|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2021

جنابِ عالی کیسے ہیں ، شب و روز خوب گزر رہے ہیں۔ کئی دنوں سے لکھنے کا من تھا مگر فرصت ہے کہ ملتی ہی نہیں۔۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ لکھنا بھول گیا ہوں مگر اب حالات اور اپنی ذات کے گرداب میں کچھ الجھ سا گیا ہوں۔ یوں تو ہم زمانے بھر کی باتیں کرتے ہیں اور وہ بھی کرتے ہیں جو کرنے کے قابل نہیں اور نہ ہی ہمارا ان سے کوئی لین دین ہے۔ ہمارے ہاں آجکل میٹیریلز پر بہت زور دیا جا رہا ہے۔ ہر کوئی پیسہ کمانا چاہتا ہے اور کمانا بھی چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ مگر ایک بہت اہم ایشو ہے جسکو ہم ہمیشہ نظرانداز کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ایموشنل انٹیلیجنس نامی کسی چیز کے متعلق کبھی نہ بتاتے ہیں اور نہ ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں جہاں وہ اس کو سیکھ سکیں۔ ایموشنل انٹیلیجنس کو اگر سادہ زبان میں سمجھیں تو اسکا مطلب ہے اپنے جذبات اور احساسات کو سمجھنا اور انھیں بر وقت استعمال کرنا۔ اسی طرح دوسروں کے جذبات اور احساسات کی بھی قدر کرنا۔

اس کی وجہ سے آپ کے رویے بیلنس رہتے ہیں اور زندگی میں بھی سکون رہتا ہے۔ مگر جب ہم اپنے ایموشنز کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہماری پرسنیلٹی میں ہمیشہ کے لیے ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے جسکی وجہ سے ہم اپنی زندگی میں ہمیشہ پریشان اور بے سکون دکھتے ہیں۔ ہمیں بچپن سے ہی ایموشنز کو دبانا سکھایا جاتا ہے جو ہماری شخصیت کو تباہ کردیتا ہے۔ تکلیف ہو بھی تو رونا نہیں، اظہار نہیں کرنا تمہیں کمزور سمجھا جائے گا بس نظر انداز کرو اور ایکٹ کرو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں جس کی وجہ سے ہمارے لڑکے اور لڑکیاں انتہائی شدت پسندانہ طبیعت کے مالک بن جاتے ہیں جس وجہ سے کبھی اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں اور کبھی دوسروں کو ہاتھ لے لیتے ہیں۔ اب یہ بھی نہیں سکھایا جاتا کہ ان ایموشنز کو چیلنج کیسے کرنا ہے۔ اگر تکلیف ہے تو اسکا آلٹرنیٹ علاج کیسے نکالنا ہے۔ اب ہوتا کیا ہے کہ سالوں تک پہلے ایموشنز کو نظرانداز کیا جاتا ہے، دبایا جاتا ہے پھر وہ لاوا بن کر نکلتے ہیں اور آپ کو بھی تباہ کرد یتے ہیں۔ نظر انداز کرنا کوئی علاج نہیں، اگر کوئی مسئلہ ہے تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے اسے قبول کیا جائے تاکہ اسکا علاج کیا جا سکے۔

ٹین ایج میں بچے ایموشنل اتار چڑھائو سے گزرتے ہیں مگر ہمارے ہاں جو رویہ اپنایا جاتا ہے انہیں ڈیل کرنے کا وہ انتہائی نامناسب ہے۔ اکثر بچوں کو ٹین ایج میں کوئی محبت ہو جاتی ہے، کیونکہ اس فیز میں اٹریکشن عروج پر ہوتی ہے۔ ایموشنل بھی بہائو کا شکار ہوتے ہیں۔ اس ایموشنل اتار چڑھائو میں اب اکثر بچے اپنا دل کھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ کہیں گے یہ سب فضول باتیں ہیں، ایسا کچھ نہیں ہوتا، دماغ کا فتور ہے۔ بچوں کے سامنے ایسی باتیں کر کے ان کا دماغ خراب کیا جا رہا ہے۔ پہلی چیز تو کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ اس کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ دوسرا آجکل کے بچے بہت کچھ جلدی سیکھ ہوتے ہیں، اب آپ انہیں جہاں بھی بند کر لو ان کو زمانے کی ہوا لگنی ہی لگنی ہے۔ آپ خود انہیں سکھائو اور سمجھائو گے نہیں تو وہ باہر الٹا سیدھا ہی سیکھیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ ساتھ بیٹھیں اور انہیں سمجھائیں کہ کیا ہو رہا ہے اور انہیں اسے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ جیسے بچوں کو موبائل فون دینے سے پہلے، بتانا اور سمجھانا ضروری ہے کہ انہیں اسے استعمال کیسے کرنا ہے۔ اسی طرح جب وہ ایموشنل اتار چڑھائو سے گزریں تو انہیں چپ کرانے اور بند کرنے کی بجائے بتائیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں وہ اسے ڈیل کر سکتے ہیں اور اس میں وہ ان کے ساتھ ہیں۔

اچھا اب آتے ہیں نوجوانی کی دکھتی رگ محبت پر، پہلی بات محبت کوئی بری چیز نہیں ایک بہت ہی خوبصورت جذبہ ہے جو آپ کو انسان ہونے کا احساس دلاتا ہے وگرنہ آپ پتھر کی طرح زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو ایسے بے شمار پتھر اپنے اردگرد کثرت سے ملیں گے جن میں احساسات اور جذبات نامی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ بس مشین کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر جہاں یہ محبت ایک خوبصورت جذبہ ہے وہیں اسکے اصول و ضوابط ہیں جنہیں سیکھنا بہت ضروری ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ محبت کا کوئی اصول نہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سب سے زیادہ اصول ہی محبت کے ہیں ۔ واصف علی واصف کہتے ہیں کہ محبت اور خوشی دینے سے ملتی ہے مانگنے سے نہیں۔

ہمارے ہاں یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ محبت حوس یا حاصل کرنا نہیں ہے یہ تو ایک قربانی اور احساس کا جذبہ ہے جو آپ کی ذات کو پالش کرتا رہتا ہے۔ ہمارے نوجوان حوس میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حاصل کرنا ہی بس محبت ہے۔ اگر نہ ملے تو چھین لو، مار دو یا جلا دو۔ اگر یہ سب نہ کر سکو تو خود کو ختم کر لو۔ خدارا ہمیں نوجوانوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک منفرد جذبہ ہے جس کی حفاظت کرو گے تو کوئلے سے کندن ہو جاؤ گے اور بے حرمتی کرو گے تو خاک ہو جاؤ گے۔

پا لینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا، اس جذبے کی لو کو اپنے اندر جلائے رکھنا سب سے بڑی بات ہے۔ یہ تاکہ عمر تمہاری شخصیت کو نکھارتی رہے گی۔ تمہیں محبوب ملے یا نہ ملے تمہاری شخصیت سونا بن جائے گی۔ ٹوٹے دل کا تو ویسے ہی خدا کے ہاں الگ مقام ہے۔ اس سے نکلنے والی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی۔ محبت دل کو نرم کر دیتی ہے، جسکے بعد آپ انسانیت کے درد کو سمجھنے لگتے ہو۔ محبت ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔اب یہ تم پر ہے تم چنتے کیا ہو۔ محبت انسان کو چاہنا ہی تھوڑی ہے، یہ ایک احساس ہے، ایک مقصد ہے جتنا بڑا مقصد ہو گا اتنی بڑی منزل سے نوازا جائے گا۔ سو محبت کا ہو جانا کچھ غلط نہیں مگر اس کے بعد تم کیسے اس سے ڈیل کرتے ہو یہ تم کو طے کرنا ہوگا۔
یہ جو ہوتا ہے نہ کہ اگر وہ مجھ کو نہ ملی یا ملا تو آگ لگا دو ںگا، مار دوں یا مر جاؤنگا۔ فلاں کی ہمت کیسے ہوئی مجھ کو انکار کرنے کی۔ ایک بریک اپ پر زندگی کو تباہ کر لینا، محبت کے جذبے کی بے حرمتی ہے۔ انکار ہونا یا دھوکا کھانا کچھ گناہ نہیں مگر اس کے بعد آپ اسے ڈیل کیسے کرتے ہو یہ اہم ہے، سیکھنا ہے اور اپنے بچوں کو سکھانا ہے۔ اس شدت پسندانہ رویوں سے جان چھڑانی ہو گی وگرنہ کتنی زندگیاں یونہی تباہ ہوتی رہیں گی۔ اور ریلیشن شپ میں خاص طور پر کنسنٹ (رضامندی) کی اہمیت سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے، یہ زور زبردستی کا حاصل کرنا آپ کو چند لمحے کی تسکین تو دے سکتا ہے مگر ساری زندگی آپ اپنے آپ سے لڑتے رہتے ہیں، خود کو صفائی دیتے رہتے ہیں اور سکون تو دور دور تک نہیں ملتا۔
ہم ہمیشہ بچوں کو جیتنا سکھاتے ہیں کبھی انہیں بتاتے ہی نہیں کہ کسی موڑ پر تمہاری ہار بھی ہو گی اور اسے تمہیں ایسے ڈیل کرنا ہو گا۔ اب ہمارے ہاں سب حالات کے رحم و کرم پر ہے، جو تو مضبوط اعصاب کے لوگ ہیں وہ گر گر کر سیکھ جاتے ہیں اور باقی خود کو ہار جاتے ہیں۔ مگر یہ کتنا تکلیف دہ ہے یہ سبھی جانتے ہیں، آپ کی ذات فنا ہو جاتی ہے۔ پھر ریجیکشن کوئی بری چیز نہیں، یہ تو آپ کو ایک موقع دیتی ہے کہ بھئی سوچ لو ابھی بھی وقت ہے جو تم نے فیصلہ کیا ہے، کیا وہ ٹھیک ہے۔ ریجیکشن آپ کیلیے نئے نئے راستے کھولتی ہے۔ خود کو reconsider کرنے کا موقع دیتی ہے۔ ہمیں سیکھنا ہے کہ اس ریجیکشن اور درد کو کیسے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اسکو ہتھیار بنا کر کیسے اپنی زندگی بدلی جاسکتی ہے۔ دنیا میں جس بھی شخص نے کوئی نام بنایا ہے یا کچھ کیا ہے اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایک درد تھا جیسے اس نے اپنی طاقت بنا کر خود کو امر کر دیا۔ تمہیں بھی اپنے ٹوٹے ہوئے دل اور درد کو اپنی طاقت بنانا ہے، اور تمہیں جھٹلانے والوں کو خودکشی، یا جلا کر نہیں بلکہ خود کسی قابل کر کے دکھانا ہے۔
اسی لیے تو اقبال کہتے ہیں کہ
خدا تجھے کسی طْوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
جناب والا، ضروری ہے کہ ہم ایموشنل انٹیلیجنس کو سمجھیں، اس پر بات کریں، اسے اپنے نصاب میں شامل کریں تاکہ ہماری زندگیوں میں بیلنس آئے اور ہم سکون سے زندگی گزاریں۔
زندگی کسی ایک تجربے اور ایموشن کا نام نہیں ہے، یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے۔ جہاں کبھی محبتیں ملتی ہیں، تو کبھی چھین لی جاتی ہیں۔ وفا بھی ہے جفا بھی ہے۔ کبھی ہم سفر چھوڑ جاتا ہے تو کبھی اجنبی اپنا بن جاتا ہے۔ کبھی نوکری چھوٹ جاتی ہے تو کبھی یونہی مل جاتی ہے ۔ کبھی ماضی کی دردناک یادیں ستاتی ہیں تو کبھی مستقبل کے ڈرائونے خواب ڈراتے ہیں۔کہیں کوئی تنہا ہے تو کوئی رشتوں میں گرا۔ کوئی کالا ہے تو کوئی گورا، کوئی لمبا ہے تو کوئی چھوٹا۔ کوئی شادی شدہ ہے تو کوئی کنوارہ۔ کوئی بچہ ہے تو، کوئی جوان تو کوئی بوڑھا، یہ سب زندگی کے فیزز ہیں مگر کسی ایک لمحے یا فیز کی وجہ سے زندگی رک نہیں جاتی زندگی چلتی رہتی ہے اس لیے ہمیں بھی اس کے ساتھ چلنا ہے کبھی رو کر تو کبھی ہنس کر۔