|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2021

امریکہ اپنی غیر مقبول اوربغیر فتح 20سالہ جاری افغان جنگ ختم کرنے کیلئے مذکرات کرتا رہا اور پھر اچانک سے افغانستان سے نکلا تو سب کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی لیکن صورتحال سے پوری دنیا حیران رہ گئی اوراب موجودہ وقت میں نظر آنیوالی صورتحال میں افغانستان اور خطے میں حالات مستحکم نظر آتے ہیں۔

امریکہ کا حریف چین امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر کافی خوش ہوا ہے لیکن کیا واقعی امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر چین کو خوش ہونا چاہئے؟ تو نہیں چین کو امریکہ کے جانے پر خوش ہونے کے بجائے مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ نے اپنی فوج، وسائل اور مکمل توجہ افغانستان کے حالات پر مرکوز کر رکھی تھی لیکن اب امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور اْس کے اربوں روپے کے وسائل بھی مزید ضائع ہونے سے بچ گئے ہیں۔

اب امریکہ کی مکمل توجہ اور وسائل کا استعمال اپنی جیو پولیٹکل ترجیحات پر مرکوز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں امریکہ برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے نئے سیکورٹی پارٹنر شپ کا معاہدہ طے پا چکا ہے اور امریکہ سے آسٹریلیا نیوکلئیر پاورڈ سب میرین حاصل کریگا۔ امریکہ 50 سال بعد یہ ٹیکنالوجی پہلی بار کسی ملک سے شئیر کریگا، اس سے پہلے امریکہ نے یہ ٹیکنالوجی صرف برطانیہ کو دی تھی اس معاہدے کے تحت تینوں ممالک دفاعی ٹیکنالوجی سمیت اہم سیکورٹی معلومات کا بھی تبادلہ کرینگے۔۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اس معاہدے کو انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے جبکہ چین نے اس معاہدے پر تحفظات ظاہر کیے اوراس معاہدے کو غیر ذمہ دار انہ، تعصب اور خطے کے استحکام کو مجروح کرنیکی سازش قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ سرد جنگوں کی سوچ کو مزید پروان چڑھانا ظاہر کر رہا ہے۔ حال ہی میں ہونیوالے اس معاہدے نے چین کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ افغانستان میں شکست کھانے والے امریکہ نے چین سے مقابلے کیلئے کوئی نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔

اس وقت افغانستان کو مالی امداد اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جسکے لیے طالبان حکومت اپنے سب سے امیر ہمسایہ ملک چین کی طرف دیکھ رہی ہے جبکہ چین بھی طالبان کی حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا چکا ہے اور چین کے وزیر خارجہ نے طالبان کے سربراہان سے ملاقات کے بعد اس با ت کا دعویٰ بھی کیا تھا کہ افغانستان نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اْنکی زمین چین کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔۔ لیکن۔۔ اس دعویٰ کا عملی ہونابھی اس بات پر منحصر ہے کہ چین کا طالبان پر کتنا اثرورسوخ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت طالبان کے منظم ہونے سے جہاں امریکہ کے وقار کو نقصان پہنچا تو وہیں اْس نے جیو پولیٹیکل سیکورٹی خدشات کو بھی جنم دیا ہے اس بات کے باوجود کہ افغانستان سرمایہ کاری کیلئے چین جیسے اہم ترین ملک کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن چین کو پریشانی لاحق ہے کہ شدت پسند افغانستان کو چین کے اردگرد منظم ہونے کیلئے استعمال کرکے خطے کے امن کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔جبکہ افغانستان سے واپس جا کر امریکہ اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ اپنی طاقت اور وسائل کو ایشیاء میں چین کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کیلئے مکمل طور پر استعمال کرے جبکہ امریکہ کا یہ بھی خیال ہے کہ اب افغانستان کا مسئلہ چین کے گلے میں پڑ جائے گا ۔

کیونکہ اس وقت خطے میں واحد چین ایسا ملک ہے جسکا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر طالبان کی جیت نے خطے میں عدم استحکام پیدا کیا تو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں خلل آجائے گا یہ چین کا وہ اہم منصوبہ ہے جو پورے خطے میں پھیلا ہوا ہے لیکن جنگ کی وجہ سے اس منصوبے میں افغانستان کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اس وقت چین کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی سیکورٹی پربھی شدید خطرات ہیں جن میں خاص کر پاکستان،تاجکستان اور قرزقستان شامل ہیں۔ اگر ہم سیکورٹی کا جائزہ لیں تو گزشتہ ماہ پاکستان میں چائنیز کے ایک بس پر حملہ ہوا تھا جس میں 9 لوگ مارے گئے تھے اور اس واقعہ میں ملوث افغانستان کی سرزمین سے چلنے والی تنظیم شامل تھی۔

اگر طالبان نے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور خطے کے امن کو برقرار رکھا تو چین یقینی طور پر معاشی طاقت بننے میں تیزی سے سفر کریگا لیکن اگر افغانستان عدم استحکام کا شکار ہوا تو صرف چائنہ نہیں بلکہ اس کے اتحادی بھی شدید نقصان اْٹھائیں گے۔ امریکہ کی پالیسی تو اب واضح نظرآنا شروع ہوئی ہے 16اگست کوامریکہ کے صدر جوبیڈن نے اعتراف کیا تھا کہ افغانستان کی وجہ سے اْنکی توجہ جیوپولیٹیکل ترجیحات سے ہٹ گئی تھی اور اْنہوں نے کہا کہ روس اور چین تو چاہتے ہیں کہ امریکہ اپنے وسائل اور پیسہ افغانستان میں لگاتا رہے ۔جوبیڈن کے اس بیان سے انداز لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنا حریف روس اور چین کو سمجھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ افغانستان سے نکلے ہیں یعنی کہ وہ افغانستان میں رہتے ہوئے روس اور چین کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے امریکہ کی نئی انتظامیہ نے اپنی پالیسی بدل لی ہے۔ تو اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر افغانستان سے نکل کر کیا اب امریکہ روس اور چین سے جنگ کریگا۔۔ تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔ کیونکہ جوبیڈن نے اقوام متحدہ کے خطاب میںیہ بھی اعتراف کیا تھا کہ جنگیں لڑ کر کسی پر غلبہ نہیں پایا جا سکتا۔

اورویسے بھی امریکہ کے دونوں حریف ایک دوسرے کے قریب ہیں امریکہ کبھی بھی روس اور چین سے یک دم مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اتنی فوج امریکہ کے پاس نہیں ہے۔۔ اب امریکہ روس کو یہ باور کرانے کی بھرپورکوشش کررہا ہے کہ چین کا اثرو رسوخ روس کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔۔ جون کے مہینے میں عالمی سیاست میں انتہائی اہم سمجھی جانیوالی جوبیڈن اور پیوٹن کی ملاقات تھی جو امریکہ کے صدر نے روس کے صدر کو دعوت دے کر کی تھی جس میں دونوں ممالک کے درمیان 2 راؤنڈز میں 3 گھنٹے ملاقات جاری رہی جہاں دونوں ممالک نے اپنے تحفظات اور خدشات کا کھول کر اظہار کیا تو کئی معاملات میں اتفاق ہوا تو وہیں کئی معاملات میں اختلاف برقرار رہا۔ اس ملاقات میں بڑی پیش رفت یہ ہوئی کے دونوں ممالک نے اپنے سفیروں کو عہدوں پر واپس بھیجنے پر اتفاق کیا اورالگ الگ پریس کانفرنس بھی کی تھی ۔ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ حالیہ برسوں میں مسلسل روس پر سائبر حملوں سے متعلق الزامات لگاتا رہا ہے جبکہ جوبیڈن نے پیوٹن سے ملاقات کے بعد بھی سائبر کرائم کا کہہ ہی دیا تھا کہ روسی صدر کو پتہ ہے کہ امریکہ کے پاس اہم سائبر صلاحیت موجود ہے اور سائبر حملوں کا ایسا ہی جواب دیا جائے گا۔ اْنہوں نے کہا کہ روس ہم سے سرد جنگ نہیں چاہے گا کیونکہ ہم دونوں کے مفاد میں بہتر نہیں ہے جبکہ روس کے صدر پیوٹن نے پریس کانفرنس میں صحافی کے جواب میں کہا تھا کہ جوبیڈن تجربہ کار سیاستدان اورٹرمپ سے مختلف ہیں، پہلے صدر سوالات کو نظر انداز کرتے تھے لیکن جو بائیڈن نے کھول کر جوابات دئیے ،ملاقات کے دوران ہم میں کوئی کشیدگی نہیں تھی۔۔اْنہوں نے کہا کہ لیکن امریکی ذرائع دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ سب سے زیادہ سائبر حملے امریکہ سے ہوتے ہیں۔۔ یہاں یاد رہے کہ جب جوبیڈن پیوٹن سے ملاقات کیلئے جا رہے تھے ۔

تو جنیوا میں صحافی نے اْن سے سوال کیا تھا کہ روس امریکہ سے تعاون کیوں کرنا چاہے گا جس کے جواب میں جوبیڈن نے کہا کہ اس وقت روس مشکل میں ہے اور روس کو چین کی طرف سے دبایا جا رہاہے جبکہ روس طاقت ور ملک ہے جو کبھی ایسا نہیں چاہے گا۔۔ امریکی صدر کے ایسے بیانات اور آسٹریلیا اور برطانیہ سے ہونیوالا حالیہ سیکورٹی معاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ بڑی تیزی سے چین کے خلاف جال بچھانے کی کوشش کر رہا ہے اور تمام توجہ و وسائل کا استعمال چین کی ترقی روکنے کیلئے استعمال کر نے کی مکمل پلاننگ کر چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیاامریکہ روس کو اپنے قریب کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو جائیگا تو جناب یہ بہت مشکل ہے کیونکہ روس جانتا ہے کہ امریکہ اپنے مقابلے میں کبھی بھی روس کو خود مختار نہیں سمجھے گا جبکہ امریکہ کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ روس اتنی آسانی سے امریکہ کے قریب آنیوالا نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ روسی صدر سے ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا کہ روس کے رویے کا 3 سے 4 ماہ میں پتہ چل جائے گا۔