پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے جو تین سالہ حکومتی کارکردگی کی رپورٹ پچھلے ماہ پیش کی گئی ہے اْس میں سب سے نمایاں کارنامہ احساس پروگرام کا پھیلاؤ، کورونا وبا کے دوران ایک باعمل لاک ڈاؤن کے ذریعے بڑے نقصانات سے بچاؤ اور کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو نیچے لانا قرار دیا گیا ہے۔ اگر بہت بڑی انقلابی تبدیلیاں مقصود نہ ہوں تو بھی یہ اقدامات مضحکہ خیز ہیں۔ ان کی معمولی سی وضاحت کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ بجائے معاشی ترقی اور استحکام کے نتیجے میں عوام کا معیارِ زندگی بلند ہوتا اور انہیں با عزت روزگار نصیب ہوتا‘ اْلٹا لوگوں کی بڑی تعداد کو بھکاری بنانے کے اقدام کو کارنامہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
احساس پروگرام میں عوام کی تعداد میں اضافے کا مطلب ہے کہ لوگوں کی اکثریت غربت اور تنگدستی میں گھر چکی ہے۔ عالمی امداد کے بل بوتے پر سوشل سکیورٹی جیسے سیفٹی نیٹ دراصل سرمایہ داری کے عارضی بحرانات کے لئے تخلیق کیے گئے تھے تاکہ جب سرمایہ داری کے عمومی اْتار چڑھاؤ کے بحرانات وقوع پذیر ہوں تو ریاستی مداخلت کے ذریعے اِن میں اپنا روزگار اور کاروبار کھو دینے والے افراد کو ریاست مالی امداد مہیا کرے۔ جیسے کورونا کے دنوں میں پوری دنیا میں محنت کشوں کے بے روزگار ہونے کے بعد اونٹ کے منہ میں زیرے جیسی امداد دی گئی۔ مگر ہمارے جیسے ملکوں میں یہ طریقہ کار ایک مستقل واردات بن گیا ہے اور مختلف پارٹیوں کی تشہیر اور کارنامے کا ذریعہ بھی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے عالمی ڈونرز کی مدد سے پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی اور اس کے معذرت خواہان بھی عوام کو بھکاری بنانے کے اس عمل کو اپنے کارنامے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ حقیقت میں یہ ایک معاشی گراوٹ، بے تحاشہ بے روزگار ی، غربت اور محرومی کی عکاسی کرتاہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کھانے پینے اور غذا کی ضروریات تک پوری کر نے سے قاصر ہو چکی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے میں کمی کو بھی بڑے کارنامے کے طور پر موجودہ حکمران پیش کر رہے ہیں۔ درحقیقت پاکستان اپنی زیادہ تر مصنوعات درآمد شدہ مشینری، پلانٹس وغیرہ کے ذریعے پیدا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ بہت سی غذائی اجناس اور روزمرہ استعمال کی چیزیں بھی بوقت ضرورت بیرونی ملکوں سے درآمد کرنی پڑتی ہیں جیسے گندم، خوردنی تیل اور دالیں وغیرہ۔ اس دوران ایسا کوئی معجزہ نہیں ہوا جس سے یہ تمام اشیا اندرون ملک پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں درآمدات میں مصنوعی طور سے کمی کی گئی تھی جس سے مقامی پیداواری عمل بھی متاثر ہوا۔ دوسرا اہم فیکٹر سی پیک میں سست روی تھا جس کا اظہار حالیہ دنوں میں چین کے پاکستان میں سفیر نے بھی کیا ہے۔ پچھلی مسلم لیگ کی حکومت میں سی پیک میں تیزی سے درآمدات میں اضافے کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ گیا تھا۔ اب کورونا پہ نسبتاً کنٹرول اور عالمی معیشت کے کھلنے کے بعد پھر سے پیداواری عمل شروع ہوا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معاشی گروتھ بھی منفی سے مثبت میں داخل ہو ئی اور ساتھ ہی جولائی، اگست اور ستمبر کے موجودہ مالی سال کے مہینوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ مثلاً اگست میں یہ خسارہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہو گیا جب کہ جولائی 2021ء میں یہ 773 ملین ڈالر تھا جبکہ پچھلے سال جولائی میں 583 ملین ڈالر سرپلس تھا۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق آنے والے دنوں میں درآمدات میں اضافے اور قرضوں کی ادائیگی کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کا بیرونی سیکٹر ہائی رسک میں جا سکتاہے۔ ہم نے بارہا لکھا ہے کہ پاکستان جیسی معیشتیں اپنے مخصوص کردار کی بدولت کبھی بھی موجودہ عہد میں استحکام حاصل نہیں کر سکتیں۔ ان کی حالت آئی سی یو میں پڑے ایک مریض جیسی ہے جسے دیر پا صحت اور استحکام نصیب نہیں ہو سکتا۔ اصلاحات اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ سرمایہ داری میں معاشی ترقی کاایک ہی نسخہ ہر دانشور تجویز کرتاہے‘ وہ ہے بیرونی سرمایہ کاری۔ مگر پوری دنیا میں بیرونی سرمایہ کاری کاطریقہ کار پچھلی تین دہائیوں سے تبدیل ہو چکا ہے۔ خود بڑی معیشتیں اس بحران کا شکار ہیں۔ بڑی سرمایہ کاری سٹاک مارکیٹ جیسے جوئے میں ہو رہی ہے مگر پیداواری شعبہ، جو کہ روزگار پیدا کرنے اور معاشی گروتھ کاحقیقی ضامن ہوتاہے، انحطاط کا شکار ہے۔ پاکستان میں پچھلے سالوں میں مجموعی طور پر سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔امن و امان اور توانائی کی مہنگی لاگت اس کے علاوہ ہے۔
موجودہ حکومت کے پچھلے تین سالوں میں معیشت، سماج، ریاستی انتظام اور لا اینڈ آرڈر سمیت ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہوا ہے۔ 2017-18ء کی تقریباً 5 فیصد گروتھ منفی میں چلی گئی۔ اس دوران چار وزرائے خزانہ اور ایف بی آر کے بیشتر چیئرمینوں کی تبدیلی جیسے اقدامات نظام کے گہرے بحران کی غمازی کرتے ہیں۔ سسکتی ہوئی عوام پر بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بم گرائے گئے۔ آج پیٹرول کی قیمت پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح 123 روپے لیٹر پر آ چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ، پیداواری لاگت اور کیرج کے اخراجات بڑھنے سے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر افراطِ زر اس وقت تقریباً 14 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔لوگوں کی آمدنیاں سکڑ گئی ہیں اور معیارِ زندگی نیچے چلا گیا ہے۔ یوٹیلیٹی بلوں نے درمیانے طبقے کا کچومر نکال دیا ہے۔ مگر معاشی بحران اس کے باوجود بھی حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ ٹیکس آمدنی میں ریکارڈ اضافے کو فخر سے پیش کیا جا رہا ہے جبکہ امیروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر غریب عوام پر ہر قسم کے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے۔ پچھلے سال پاکستان کے کل ٹیکس ریوینو سے 2800 ارب روپے قرض ادائیگی اور 1400 ارب روپے دفاع جیسے شعبوں پر خرچ ہوئے۔ باقی تمام اخراجات کے لئے نئے قرض لیے گئے۔
اسی طرح سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے قرضوں میں 14.9 ٹریلین روپوں کا اضافہ کیا ہے جو ’ن‘ لیگ کی حکومت کے پانچ سال کے دوران لیے گئے قرضے کا 140 فیصد ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پچھلے دس سالہ دورِ حکومت میں لیے گئے کل قرضوں کا 80 فیصد موجودہ حکومت نے تین سالوں میں ہی لے لیا ہے۔ اس وقت ملکی قرضہ تقریباً 40 ٹریلین روپوں (جی ڈی پی کے 82 فیصد) تک پہنچ چکا ہے۔ سرمایہ داری میں یہ قرضے کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ ان میں کمی کبھی ہوتی بھی ہے تو یہ رجحان عارضی ہوتا ہے۔ یہ قرضے ترقیاتی پروجیکٹوں کے لئے بھی نہیں لیے گئے۔ بلکہ روز مرہ کے اخراجات کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے لیے جا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی معیشت کی اصل صورتحال کیا ہے ۔
اسی طرح ’’بیرونِ ممالک سے پاکستان میں روزگار کے لئے لوگ آئیں گے‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ جبکہ خود عمران خان نے فخریہ ٹویٹ کیا ہے کہ پاکستان خطے میں لیبر کی برآمد کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے جہاں سے 2020ء میں سب سے زیادہ 224705 ہنر مند لوگ ملک چھوڑ کر باہر کے ملکوں میں گئے ہیں۔ یہ کسی بھی ملک کی معیشت کے لئے ایک بربادی کا نسخہ ہے کہ اْس کا ہنر مند ترین مزدور روزی کے لئے ملک چھوڑ کر جا رہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ کم اْجرت، عدم استحکام اور بے روزگاری ہے۔ملک سے یہ ’برین ڈرین‘ موجودہ حکومت کے دوران اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔
اسی طرح ادارہ جاتی اصلاحات، باوقار پاسپورٹ، عدالتی اصلاحات، پولیس اصلاحات، خود انحصاری، آئی ایم ایف سے نجات اور کرپشن کے خاتمے جیسے بلند و بانگ دعوے مٹی میں مل چکے ہیں۔ حکومت میں آنے سے قبل کی عمران خان کی بڑی بڑی باتیں عوام کی ایک نہ ختم ہونے والے تضحیک اور حقارت کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ سماجی جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ لا اینڈ آرڈر کا یہ عالم ہے کہ سماج ایک نیم انارکی کی کیفیت میں ہے۔ راہ چلتے ڈکیتیاں اور خواتین کے ساتھ پبلک مقامات پر ہراسانی کے واقعات سماجی معمول بن چکے ہیں۔ عمران خان اور اس کے حواریوں کے خواتین کے بارے اپنے رجعتی بیانات اس طرح کے اوباش عناصر کو شہ دینے کا باعث بنے ہیں۔ یکساں نصاب کی آڑ میں تعلیم کے نظام میں رجعت اور زہریلی قدامت پرستی کی شمولیت نے مستقبل میں ذہنی طور پر زیادہ مفلوج اور معذور نسل کے پیدا ہونے کے خطرے سے دو چار کر دیا ہے۔ جس کے اثرات دہائیوں تک اس سماج پر مسلط رہیں گے۔
حکمران طبقات کی سوچ اور خیالات دراصل اس عہد کے غالب نظریات ہوتے ہیں اور ان کے نظام کی اپنی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام آج جس کیفیت میں ہے وہ اسی طرح کے نا اہل حکمران ہی مسلط کر سکتا ہے۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے جب نظام کی متروکیت کی انتہا ہو جاتی ہے۔ اس کی پھیلائی ہوئی رجعت اور حبس کا موسم چھٹ جاتا ہے۔ محنت کش عوام اپنی تقدیر بدلنے سیاسی میدان میں خود اْترتے ہیں۔ وہ بغاوت کرتے ہیں اور اگر اْن کو ایک انقلابی پارٹی میسر آ جائے تو وہ نظام کو بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسے وقتوں میں محنت کش طبقہ سماج کی تمام قدروں، اخلاقیات، معاشیات، سیاست، سفارت اور ریاست کو بدل کر نئی بہاروں کے موسم اجاگر کرتا ہے۔