ضلع کیچ میں سرکاری گولی سے ایک اور بے گناہ خاتون تاج بی بی دم توڑگئیں۔ اندھا دھند فائرنگ سے تاج بی بی کاشوہر محمد موسیٰ بھی زخمی ہوگیا۔ یہ خاندان آبسر کے علاقے آسکانی بازار کے رہائشی ہیں۔ دونوں میاں بیوی لکڑیاں کاٹنے قریبی جنگل میں گئے تھے۔ جہاں فورسز نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے ایک کو قتل جبکہ دوسرے کو زخمی کردیا۔ ان کا قصور اتنا تھا کہ وہ اپنا چولہا جلانے کے لئے لکڑیاں کاٹنے جنگل گئے تھے۔ مکران ڈویژن سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔بلوچستان میں گیس پیدا ہوتی ہے۔ صد افسوس کہ بلوچستان کے عوام اس نعمت سے محروم ہیں۔
جبکہ بلوچستان کی گیس چوری کرکے پنجاب سمیت پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہے۔ جبکہ بلوچستان کے عوام اپنے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلاکر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد اب عوام چولہا بھی نہیں جلاسکتے، اگر کوئی یہ کوشش بھی کرے گا تو انہیں جنگل میں بھون دیا جائیگا۔ تاج بی بی کا خاندان اس سے قبل تربت کے مضافات بالگتر میں رہتاتھا۔فوجی آپریشن کی وجہ سے انہیں اپنے آبائی علاقے سے ہجرت کرنا پڑی۔ وہ تربت کے علاقے آبسر میں واقع شاہ آباد کے قریب آسکانی بازار میں جھونپڑیاں بنا کر رہنے لگے۔ بلوچستان میں اہم مسئلہ امن و امان کا ہے۔ جہاں امن و امان کی صورتحال ابتر ہونے کی وجہ سے لوگ اپناگھر بار چھوڑ کر شاہ آباد، آسکانی بازار، زیارت شریف، کولواہی بازار سمیت دیگر علاقوں میں آکر آباد ہوگئے۔حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی مدد کریں۔
انہیں بہتر سے بہتر رہائش فراہم کرے۔ جیسے خیبرپختونخواہ میں وزیرستان اور دیگر علاقوں کے آئی ڈی پیز کو حکومت نے رہائشی سہولیات اور مالی اعانت فراہم کی۔مگر بلوچستان کے آئی ڈی پیز دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے پورے بلوچستان میں اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2001 سے لیکر آج تک بلوچستان کے مختلف اضلاع میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔اس حوالے سے پورے بلوچستان میں رہائش ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس کی اصل وجہ جنگ کی صورتحال ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ڈیرہ بگٹی، کوہلو، آواران، کولواہ، کلانچ، دشت، بلیدہ، مند، پنجگور، بولان، سمیت دیگر علاقوں میں لاکھوں لوگ ہجرت کررہے ہیں۔ بعض افراد سندھ کے مختلف اضلاع میں جاکر آباد ہوگئے ہیں۔ جبکہ ضلع لسبیلہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے پناہ لے لی ہے۔ لاکھوں لوگ آئی ڈی پی کی حیثیت سے رہتے ہیں اور ان میں سے 33 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ گمنامی میں مررہے ہیں۔ نہ عالمی میڈیا اور نہ عالمی ادارے اور نہ ہی خیراتی ادارے کبھی ان کے پرسان حال بنے ہیں۔بلوچستان میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ اہلکار جان سلیکی کا اغوا بھی عالمی اداروں کی خاموشی کا تسلسل تھا۔ جس کی بازیابی بلوچ گوریلا رہنما نواب خیربخش مری کی اپیل کے نتیجے میں ہوئی۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یونیسف جیسے عالمی اداروں سمیت ، ایدھی فاونڈیشن جیسے خیراتی اداروں کو بلوچ پناہ گزینوں کی کوئی مدد نہ کرنے کا اشارہ دیاگیا ہے حالانکہ عالمی قوانین کے مطابق جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی حکومت اور عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہیں ہر ماہ نقد رقم، راشن، کھانے پینے کی دیگر اشیا اور رہائش فراہم کی جانی چاہئے۔ جس کی مثال ہمارے سامنے خیبر پختونخوا کے آئی ڈی پیز ہیں۔ جنہیں عالمی ادارے سمیت حکومت بھی مدد فراہم کرتی رہی۔
شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو حکومت کی جانب سے ہر ماہ 12 ہزار روپے نقد، راشن اور کھانے پینے کی دیگر اشیا فراہم کی جاتی تھیں۔ شاید بلوچستان میں عالمی اور حکومتی ادارے بلوچوں کو انسان نہیں سمجھتے۔ انہیں بلوچستان کے وسیع و خوبصورت ساحل اور معدنیات سے پیار ہے۔ لیکن ان کے سامنے بلوچستان کے عوام کی زندگی کے کوئی معنی و قدر نہیں ہے۔
یاد رہے کہ فورسز نے گزشتہ سال آبسر کے علاقے کولواہی بازار سے تعلق رکھنے والے حیات بلوچ کو ان کے ماں اور باپ کے آنکھوں کے سامنے قتل کردیا تھا۔ حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ حیات بلوچ کے قتل کے خلاف سول سوسائٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کیاگیا تھا۔
سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو بلوچستان میں حدسے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ملکی قانون، آئین اور انسانی حقوق کی سرعام پامالی کرتے ہوئے بلوچ قوم کی نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر تذلیل کرتے ہیں بلکہ بلوچ نوجوانوں سمیت بزرگوں کو بھی قتل کررہے ہیں۔
تاج بی بی کی شہادت کے واقعہ کے پیچھے ایک ذہنیت اور سوچ کارفرما ہے۔ اس ذہنیت اور سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ورنہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی ہونگے۔ یہ وہی سوچ ہے جو معاشرے میں بغاوت کے رجحانات میں اضافہ کرتا ہے اور ہر شہری کو بغاوت پر مجبور کرتا ہے۔ پرامن شہری باغی بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب پرامن شہری اپنی جان بچانے کے لئے بندوق اٹھاتا ہے تو ان پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔
دنیا میں سیکیورٹی ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ وہ عوام کی جان و مال کومحفوظ بنائیں۔ اہلکاروں کے ہاتھوں میں بندوق تھمانے سے قبل ان کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے۔ ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں جو بندوق ہے وہ عوام کی حفاظت کے لئے ہے۔ اور بندوق کو کب اور کہاں استعمال کرنا ہے۔ اس تربیت کی بنیاد پر سپاہی بندوق کے طابع نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ بندوق اس کے طابع ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس کے برعکس کررہے ہیں۔
تاج بی بی بلوچ کا قتل ایک ماورائے عدالت قتل ہے اورایک اہلکار کو سزا دینے سے حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی فرسودہ ٹریننگ اور سوچ کو چھوڑنا ہوگا۔ ماڈرن دنیا میں جدید سیکیورٹی کے نظام کو رائج کرنا ہوگا۔ بلوچستان میں ابھی معاشرہ زندہ ہے۔ ابھی معاشرتی اقدار ختم نہیں ہوئے ہیں۔ عوام باشعور ہے۔ شاید ارباب اقتدار کو عوام کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ حالانکہ 1971 میں بھی ایک عوامی سیلاب آیاتھا جو ملک کے آدھے حصے کو لے ڈوبا تھا۔ ماضی کے غلطیوں سے حکمرانوں نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ایک اور عوامی سیلاب کا متحمل ہوسکتا ہے؟