچ، جعفر سلیم سمیت کئی افراد قتل ہوچکے ہیں۔ قاتل معلوم ہوتے ہوئے بھی گرفتار نہیں ہوتے ۔ آخران کو اتنی چھوٹ کس مقصد کے لئے دی جارہی ہے؟

پاک ایران بارڈر ٹریڈ پر ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم متعارف کرنے کے بعد عوام معاشی طورپر کمزور ہوگئے ہیں۔ بارڈر کی سختی تیل بردار چھوٹے زمباد اور دوہزارگاڑیوں پر ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم مسلط کرنے کے خلاف عوام نے سخت احتجاج بھی کیا۔ عوام نے ٹوکن اسٹیکر سسٹم ختم کرنے اور پاکستان ایران سرحد پر آزادانہ کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی جارہی۔

پاک ایران بارڈر سے ہزاروں لوگ محنت مزدوری کرکے گھر بارچلا کر اپنے بچوں اور خاندان کے تعلیمی اورمعاشی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بارڈر ٹریڈ کے علاوہ عوام کے پاس کوئی متبادل روزگار نہیں ہے۔ یہاں نہ صنعتیں ہیں اور نہ ہی روزگار کے دیگر مواقع۔ ٹوکن سسٹم کی وجہ سے پچاس فیصد کاروبار متاثر ہوا ہے۔ سینکڑوں تاجروں کو کاروبار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ حکومت نے ایک پالیسی کے تحت عوام کو کاروبار سے دور کردیا ہے۔

ایک طرف ان مسلح جتھوں کو ایک منصوبے کے تحت عسکری طور پر منظم کیاگیا۔ دوسری جانب ضلع پنجگور میں بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری نے پاک ایران بارڈر ٹریڈ پر ٹوکن اور اسٹیکر سسٹم متعارف کرانے کے بعد علاقے میں سر اٹھانا شروع کردیا۔ ٹوکن سسٹم کی وجہ سے بارڈر ٹریڈ میں پچاس فیصد تاجروں، ڈرائیوروں اور مزدوروں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ وہ بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ ٹوکن من پسند تاجروں کو دیا جارہا ہے۔ اس پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ضلع میں بے روزگاری عام ہوگئی۔ مسلح جتھوں نے ان بے روزگار نوجوانوں کو اپنے گروپ میں بھرتی کرنا شروع کردیا۔ بارڈر پر ڈرائیوروں اور مزدوروں کو مہینے میں جتنے پیسے ملتے تھے وہ ان کو مسلح جتھوں کے ساتھ ڈکیتی مارنے اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہونے سے ایک دن میں اتنے ہی پیسے ملنے لگے۔ اس طرح یہ منافع بخش کاروبار ہوگیا۔ یہ سب ایک حکمت عملی کے تحت کیاگیا تاکہ بلوچ معاشرہ جرائم پیشہ بن جائے اورایک غیرسیاسی معاشرہ جنم لے سکے۔ یہ لوگوں کو سیاسی جدوجہد سے دور رکھنے کی ایک پالیسی ہے۔ علاقے میں سیاست کو بندوق کے نوک سے چلانے کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ جب معاشرے میں غیر سیاسی نوجوانوں کو بندوقیں تھمادی جاتی ہیں۔ وہاں سے معاشرتی و سماجی برائیاں جنم لینا شروع ہوجاتی ہیں۔ بندوق اس کے ہاتھ میں دے دی جائے جو ذہنی اور اعصابی طور پر مضبوط شخصیت کا مالک ہو۔ انہیں معلوم ہو کہ اس بندوق کو کہاں استعمال کرنا ہے۔ یعنی بندوق نظریہ و سوچ کی پابند ہو نہ کہ نظریہ و سوچ بندوق کے پابند ہوں۔ ان نوجوانوں کو بندوقیں دے کر آپ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟

ماضی میں بھی مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں یہ کھیل کھیلاگیا جس کو عوامی طاقت کے ذریعے کچل دیاگیا۔ ضلع کیچ میں مسلح جتھوں کے خلاف چلنے والی تحریک شروع میں ایک خود رو تحریک تھی۔ جب ضلع کیچ کے علاقے ڈنوک میں تین مسلح ڈاکو ڈکیتی کی نیت سے ایک مکان میں گھس آئے تھے۔ کم سن بچی کی والدہ ملک ناز کو مزاحمت کرنے پرگولی ماردی گئی تھی جبکہ چھوٹی بچی برامش بلوچ بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب پورا مکران ڈاکو راج کے لپیٹ میں تھا۔ مسلح افراد آزاد گھومتے تھے۔ سرِعام اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ پرامن لوگوں کو حراساں کیا جاتا تھا۔کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی۔ چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ ان مسلح افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم تھی۔ پورے ضلع میں ایک خوف کا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی عزت کے ڈر سے چپ رہتا تھا۔ کیونکہ ان مسلح افراد کو پشت پناہی حاصل تھی جس کی وجہ سے ان کو کھلی چھوٹ حاصل تھی۔

لیکن ڈنوک کی شہید ملک ناز نے اس خوف کی کیفیت کا خاتمہ اپنی بہادری سے کیا۔ انہوں نے اکیلی تین مسلح ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا۔آخری دم تک ایک مسلح فرد کو پکڑ ے رکھا۔ حالانکہ وہ بری طرح زخمی تھی۔ لیکن وہ ایک ڈاکو کو پکڑ کر عوام کے حوالے کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن اس کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ انہوں نے اپنے لہوسے معاشرے میں ایک خوف کا خاتمہ کردیا۔ ان کے خون نے عوام کو ایک نئی زندگی دی۔ ایک نیا راستہ دکھایا۔ وہ راستہ مزاحمت اور بہادری کا تھا۔ جس کا آغاز کیچ کے بجائے گوادر میں ایک مظاہرے کی شکل میں سامنے آیا۔ اس مظاہرے کی قیادت شاہ داد بلوچ، بالاچ قادر اور حسین واڈیلہ کررہے تھے۔ اس مظاہرے کی فوٹیج سوشل میڈیاکی زینت بن گئی تھی۔ مقررین اپنی تقاریر میں مسلح افراد کو للکارہے تھے۔ ان کی گونج اتنی تیز تھی کہ اسکی آواز پورے مکران ڈویژن سمیت بلوچستان اور سندھ کے تمام علاقوں میں سنائی دی۔ اس طرح خوف کی کیفیت کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا کہ چند مراعات یافتہ اور حمایت یافتہ مسلح افراد سے ان کی طاقت کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کی طاقت نے اسلام آباد کے ایوانوں کو شش وپنج میں ڈال دیا۔ بالآخر نامزد ملزمان کو جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔

اسی طرح قلات ڈویژن میں بھی مسلح جتھوں کو منظم کیا گیا۔ انہیں کھلی چھوٹ دی گئی۔ جس کی وجہ سے علاقے میں اغوا برائے تاوان کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ علاقے کے ہندو تاجر کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق2008 سے اب تک مختلف علاقوں سے 85 ہندو تاجروں کو تاوان کے لئے اغواکیاگیا۔جن میں سے تین کو مزاحمت پر قتل کردیاگیا۔ جس کی وجہ سے کئی لوگ نقل مکانی کر کے سندھ اور انڈیا بھی چلے گئے۔

حال ہی میں ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں ہندو تاجر اشوک کمار کوگولیاں مار کر قتل کردیاگیا۔ قلات ڈویژن کے مختلف اضلاع میں ہندو کمیونٹی کے افراد ہزاروں کی تعداد میں آباد ہیں۔ صرف خضدار ضلع میں پانچ سے چھ ہزار ہندو رہتے ہیں۔ جن میں سے اکثریت چھوٹے تاجر اور دکاندار ہیں۔ یہ ہندو کمیونٹی یہاں کے اصلی باشندے ہیں۔ وہ یہاں کے انڈیجینس لوگ ہیں۔ بلوچوں سے پہلے اس خطے میں ہندو آباد تھے۔ یہ ہندو بھارت یا سندھ سے نہیں آئے ہیں۔ یہاں ان کی حکمرانی تھی۔ ریاست قلات کا قیام 1512 عیسوی میں ہوا، اس سے قبل یہاں ہندو حکمران تھے جنہیں ہندو سیوائی حکمران کہا جاتا تھا۔ میر قمبر نے ہندو سیوائی حکمران کو جنگ میں شکست دینے کے بعد اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یوں قلات پربلوچ حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

پالیسی میکر نے نہ صرف بلوچستان میں پرامن عوام کو بندوق کے نوک پر زندگی گزارنے پر مجبور کیا بلکہ جہاں جہاں بلوچ آبادیاں تھیں، انہیں جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیاگیا جس کی مثال کراچی میں بلوچ آبادیاں ہیں۔ بالخصوص کراچی میں بلوچ علاقے خصوصاً لیاری جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیاگیا۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق اور منشیات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیاری، پراناگولیمار، جہانگیر روڈ، ملیر، گڈاپ، مواچھ، ماری پور سمیت ہاکس بے کے قدیم گوٹھوں میں جرائم پیشہ افراد منشیات فروشی کرتے رہے۔ ہرمحلہ اور گلی میں منشیات فروشی کی گئی۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں بندکررکھی تھیں۔ لیاری کی سیاسی معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کے لئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ اسلحہ تھمادیا گیا۔ عوام کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑاگیا۔ ایک سازش کے تحت لیاری کے محنت کش عوام کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی۔ منشیات فروشوں کو منظم کیا گیا۔ جرائم پیشہ افراد کے سربراہ کو سردار کا لقب دیاگیا۔ عزیر بلوچ سے سردار عزیرجان بلوچ کا نام دیاگیا۔ بغیر قبیلہ کے سردار بننا ایک حیران کن بات تھی۔ اگراس کا پورا نام ’’ سردار عزیر جان ہیروئن زئی‘‘ لکھتے تو مطلب سمجھ میں آتا کیونکہ وہ ہیروئن فروخت کرنے والے جرائم پیشہ افراد کا سردار تھا۔وہ لیاری کے باشعور عوام کا سردار نہیں تھا۔ اور نہ ہی لیاری کے سیاسی عوام سرداری نظام کو مانتے ہیں۔

ہمارے نام نہاد قومی میڈیا نے جرائم پیشہ افراد کو ہیرو بنانے کے لئے ان کے لائیو انٹرویوز کئے۔ تمام چینلز کے کرنٹ افیئر کے پروگرامز میں انہیں دیکھا گیا۔ یہ سارا معاملہ اسکرپٹیڈ تھا۔ یہ سب کو معلوم تھا کہ یہ اسکرپٹ کہاں سے تیار کیاگیا ہے؟ اور اس کے مقاصدکیا ہیں؟ لیاری کے جرائم کو میڈیا میں کوریج دی گئی۔ تاکہ علاقے کا امیج خراب کیا جائے۔ تھانوں کے ایس ایچ او ان کی مرضی سے تعینات ہوتے تھے۔ ایک منظم پالیسی کے تحت جرائم پیشہ افراد کی حکومت بنائی گئی تاکہ ایک پرامن معاشرے کو کریمنالائزڈ کیا جاسکے۔ ایک غیر سیاسی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ دراصل جب معاشرہ غیرسیاسی ہوجاتا ہے تو حکومتی اداروں کو سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ان کے لیے اپنی حکمرانی کو مزید طول دیناآسان ہوجاتاہے۔

One Response to “لائسنس ٹوکِل”

  1. Abdul Wahab Baloch

    عزیز سنگھور مایہ ناز صحافی ہیں ان کی تحریریں حق گو صحافت کی عکاسی کرتی ہیں آج کے دور میں جب بلوچستاں کے مسائل اور ایشوز پر ہر طرف سے
    خاموشی ہے تو یہ بےباک صحافی نہ صرف بلوچستاں کے ایشوز پر لکھ رہا ہے بلکہ جرات مندانہ صحافت کرتے ہوئے حقائق کو بھی سامنے لا رہا ہے

Comments are closed.