اس وقت دنیا بھر میں افغانستان کی خبریں چل رہی ہیں اورہر ایک اپنے تجزیے کر رہا ہے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی دنیا کیاافغانستان میں طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کریگی یا نہیں؟ اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو طالبان نے آخری بار 1996 سے 2001 تک حکومت کی اس دوران اقوام متحد ہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اْنکی جگہ صدر برہان الدین ربانی کواقوام متحدہ میں نمائندگی دی تھی۔ اب ایک بار پھرافغانستان میں طالبان کی حکومت اقتدار میں آگئی ہے اور اقوام متحدہ کا 76واں سالانہ اجلاس بھی آگیا ہے۔
جسکے کیلئے افغانستان کی نمائندگی کیلئے اقوام متحدہ کو 2 خط موصول ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن نے تصدیق کی ہے کہ 15 ستمبر کو افغان حکومت کے موجودہ وقت کے سفیر غلام اسحاق زئی کی جانب سے اسمبلی کے اجلاس کیلئے افغانستان کے وفد کی فہرست کا خط موصول ہوا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بتایاہے کہ وزارت خارجہ امارات اسلامیہ افغانستان کے لیٹر ہیڈ کے ساتھ ایک اور خط بھی موصول ہوا ہے جس پرخان متقی نے بطور وزیر خارجہ دستخط کر رکھے تھے افغانستان کی نئی حکومت کے وزیر خارجہ ملاامیر متقی نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو خط لکھا کہ طالبان حکومت کو اقوام متحدہ میں تقریر کا موقع دیا جائے کیونکہ 15 اگست کو اشرف غنی عہدے پر نہیں رہے اور ملک سے فرار ہوچکے ہیں لہذا اقوام متحدہ اشرف غنی حکومت کے دورمیں مقرر کیے جانیوالے پہلے سفیر کو فارغ تصور کرے کیونکہ اب اشرف غنی کی حکومت نہیں ہے۔
اس لیے وہ سفیر وہاں کام نہیں کرسکتے ۔افغان طالبان نے غلام اسحاق زئی کی جگہ دوحہ آفس دیکھنے والے اور امریکہ مذکرات کے دوران اہم رکن موجودہ ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ میں اپنا سفیر تعینات کردیا ہے۔ اب افغانستان کے ان دونوں خطوط کا معاملہ اقوام متحدہ کمیٹی کو بھیجا گیا ہے ۔طالبان حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے اس خط سے پہلے افغانستان میں کیا تبدیلیا ں کی گئیں ہیں اگر اس پر نظر ڈالیں توپاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے تاجکستان کے صدر کے ساتھ مل کر روس اور چائنہ کے کہنے پر جو کوشش کی تھی اْس میں اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے افغانستان کی کابینہ میں توسیع کر دی گئی ہے اب افغان کابینہ میں ازبک تاجک اور ہزارہ افراد کی نمائندگی بھی شامل کرلی گئی ہے، 16مزید وزراء بھی کابینہ میں شامل کرلیے گئے ہیں ۔
پنجشیرسے تعلق رکھنے والے تاجرحاجی نورالدین کو وزارت تجارت کا قلمدان دیا گیا ہے ہزارہ برادری کے ڈاکٹر حسن غیاسی نائب وزیر صحت مقررکیے گئے ہیں جبکہ ازبک برادری کے تاجر محمد بشیر نائب وزیر تجارت کے فرائض انجام دیں گے اور طالبان کے معروف کمانڈرملاعبدلقیوم ذاکر نائب وزیر دفاع اور ملا صدر ابراہیم ذاکر کو نائب وزیر داخلہ بنادیا گیا، یہ دونوں کمانڈر ایران کے قریبی سمجھے جاتے ہیں جنہیں کابینہ میں شامل کرنے سے ایران کے تحفظات دور کردئیے گئے ہیں اور افغانستان سے دنیا کے مختلف ممالک میں ہجرت کرنیوالے مہاجرین کی واپسی کیلئے ایک وزیر مقرر کیا گیا ہے تاکہ ملک سے ہجرت کرنیوالوں کو واپس لاکر افغانستان میں آباد کیا جائے، اس کے علاوہ بجلی و توانائی جوہری ذخیرسمیت دیگر اہم شعبوں کیلئے بھی وزراء مقرر کردئیے گئے ہیں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق نئی ذمہ داریاں طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے حکم پرسونپی گئیں ہیں۔ ان تبدیلیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان حکومت کس طرح سفارتی محاذ پر محتاط انداز میں آگے بڑ رہی ہے ۔
اقوام متحدہ میں لکھے گئے خط سے قبل طالبان نے اپنی کابینہ میں ہر طبقے و قوم کے افراد کو شامل کیاہے اس وقت امریکہ کہ شہر نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خاص طور پر افغانستان کشمیر اور فلسطین پر بات ہو ئی ہے۔ جبکہ افغانستان سے آنیوالے دونوں خطوں کو جس کمیٹی کی طرف بھیجا گیا ہے اْس کے ارکان میںامریکہ ،روس، چین ،بھوٹان، چلی شامل ہیں جو مشاورات کرینگے لیکن اہم فیصلہ امریکہ روس اورچین کرینگے ۔
افغانستان کی تقریر کا دن27 ستمبر کو اعلیٰ سطحی اجلاس کے آخری روزہے اب دیکھتے ہیں اس سفارتی جنگ میں کون کامیابی حاصل کرتا ہے۔۔ اگر ہم موجودہ صورتحال کو دیکھ کر تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہے کہ پہلے تمام بڑی قوتیں ایک جگہ تھیں لیکن اب افغانستان بھی تگڑا ہوگیا ہے اورتمام بڑی عالمی قوتیں یک جاہ نہیں ۔چائنہ، روس ،پاکستان، ترکی اور کچھ دیگر ممالک بھی افغانستان کیساتھ ہیں ۔قطر کے امیر شیخ تمیم نے بھی کہا کہ ہم نے طالبان کے ساتھ مذکرات میں اہم کر دار ادا کیا، اب عالمی رہنماء طالبان کو تنہا نہ چھوڑیں اْن سے بات کریں اور اب یہ تنازعات ختم ہونے چاہییں جبکہ ترکی کے صدر طیب اْردگان نے افغانستان کے مسئلے پر کہا کہ اس کو حل ہونا چاہئے افغان عوام کو تنہا نہیں چھورا جانا چاہئے ۔
جبکہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بھی افغانستان کے مسئلے پر بات کرتے ہوا کہا کہ امریکہ دراصل عراق اور افغانستان سے گیا نہیں بلکہ نکالا گیا ہے اور کیپٹل ہل سے کابل تک ایک ہی پیغام ہے امریکہ کی اب ساکھ نہیں رہے گی ۔جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو ہم نے دیکھا کہ 1945 کے بعد سے امریکہ کو کسی لڑائی میں کامیابی نہیں ہوئی اور افغانستان جنگ کے بعد یہ بات امریکہ کو سمجھ آگئی ہے جوبائیڈن نے جو تقریر کی اْنہوں نے کہاکہ ہم جنگوں سے تنگ آگئے، جنگیں لڑ کرکسی پر غلبہ نہیں پایا جا سکتا ۔اْنہوں نے کہا کہ فوجی قوت آخری حربہ ہونا چاہئے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بار بار کہا ہے کہ چائنہ اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ دنیا کو تباہ کردیگی جس کے جواب میں امریکہ کے صدر نے کہا امریکہ نئی سرد جنگ یا تقسیم شدہ دنیا کا خواہاں نہیں ہے۔لیکن ان باتوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ امریکہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ بہر حال جہاں تک طالبان حکومت کی بات ہے تو اب افغانستان نے تمام تحفظات دور کردئیے ہیں اب وقت آنیوالا ہے کہ افغان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم لیا جائے گالیکن موجودہ صورتحال میں امریکہ طالبان کی اقوام متحدہ میں تقریرپر راضی نہیں ہوگا جبکہ روس اور چائنہ اسحاق زئی کیلئے نہیں مانیں گے تو فیصلہ موخر کردیا جائے گا اورموجودہ اسمبلی میں ممکن ہے کہ افغانستان کی طرف سے دونوں ہی شرکت نہیں کرسکیں گے۔