بلوچستان کے حساس ساحلی علاقے جیوانی سے لے کر گڈانی تک پھیلے ہوئے ہیں، 780 کلومیٹر طویل ساحل میں انواع و اقسام کی سمندری مخلوق پائی جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ ایک اہم بحری روٹ ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کے بحری جہاز اپنی منزل مقصود تک جانے کے لئے اسی سمندری روٹ پر سفر کرتے ہیں۔ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ جانے والے مال بردار بحری جہاز اسی روٹ کو استعمال کرتے ہیں۔یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش اسی سمندر سے منسلک ہے۔ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح مکران کے ساحلی علاقوں میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نمودار ہورہے ہیں،جس سے ساحل پر رہنے والے لوگ کئی خطرات میں گرے ہوئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مکران کے ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 80 سے 90 فیصد افراد کا روزگار کسی نہ کسی طرح سمندر سے منسلک ہے اور ان میں زیادہ تر افراد مچھیرے ہیں جو سمندر کی بے رحم موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے روزی روٹی کماتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے ماہی گیری کی صنعت سے منسلک لوگوں کا روزگار متاثر ہونے کے خدشات ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 7 سے 10 لاکھ افراد کا روزگار مکران کے سمندر سے وابستہ ہے۔
کلائمیٹ چینج چونکہ ایک گلوبل ایشو ہے اور اس کے اثرات دنیا کے تمام ممالک میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ چند دہائی پہلے سمجھ بوجھ رکھنے والے سائنس دان اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ کلائمیٹ چینج کے اثرات محسوس کئے جارہے ہیں مگر دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ اب دنیا کے تمام ممالک اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اگر اس وقت ہم نے کلائمیٹ چینج کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو یہ نہ صرف انسانی تہذیبوں کو لے ڈوبے گی بلکہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لئے زمین پر رہنا ممکن نہیں ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کے معاہدے کنونشن ان کلائمیٹ چینج اور کیوٹو پروٹوکول پر بھی دستخط کرچکا ہے۔ اس لئے پاکستان اقوام متحدہ کے اصولوں پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
موسمی تبدیلیوں کے مکران کے ساحلی علاقے میں رہنے والے لوگوں پر اثرات۔
کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز کے معاون پروفیسر شعیب کیانی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے سمندر کا درجہ حرارت بڑھنے اور تبدیل ہونے سے مچھلیوں کی پیداوار متاثر ہورہی ہے اور بہت سے سمندری مخلوقات یہاں سے نقل مکانی کرکے سرد پانیوں کی طرف رخ کررہے ہیں، انکے مطابق ٹاپ شکاری مچھلیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ شعیب کیانی نے ‘‘ Fisheries resources appraisal in pakistan (FRAP) 2008کے پانچ سالہ تحقیقی پروجیکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سمندر سے مچھیلوں کی اسٹاک 40 سے 70 فیصد ختم ہوچکی ہے اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے بلوچستان کے سمندر پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی سائنسی مصنفہ صادقہ خان کہتی ہیں کہ سمندر کا درجہ حرارت بڑھنے سے کورل ریف (مونگے کی چٹانیں) ختم ہورہی ہیں،چونکہ یہ کورل ریفس مچھلیوں اور دیگر سمندری مخلوقات کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہوتے ہیں جب مچھلیوں کی پیداوار کم ہوگی تو ساحلی علاقوں کے رہائشیوں کے لئے روزگار کا مسئلہ ہوگا۔
لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگرکلچر، واٹر اور میرین سائنسز اوتھل میں میرین سائنس کے طالب علم نصیر لعل کے مطابق سمندر کے لیول بڑھنے سے مینگروز کے جنگلات متاثر ہوں گے جو کہ سمندری ایکوسسٹم کے لئے اہم ہیں۔مینگروز کے جنگلات نہ صرف سائیکلون اور دیگر قدرتی آفات کو روکتے ہیں،بلکہ جھینگے کے افزائش نسل کے لئے اہم ہیں۔
۔انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کے ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقوں سونمیانی، کلمت اور گوادر میں اس وقت مینگروز کے جنگلات 4058 ہیکڑز تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جو کہ قدرتی آفات اور سمندری کٹاؤ کو روکنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔
تہران یونیورسٹی کے ایک تحقیق کے مطابق ہر سال سمندر کی لیول 6 ملی میٹر بڑھ رہی ہے اور اگر یہ اسی طرح بڑھتارہاتو 2050 تک کئی ساحلی علاقے زیر آب آئیں گے۔
شعیب کیانی کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے قریب رہنے والے زیادہ تر لوگ چونکہ غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں انکے لئے ممکن نہیں کہ وہ یہاں سے نقل مکانی کرکے محفوظ مقامات کی طرف رخ کریں۔ اس لئے تمام اداروں کو ملکر ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا کہ آنے والے خطرات سے لوگوں کی جان و مال محفوظ ہوسکیں۔
سائنس دان حمیرا رند اس حوالے سے کہتی ہیں کہ بحیرہ عرب میں سمندر کے لیول بڑھنے سے ساحلی کٹاؤ اور بڑھتے ہوئے پانی کی وجہ سے ساحلی علاقوں کے لوگ اپنے گھروں سے محروم ہوسکتے ہیں جبکہ اگلے پچاس سے سو سال تک یہاں کے لوگوں کا روزگار شدید متاثر ہوگا۔
برطانوی خبر رساں ادارہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان میں غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ بلوچستان کے بنجر ساحلی علاقوں کی درجہ حرارت میں اعشاریہ چھ سے لیکر ایک سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق گہرے سمندر کی تہہ میں مرجان پر آباد مختلف انواع کی سمندری حیات کی موجودگی کی وجہ سے سمندر میں زندگی قائم و دائم ہے اور خاص مچھلیاں ان خطوں کو انڈے دینے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سمندر کے نیچے اس خطے کو اگر انسانوں کی مداخلت اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے نقصان پہنچا تو مچھلیوں کے پاس انڈے دینے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی اور اس جگہ کا ماحولیاتی نظام آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مٹ جائے گا۔جس سے نہ صرف سمندری پیداوار میں واضح کمی ہوگی بلکہ سی فوڈ کے کاروبار سے منسلک لوگوں کاروزگار بھی شدید متاثر ہوگا۔
لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگرکلچر، واٹر اور میرین سائنسز اوتھل میں انوائرمینٹل سائنس کے طالب علم اونیس رحیم کے مطابق ساحلی علاقوں میں فش کمپنیوں کے فاضل مواد سے سمندری کلائمیٹ پر اثرات پڑ رہے ہیں، سمندری آلودگی سے مائیکرو انیمل متاثر ہورہے ہیں جن کی وجہ سے سمندر کی ایکو سسٹم قائم و دائم ہے۔ انکے مطابق مکران کے ساحلی علاقوں میں گرین گیس کے اخراجات دیگر علاقوں سے ضرور کم ہے مگر کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل ہوکر کلائمیٹ چینج کا باعث بن رہا ہے جبکہ سی لیول بڑھنے سے ساحل کنارے رہنے والے لوگوں کے مکانات اورکشتیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔Nasa Goddard institue of space studies کے سربراہ James E hansen کی دسمبر 2005 میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پچھلے تیس سال میں دنیا بھر کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری فارن ہائیٹ کا اضافہ ہوا ہے اور اگلی صدی تک یہ اضافہ 4 درجے تک بڑھ جائے گا۔
ماہرین کی باتوں کو اس لئے اہم تصور کیا جارہا ہے کیونکہ اس وقت بلوچستان کے متعدد ساحلی علاقے شدید سمندری کٹاؤ کی زد میں ہیں جس سے ساحل کنارے رہنے والے درجنوں مکانات سمندر برد ہوچکے ہیں۔
سمندری کٹاؤ ایک بڑا ایشو:
بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی، سر بندن ، گنز اور پسنی میں گرمیوں کے موسم میں سمندری کٹاؤ کی وجہ سے متعدد رہائشی مکانات اور چار دیواریاں سمندر برد ہوچکی ہیں۔ماہرین کے مطابق ساحلی علاقوں کو سمندری کٹاؤ سے محفوظ بنانے کے لئے ساحل کے قریب تمر کے جنگلات اور پروٹیکشن وال تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ساحلی شہر پسنی میں ایک پروٹیکشن وال تعمیر کیا جاچکا ہے اور تمر کے جنگلات بھی اگائے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے اب یہ علاقہ کسی حد تک محفوظ رہ گیا جبکہ پسنی میں پروٹیکشن وال تعمیر کرنے کے بعد پانی نے اپنا راستہ بدل دیا اور 2018 میں پسنی واد سر علاقے میں پانی گھروں کے اندر داخل ہونے کے بعد مقامی لوگوں کے خدشات بڑھ گئے اور واد سر میں موجود نمک کے مقامی کارخانے بھی سمندر ی لہروں کی نذر ہوگئے جنکی وجہ سے کارخانے مالکان کو دس سے بارہ لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
آصف بخشین جو کہ مقامی طور پر نمک بنانے کی صنعت سے وابستہ ہے انہوں نے ہمارے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سمندری لہریں بپھرنے کی وجہ سے علاقے میں موجود نمک کے پانچ کارخانے تباہ ہوئے اور حکومتی سطح پر کوئی خاص قسم کی مالی امداد نہیں کئی گئی البتہ تمام متاثرین کو ایک ہفتے کا راشن ضرور دیا گیا جبکہ ہمیں لاکھوں کا نقصان ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کو روکا نہیں جاسکتا اسی لئے اگر ایک طرف پروٹیکشن وال بنایا جائے گا تو قدرتی طور پر پانی اپنے لئے کسی اور جگہ سے راستہ بنائے گا کیونکہ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔
گوادر سے تعلق رکھنے والا سماجی کارکن یعقوب بلوچ کے مطابق سمندری کٹاؤ کی شدت چونکہ گرمیوں کے موسم میں زیادہ ہوتی ہے اور موسم گرما میں سمندر کی تیز و تند لہروں کی وجہ سے قریبی آبادی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور کچھ سال پہلے سر بندن میں کچھ رہائشی مکانات سمندر برد ہوگئے تھے۔ سر بندن کے ایک متاثرین درمحمد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ 2007 میں سمندری کٹاؤ نے علاقے کو شدید متاثر کیا اور متعدد چار دیواریاں سمندر لہروں کی نذر ہوگئے۔
بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور زراعت کو نقصان۔
صادقہ خان کے مطابق کلائمیٹ چینج سے ایکوسسٹم تبدیل ہورہا ہے، جس سے بارشوں کے پیٹرن متاثر ہوئے ہیں، کبھی شدید اور طوفانی بارشیں ہوتی ہیں اور کبھی بہت کم۔ اس سے ساحلی علاقوں میں زراعت کا شعبہ متاثر ہونے کے ساتھ صاف پانی کی قلت بڑھ رہی ہے جس سے ایٹمی بیماریاں اور ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
شعیب کیانی کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے موسموں میں واضح تبدیلیاں آرہی ہیں، لسبیلہ میں دونوں موسموں میں بارشیں ہوتی ہیں جبکہ مکران میں زیادہ تر سردیوں میں بارشیں ہوتی ہیں، انکے مطابق سردیوں میں بارشوں کے پیٹرن تبدیل ہونے سے مکران کے ساحلی علاقوں میں خشک سالی اور قحط کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے اسکالر اور زراعت کے ماہر بیبگر بلوچ نے شعیب کیانی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے لوگ زراعت اور پینے کے پانی کے لئے صرف بارشوں پر انحصار کرتے ہیں۔ بارشیں بروقت نہ ہونے کی وجہ سے کاشت کاری شدید متاثر ہوگا کیونکہ یہاں پانی کے دیگر متبادل ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اور مکران کے ساحلی علاقوں میں زیر زمین پانی کے محدود وسائل موجود ہیں۔ بروقت بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زمینداروں کا روزگار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ مال مویشی بھی مر جاتے ہیں اور دیہی علاقے کے لوگوں کا روزگار کا واحد ذریعہ یہی مال مویشی ہیں۔ بیبگر بلوچ کے مطابق یہ ایک لڑی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور انکے ٹوٹنے سے پورا نظام متاثر ہوگا۔
حمیرا رند کہتی ہیں کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کلائمیٹ چینج کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کرکے ماحول دوست پالیسیاں بناکر ان پر من و عن عمل کیا جائے ۔ شعیب کیانی بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمام ملکی اداروں کو مل بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا جس سے آنے والے دنوں میں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو روکا جاسکے۔