|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2021

بلوچستان اور سندھ کو لاوارث صوبے کے طورپر چینی حکام کے حوالے کردیاگیا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے نام پر سمندر کو آلودہ کیا جارہا ہے۔ جہاں بجلی گھر کے نام پر ایسے منصوبے لگائے گئے ہیںجس سے نہ صرف سمندری حیات بلکہ انسانی آبادی بھی آلودگی کی زد میں ہے،جس کے نتیجے میں مختلف امراض پھیل رہے ہیں۔

چین سمیت دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بندکیا جارہا ہے کیونکہ یہ بجلی گھر ماحول دوست نہیں ہوتے جس سے خطے میں ماحولیاتی آلودگی پھیلتی ہے۔ چین نے اس طرح کے بجلی گھروں کو اپنے ملک میں ختم کرکے بلوچستان اور سندھ میں لگانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور مزید کوئلے سے بجلی گھر بنانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔

کنڈھ حب (ضلع لسبیلہ) کے مقام پر چائنا پاور حب جنریشن کمپنی کو کوئلے سے چلایا جارہا ہے۔ یہ کمپنی 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کررہی ہے جبکہ اس کمپنی سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ نہ صرف بلوچستان میں پیدا ہونے والی بجلی کو دیگر صوبوں کو دیاجارہاہے بلکہ اس کمپنی میں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر نہیں ہیں۔ 80 فیصد ملازمین کا تعلق کراچی سے ہے۔ جبکہ کمپنی میں ٹھیکیداری نظام بھی قائم ہے۔ ٹھیکیداری نظام کے سبب ملازمین تمام جائز مراعات سے محروم ہیں۔ بلکہ ان کی ملازمتوں کو بھی کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ کسی بھی وقت ٹھیکیدار کسی کو ملازمت سے فارغ کردیتاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزارت محنت و افرادی قوت بلوچستان مکمل غیر فعال ہے جس کے سبب مزدور کا خون چوسا جارہا ہے۔ یہاں ملازمین کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔

یہ کمپنی بلوچستان حکومت کو سیلز ٹیکس نہیں دے رہی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان کا ہیڈ آفس کراچی میں قائم ہے جس کو بنیاد بناکر وہ سیلز ٹیکس سندھ حکومت کو دیتی ہے جس سے بلوچستان کو کروڑوں روپے کی آمدنی سے ہاتھ دھوناپڑتا ہے۔ اس علاقے میں آلودگی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ تمام علاقہ بری طرح ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہورہاہے۔ یہ کمپنی زہریلا دھواں خارج کرکے فضا میں آلودگی کا باعث بن رہی ہے۔ جس کی وجہ سے علاقے میںدمہ سمیت مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

چائنا پاور حب جنریشن کمپنی سے چرنا آئی لینڈ کے اردگرد سمندری حیات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ چرنا آئی لینڈ کو بلوچستان حکومت ڈبلیوڈبلیو ایف کی درخواست پر میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دینے پرغور کررہی ہے۔ میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) ایک بین الاقوامی قانون ہے جس کا مقصد نایاب نسل کے آبی جانداروں کی نسل کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔ جن میں وھیل ، ڈولفن، کچھوے اور دیگر آبی حیات شامل ہیں۔ ان کی بڑی تعداد چرنا آئی لینڈ میں پائی جاتی ہے۔
چائنا پاور حب جنریشن کمپنی کے لئے چین سے بڑے بڑے بحری جہازوں کے ذریعے کوئلہ لایاجاتا ہے۔ یہ جہاز چرنا آئی لینڈ کے قریب لنگرانداز ہوتے ہیں۔ جہاں سے چھوٹے چھوٹے جہازوں کے ذریعے کوئلہ ان لوڈ کیاجاتا ہے۔ اس دوران بڑی تعداد میں کوئلہ سمندر میں گربھی جاتا ہے۔ جس سے سمندر آلودہ ہوتا ہے۔ جبکہ چائنا پاور حب جنریشن کمپنی بحر بلوچ کے کنارے واقع ہے۔ کوئلے سے چلنے والی یہ کمپنی سمندر اور اردگرد علاقے کو آلودہ کررہی ہے۔

ڈبلیوڈبلیوایف کے حکام کے مطابق بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی درخواست پر چرنا آئی لینڈ کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دینے کی دستاویزات پر دستخط کرکے مزید قانون سازی کے لئے متعلقہ حکام کو ارسال کردیاہے۔ بہت جلد ان کا نوٹیفیکشن جاری ہونے والا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پہلی بار جزیرہ چرناکے قریب مونگے کی چٹانوں کے سفید ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جو کئی سمندری جانوروں کی نرسری کو بری طرح متاثر کررہا ہے کیونکہ یہ چٹانیں بڑی تیزی سے سفید ہورہی ہیں۔ واضح رہے کہ 2020 کو سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع مبارک ولیج کے ساحل سے کوئلہ بردار سمندری جہاز ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں ساحل آلودہ ہوگیا۔ کوئلہ بردار جہاز کو تیز لہروں نے مبارک ولیج کے ساحل کی جانب دھکیل دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں جہاز مبارک ولیج کے ساحل کے چٹانی علاقوں میں پھنس گیا۔ کوئلہ بردار جہاز کا تعلق چائنا پاور حب جنریشن کمپنی سے تھا۔
ایک اطلاع کے مطابق کراچی کے قدیم ماہی گیر بستی مبارک ولیج کے مقام پر چین کی ایک کمپنی کوئلے سے بجلی گھر لگائے گی۔ یہ منصوبہ بحریہ فاؤنڈیشن کے اشتراک لگایا جائیگا۔ یہ منصوبہ پچاس ایکڑ پرمحیط ہوگا۔ یہ منصوبہ مبارک ولیج سے شروع ہوکر کیپ ماؤنز (راس موری، کراچی) تک پھیل جائیگا۔ اس سلسلے میں منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ماہی گیر رہنما نے منصوبے کو ماحول دشمن قراردیا اور کہا کہ جہاں یہ منصوبہ بن رہا ہے۔ وہ علاقہ ماحولیات کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ جہاں کچھوے، وھیل، ڈولفن سمیت دیگر نایاب جاندار پائے جاتے ہیں۔ کیپ ماؤنز (راس موری، کراچی) کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا بنانے کے لیے کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کی درخواست پر سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کیپ ماؤنز، کراچی (راس موری) سے پاچا تک کی ساحلی پٹی کو بھی ایم پی اے قراردینے کے دستاویزات پر دستخط کرکے مزید قانونی سازی کے لئے متعلقہ حکام کو ارسال کردیا۔ راس موری کراچی کی خوبصورت ترین ساحلی پٹی ہے۔ جہاں 1914 کو برٹش حکومت نے ایک لائٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا تھا۔ جو آج بھی اصلی حالت میں ہے۔ یہ ساحلی پٹی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ سیاسی حلقوں نے راس موری کو کمرشل بنیادوں پر قبضہ کرنے کے خلاف تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مبارک ولیج اور کیپ ماؤنز (راس موری، کراچی) کے مقام پر بننے والے منصوبے کو ترک کیا جائے۔

ہاکس بے ایک قدیم سندھی اور بلوچ علاقہ ہے جہاں مختلف گوٹھ آباد ہیں۔ اس علاقے میں جوہری توانائی کے منصوبے (کینپ )کے پاور پلانٹ ٹو اور کے تھری پر چین کی انجنیئرنگ کمپنی قائم کی گئی ہے۔ جہاں مقامی افراد کے لئے روزگار کے دروازے بند ہیں۔ غیرمقامی افراد کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ گوادر میں کوئلہ سے بجلی گھر بنانے کا منصوبہ ہے۔ جہاں سے وہ مکران ڈویژن کو بجلی دے گی۔ یہ منصوبہ 2023 سے 2024 تک مکمل کیا جائیگا۔ یہ منصوبہ بھی ماحول دشمن منصوبوں میں سے ایک ہوگا۔ بلوچستان کا کوسٹل ایریا مکمل طور پر چینی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ مقامی ماہی گیروں کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں چائینیز جہازوں کو سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں ماہی گیری کرنے کے لائسنس دیئے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 18 سے 20 جہاز چین سے بلوچستان اور سندھ کے سمندر میں سمندری حیات کی نسل کشی میں مصروف ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ ماہی گیر دشمن پالیسی ہے۔ سمندر کے اصل وارث بلوچ اور سندھی ماہی گیر ہیں۔ انہیں پالیسی سازی میں بے خبر رکھاگیا ہے۔ فشری ایک صوبائی معاملہ ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی کرکے سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔