|

وقتِ اشاعت :   September 28 – 2021

معروف امریکی صحافی اور تجزیہ نگار سلیگ ہیریسن اپنی کتاب بلوچ نیشنل ازم اِن افغانستانز شیڈو میں لکھتے ہیں۔

“دبلے، پتلے ، سیاہ آنکھوں اور بڑی احتیاط سے تراشی ہوئی داڑھی والے عطاء اللہ مینگل اپنے دونوں ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ ” صاحب طرز” بلوچ ہیں۔ ان کا انداز ء گفتگو کھرا اور لہجہ آتشیں ہے جس کی بلوچ کلچر میں بڑی قدر کی جاتی ہے۔ گفتگو کے دوران وہ براہ راست آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں۔”

سردار عطاء اللہ مینگل 13 جنوری 1930 کو مینگل قبیلے کے سربراہ سردار رسول بخش مینگل کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے تعلیم سندھ مدرسہ کراچی سے حاصل کی۔ خان آف قلات کی جانب سے مینگل قبیلے میں مداخلت اور سازشوں سے دلبرداشتہ ہوکر سردار عطاء اللہ مینگل کے والد وڈھ چھوڑ کر لسبیلہ چلے گئے ۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے 1953 میں وڈھ آکر قبیلے کی سرداری سنبھالی۔ خان آف قلات بحیثیت سردار مینگل قبیلہ سردار عطاء اللہ مینگل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے بعض تحریروں میں یہ لکھا گیا ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل کو میر غوث بخش بزنجو کی سفارش پر خان آف قلات نے دستار بندی کی تھی۔ ان حوالوں میں صداقت نہیں ہے بلکہ خان آف قلات قبائلی رسم و رواج کے برخلاف مینگل قبیلے کے اندر مداخلت کرکے کرم خان مینگل کی حمایت کررہے تھے اور پہلی بار الیکشن اور ووٹ کے ذریعے مینگل قبیلے کے سردار کا فیصلہ ہوا ۔

کرم خان مینگل کے مقابلے میں مینگل قوم نے سردار عطاء اللہ مینگل کو بھاری اکثریت سے اپنا سردار منتخب کیا ۔ 1956 میں مغربی پاکستان اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز کیا ، اس زمانے میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔سردار عطاء اللہ مینگل غیرت، جرات، استقامت و بہادری کے پیکر تھے، 1958 میں آمر ایوب خان نے بلوچ مزاحمت کو کچلنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا لیکن وہ اس تحریک کو کچلنے میں ناکام رہے۔ پھر ایک شیطانی چال چلی گئی،مذاکرات اور عام معافی کا اعلان کیا گیا، نواب نوروز خان زرکزئی اور اس کے ساتھی اس بہکاوے میں نہیں آئے۔

ریاست نے سرداروں کے ذریعے نواب نوروز خان سے مذاکرات کے لئے جال بچھایا، ریاستی حکام نے سردار عطاء اللہ خان مینگل سے رابطہ کیا کہ وہ نوروز خان کو مذاکرت کے لئے راضی کرے لیکن سردار عطاء اللہ مینگل نے اس ریاستی سازش میں شریک ہونے سے انکار کردیا توسردار عطاء اللہ مینگل، سردار بلوچ خان محمدحسنی اور سردار فقیر محمد بزنجو سمیت دیگر قبائلی عمائدین کو گرفتار کرکے نظر بند کیا گیا۔ پھر جس طرح نوروز خان اور اس کے ساتھیوں کو قرآن پر معاہدہ کرکے اتارا گیا اس سازش میں کون شریک ہوئے وہ تاریخ کے صفوں پر واضح ہے۔

1950 کے دہائی میں سردار عطاء اللہ مینگل نے سردار منتخب ہونے کیساتھ ساتھ سیاست کا آغاز بھی کیا وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک واقعہ نے سیاست میں آنے پر مجبور کیا وہ اس واقعے کو کچھ یوں بیان کرتے تھے کہ میں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک کچی سڑک سفر کے لئے بنائی اور اس سڑک کی افتتاح کے لئے کچھ حکومتی اہلکاروں کو مدعو کیا گیا تھا، افتتاح کے بعد ان کے لئے کھانے کا بندوبست کیا گیا جب ہم کھانے کے لئے پہنچے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب کھانا نہیں کھا رہے، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ناراض ہے اور وجہ ناراضگی میں ہوں وہ اس لئے خفا ہوئے تھے کہ میں نے ان کی گاڑی کے آگے اپنی گاڑی کیوں لائی تھی۔ یہ قصہ سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ہمیں اختیار دار غلام سمجھتے ہیں اور ہمارا ان کیساتھ تعلق آقا اور غلام کا ہے اس غلامی کی احساس نے مجھے سیاست کے اس پر خار راہ پر لے آئی ۔اس کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی زندگی بلوچ قوم کی خوشحالی اور سرافتخاری کے لئے وقف کیا، مشکلات و مصائب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی 70 سالوں پر محیط سیاسی سفر کرب انگیز، مشکلات، مصائب، تکالیف، درد و الم پر مبنی ہے۔

1962 کے انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوگئے اور انہوں نے اسمبلی میں جس بہادری اور جرات سے اپنا موقف رکھا اور جس انداز سے بلوچ قوم کا مقدمہ لڑا اس کے علاوہ ککری گرائونڈ لیاری میں تاریخی تقریر کرتے ہوئے قوم پرستی و نظریاتی سیاست کا داغ بیل ڈالا ،بلوچ سماج میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔انہوں نے ایوب خان کو للکارا اس جلسے کے بعد ان کی شخصیت مزید ابھر کر سامنے آئی ان کی شعلہ بیانی، حقیقت پسندی کا بلوچ سمیت دیگر مظلوم اقوام معترف ہوئے اور بہت کم عرصے میں انہوں نے اپنا لوہا سیاسی میدان میں منوایا ۔ان کی صاف گوئی، جراتمندانہ اور مدلل موقف و تقریر سے آمر جنرل ایوب خان ان سے سخت نالاں ہوئے اور انہوں نے اس عزم و حوصلے کے پہاڑ کو توڑنے کے لئے ان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کا آغاز کیا۔

1962میں انہیں گرفتار کرکے ان کے خلاف مینگل قبیلے میں بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی اور پھر سازش کے ذریعے انہیں ہٹاکر کرم خان مینگل کو 1963 سردار منتخب کیا گیا جس کو مینگل قبیلے نے سردار ماننے سے انکار کیا اور کچھ ہی دنوں میں انہیں قتل کردیا گیا۔ جنرل ایوب خان اس موقعے کی تلاش میں تھے ان کے حکم پر کرم خان مینگل کے قتل کے الزام میں سردار عطاء اللہ مینگل ،ان کے والد محترم سردار رسول بخش مینگل، بھائی میر مہر اللہ مینگل سمیت قبیلے کے دیگر معتبرین کو شک کی بناء گرفتار کیا گیا، قتل کا الزام ثابت نہ ہونے پر سردار عطاء اللہ مینگل کو رہائی ملی۔ جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں سردار عطاء اللہ مینگل 5 سال تک قید و بند کی اذیتیں برداشت کرتے رہے اور ان کے خاندان و قبیلے نے بھی مختلف ریاستی مظالم کا سامنا کیا لیکن ان تمام تر مظالم کے باوجود وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔

1969 میں ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال کر ون یونٹ کا خاتمہ کیا، یحییٰ خان کی آمریت میں بھی سردار عطاء اللہ نے اپنی سیاسی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1970 کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے کر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوگئے ۔اس دوران 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوا مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد ون یونٹ کا خاتمہ کرکے صوبوں کو بحال کیا گیا۔ 01 مئی 1972 کو سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے، 9 ماہ کے مختصر دور حکومت میں سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچستان کی بنیادی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کا جال بچھانا شروع کیا ،بولان میڈیکل کالج، ایک دو بلوچستان میں یونیورسٹی ہیں وہ بھی ان کے مرہون منت ہیں۔

اس کے علاوہ بلوچستان بورڈ کا قیام بھی انہی کے کارناموں میں شامل ہے، سرداروں کو تعلیم دشمن قرار دینے والوں نے اس تعلیم دوست، ترقی پسند، قوم پرست عوامی سردار کو برداشت نہیں کیا ،وہ نہیں چاہتے تھے کہ بلوچ حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوں، ترقی روڈ اور نالی سے نہیں ہوتی بلکہ تعلیم، ہنر، روزگار، سائنس و ٹیکنالوجی، انسانی، سماجی ادبی و ثقافتی افزونی اور سیاسی و علمی پختگی کو ہی حقیقی انسانی ترقی کہا جاتا ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل ایک مضبوط قبائلی سردار ہونے کے باوجود بلوچستان اسمبلی میں فرسودہ سرداری نظام کے خاتمے کے لئے قرارداد پیش کی وہ بلوچ قوم کی قومی تعمیر و تشکیل سیاسی، سماجی، علمی و معاشی بنیادوں پر مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کررہے تھے، جو اسٹیبلشمنٹ اور نام نہاد ترقی پسند، سیکولر ہونے کے دعویدار بھٹو کو پسند نہیں تھے اور شروع دن سے ذوالفقار بھٹو ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کیونکہ مقتدرہ اور بھٹو یہ نہیں چاہتے تھے کہ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کی قیادت میں قوم پرستوں کی حکومت قائم ہو ،وہ بلوچستان کو بطور کالونی رکھنا چاہتے تھے اور ان کی نظروں میں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور وسائل تھے وہ وسائل کی لوٹ مار اور استحصال چاہتے تھے۔

اس لئے سردار مینگل کی حکومت کو گرانے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے گئے پولیس اہلکاروں نے ڈیوٹی ادا کرنے سے انکار کیا تھا۔اس کے علاوہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام ملازمین کو اس وقت کے گورنر پنجاب مصطفی کھرل نے پرکشش مراعات کا پیشکش کرکے واپس پنجاب بلایا تھا اور پھر یہ الزام سردار مینگل پر عائد کیا گیا کہ انہوں نے ٹیچرز کو بلوچستان سے نکالا ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو نے جام لسبیلہ کے ذریعے لسبیلہ میں حکومت کے خلاف بغاوت کروانے کی سازش رچائی اور 13 فروری 1973 کو سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے گورنر راج نافذ کیا گیا اور بلوچستان میں ایک بار پھر خون آشامی و شورش کا آغاز ہوا۔ کوہستان مری، جھالاوان اور ساراوان میں لوگ مزاحمت کا آغاز کرکے پہاڑوں پر چلے گئے، سردار عطاء اللہ مینگل کا بیٹا منیر مینگل، بھائی مہر اللہ مینگل اور ضیاء اللہ مینگل کی قیادت میں جھالاوان کے سیاسی و قبائلی لوگ بھی مسلح مزاحمت کا حصہ بن گئے۔ نیپ کو کالعدم قرار دے کر تمام لیڈروں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کردیا گیا، مشہور زمانہ حیدرآباد سازش کیس قائم کیا گیا، بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی ۔شاہ ایران کی مدد سے شورش کو کچلنے کے لئے فوجی طاقت کا بھر پور استعمال کیا گیا ،لوگوں کو قلی کیمپوں میں اذیتیں دی گئیں، ہیلی کاپٹروں سے پھینکا گیا، اسلام آبادا ور تہران کی اس بلوچ مخالف گٹھ جوڑ سے بلوچستان میں ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا۔ بلوچ سماج کو سیاسی و سماجی طور پراپاہج کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی، سردار عطاء اللہ مینگل کو جھکانے اور مزاحمت کو کچلنے کے لئے 6 فروری 1976 کو کراچی میں بلخ شیر مزاری کے رہائش گاہ کے سامنے سے سردار عطاء اللہ مینگل کے فرزند میر اسد اللہ مینگل اور ان کے ساتھی احمد شاہ کرد کو اغواء کیا گیا۔

بعض شاہدین کے مطابق اس دوران شدید فائرنگ کی گئی اور اسد و احمد شاہ کو زخمی حالت میں ان کے گاڑی سے نکال کرخفیہ اہلکار اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئے ۔اس دوران علاقے کو مکمل سیل کیا گیا تھا اور بجلی بھی بند کردی گئی تھی، جب اس واقعہ کی اطلاع سردار عطاء اللہ مینگل کو دی گئی کہتے ہیں کہ اس کے ماتھے پر کوئی شکن اور چہرے پر ملال تک نہیں آیا بلکہ انہوں نے کہا تھا صرف اسد میرا بیٹا نہیں بلکہ بلوچستان کے پہاڑوں میں لڑنے والے سب میرے بیٹے ہیں اور میرے لئے اسد ہیں۔ جس انسان کا قوم اور سرزمین سے کمٹمنٹ اتنا مضبوط ہو ،جو اپنا لخت جگر قربان کرکے بھی ٹوٹنے اور جھکنے کے بجائے اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیتا ہو، ایسے مضبوط اعصاب کے مالک کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔ قومی جدوجہد کی اس پرخار راہ میں عطاء اللہ مینگل نے قربانی کا آغاز اپنے گھر اور اپنے بچوں سے کیا۔ اسد کے لئے انہوں نے کبھی بھی کسی حکمران کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ،نہ ہی اس کی لاش اور قبر کے لئے کبھی کسی سے کوئی مطالبہ کیا اور نہ ہی کبھی قوم پر احسان جتلانے کی کوشش کی ،نہ ہی تحریک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کیا ہے یا کھویا ہے، مرتے دم تک وہ اسد کی لاش اور قبر سے لاعلم رہے لیکن ان کی ثابت قدمی و عزم میں کوئی لغزش نہیں آئی، وہ آخری سانس تک اپنے مْصَمَّم ارادوں پر ڈٹے رہے۔

جب جنرل ضیاء نے بھٹو کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا تو اس دور ان یہ بھی کوشش کی گئی کہ بھٹو پر اسد مینگل و احمد شاہ کی اغواء و قتل کا مقدمہ دائر کرکے اس جرم میں انہیں پھانسی پر لٹکایا جائے۔ بھٹو سے ہزار اختلافات کے باوجود سردار عطاء اللہ مینگل نے جنرل ضیاء کے اس گھناؤنی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کیا، جب حیدرآباد سازش کیس ختم کرکے نیپ کی لیڈر شپ کو جیلوں سے رہا کیا گیا تو عطاء اللہ مینگل کو علاج کے لئے امریکا روانہ کیا گیا۔ رہائی کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری نے جلاوطنی اختیار کی، نواب مری پہلے برطانیہ پھر فرانس چلے گئے اور بعد میں افغانستان آکر 1992 تک جلاوطن رہے جبکہ سردار عطاء اللہ مینگل برطانیہ میں سکونت اختیار کی ۔اس دوران انہوں نے 1980ء کی دہائی میں ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کی تشکیل کی۔

اس کے علاوہ 1985 میں حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو کے ساتھ مل کر سندھی بلوچ فرنٹ بھی بنائی، بلوچستان کی سیاسی حالات سے لوگوں کو باخبر رکھنے کے لئے لندن سے ایک اخبار کا بھی اجراء کیا، جلاوطنی کے دوران بھی انہوں نے بلوچ قوم کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا ۔وہ ولایت میں پرتعیش زندگی گزارنے کے بجائے وہاں بھی جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا۔ مختلف فورمز پر بلوچ قوم کیخلاف ہونے والی اندورنی و بیرونی مظالم کے خلاف عملی طور پر آواز اٹھاتے رہے گو کہ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کی جلاوطنی اور غیر موجودگی کی وجہ سے بلوچستان میں ایک سیاسی خلاء پیدا ہوا تھا، نظریاتی سیاست کے بجائے مفاداتی سیاست پروان چڑھا، موقع پرست طبقے کا ظہور ہوا، سیاسی کارکن قومی جدوجہد اور قومی تحریک سے دور ہوکر پارلیمانی سیاست کے بھول بھلیوں میں کھو گئے ۔بی ایس او کے بعض چیئرمین بھی پارلیمانی و مفاداتی سیاست کی نذر ہوگئے، 1987 میں بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ کا قیام اور 1988 میں فدا بلوچ کی شہادت اور پارلیمانی انتخابات کا حصہ بننے کے بعد بلوچ سیاست میں غیر نظریاتی، غیر فکری اور موقع پرستانہ رحجانات بڑی تیزی سے پروان چڑھے اور پارلیمانی سیاست کی آغاز نے نظریاتی سیاست کو دفن کردیا۔ غیر نظریاتی رحجان اور فکری کج روی کو پروان چڑھانے میں سردار و نواب شامل نہیں تھے بلکہ وہ سیاسی کارکن شامل تھے جنہوں نے فدا بلوچ کو راہ سے ہٹانے، اینٹی سردار سلوگن کو متعارف کرانے، طبقاتی تقسیم کا آغاز کرکے تحریک کو متوسط طبقے اور قبائلی سرداروں کے غیر ضروری نعروں اور تعصب کے بھینٹ چڑھانے میں پیش پیش تھے اور یہاں سے وہ سیاسی کارکن بڑی تیزی سے پارلیمنٹ کی زینت بنتے گئے۔

اس دوران قومی تحریک سے وابستہ سرداروں کے بجائے سیاسی کارکن پارلیمنٹ میں نظر آنے لگے اور یہ دور نظریاتی تقسیم اور قومی تقسیم کا تھا، انہی قوتوں نے اینٹی سردار سلوگن کو بنیاد بناکر 1992 میں بی این ایم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل عملی طور پر پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے لیکن جب جلاوطنی ختم کرکے واپس آئے تو حاصل بزنجو اور ان کے دیگر ساتھیوں کے اس اسرار پر کہ منتشر بلوچ سیاسی پارٹیوں کو آپ یعنی سردار عطاء اللہ مینگل متحد کرسکتے ہیں۔ 1996 میں BNM اور BNP کے انضمام کے نتیجے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1997 کے انتخابات بعد بی این پی نے حکومت بنائی اور سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے لیکن 17 ماہ میں ان کی حکومت پارٹی میں اندورنی سازشوں کی وجہ سے 1998 ختم ہوئی اور بی این پی تقسیم ہوگئی۔ بزنجو برادران حکومت کے خاتمے اور بی این پی کی تقسیم کو سردار عطاء اللہ مینگل سے میر بزنجو کے 1988 کے انتخابات میں شکست کا بدلہ لینے سے تعبیر کرتے تھے لیکن سرادر عطاء اللہ مینگل اس سازش اور پارٹی کی تقسیم سے دلبرداشتہ نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے مزید آگے بڑھ کر جدوجہد کی اور مظلوم قوموں کی تحریک پونم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔

12 اکتوبر 1999 میں میں مشرف نے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر مارشل لاء نافذ کیا ،اس دوران بلوچستان میں حالات ایک بار پھر خراب ہوگئے۔ نواب خیر بخش مری کو گرفتار کیا گیا ،نواب مری کا کیس خوف سے کوئی وکیل لڑنے کو تیار نہیں تھے ،اس دوران جب بلوچستان بار نے خطاب کے لئے سردار عطاء اللہ مینگل کو مدعو کیا تو انہوں نے اپنے تقریر میں کہا کہ مجھے کالے کوٹ والوں سے گلہ ہے کہ انہوں نے نواب مری کاکیس نہیں لڑا،اگر یہاں وکیل نہیں ملا تو میں نواب مری کا کیس لڑنے کے لئے بیرون ممالک سے بھی وکیل لائونگا۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی درخواست پر رسول بخش پلیجو نے ساجد ترین اور حبیب جالب بلوچ کیساتھ ملکر نواب مری کا کیس لڑا۔ 2005 میں بلوچستان کے سیاسی حالات دن بدن بگڑتے گئے، 2 اپریل 2006 کو کوئٹہ میں بی این پی کی جانب سے ریلی کے انعقاد کے بعد کراچی میں سردار عطاء اللہ مینگل، سردار اختر مینگل کے گھروں اور میر جاوید مینگل کے گھر میں مقیم نواب خیر بخش مری کا کئی دنوں تک گھیرائو کیا گیا اور 26 اگست 2006 کو نواب بگٹی کو فوجی جارحیت میں شہید کردیا گیا ۔اس کے بعد نومبر 2006 میں اختر مینگل کو ساکران سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا گیا اور کئی دنوں تک وہ لاپتہ رہے، پھر ان پر خفیہ ادارے کے اہلکاروں کے اغواء اوران پر تشدد کا ایف آئی آر درج کرکے پنجرے میں قید کرکے جیل میں کیس کی سماعت شروع کی گئی ۔ایک انٹرویو میں سردار عطاء مینگل نے کہا کہ قید و بند اور سرکاری تحویل میں ہمارے خاندان کے نوجوانوں کی اموات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے 2000ء کی دہائی میں عملی سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا لیکن وہ بلوچستان کی قومی جدوجہد و سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور وہ اپنے نقطہ نظر کا اظہار انٹرویوز اور ملاقاتوں کے ذریعے کرتے رہتے تھے۔
سردار عطاء اللہ مینگل طلسماتی اور کرشماتی شخصیت کے مالک تھے ۔ان کی زندگی جدوجہد اور قربانی سے عبارت ہے ۔وہ قوم پرستی، مزاحمت اور جہد مسلسل کے علامت اور استعارہ تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزاری اور اپنے موقف کو بیان کرنے میں کبھی بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے ایوب خان، یحییٰ، ذوالفقار بھٹو، جنرل ضیاء ، مشرف جیسے آمروں کے سامنے بھی دوٹوک انداز سے اپنا مدعا رکھتے اور گفتگو کرتے۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظیم تھے انہوں نے کراچی میں سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کی تو سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچستان کا مقدمہ بغیر کسی لگی لپٹی کے ان کے سامنے بیان کیا۔ اسی طرح نواز شریف جب ان سے ملنے آئے اور بلوچستان کے مسئلے کے حل میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی تو سردار عطاء اللہ مینگل نے میڈیا سے گفتگو میں بے باک انداز سے بلوچستان کا مسئلہ اور حل پیش کیا۔ بلاشبہ وہ ایک جری اور نڈر لیڈر تھے۔
(خان ئنا خت) اس تاریخی درخت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خان نوری نصیر خان یہاں پڑائو ڈالتے تھے۔ سردار عطاء اللہ مینگل نوری نصیر خان کی اثر پذیر شخصیت اور کردار سے کافی متاثر تھے، سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے بڑے بیٹے میر جاوید مینگل کو وصیت کرتے ہوئے کہا تھا جب میں اس فانی دنیا سے رخصت کروں تو مجھے اس مقام پر دفن کیا جائے ۔ان کی وصیت کے تناظر میں 3 ستمبر کو انہیں وہاں (خان ئنا خت) کے سائے میں سپرد گل زمین کیا گیا۔
2 ستمبر 2021 کو سردار عطاء اللہ مینگل کے سانحہ ارتحال سے بلوچ ایک انتہائی بہادر، سچے، کھرے اور زیرک سرخیل، عظیم المرتبت شخصیت سے محروم ہوگئے اور یہ خلاء صدیوں تک پر نہیں کیا جاسکے گا۔