|

وقتِ اشاعت :   October 3 – 2021

یہ 1970ء کا زمانہ تھا۔پاکستان کے پہلے جمہوری او رغیر جانبدار الیکشن ہونے والے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر، ورکرزاور عام لوگ انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے۔ اس وقت ہم اسکول کے طالب علم تھے۔ ہمیں انتخابات کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں تھی۔ ہمارا علاقہ ہدہ کوئٹہ ایک نواحی اور کھیتی باڑی کے لئے مشہور علاقہ تھا۔ پانی وافر مقدار میں تھا۔

قدرتی چشمے بہتے تھے۔ کاریز کا پانی صاف و شفاف نالوں میں بہتا تھا۔ جہاں خواتین کپڑے دھوتی نظر آتیں اور ہم پانی میں کھیلتے تھے۔ نہ بجلی تھی، نہ گیس اور نہ سڑکیں تھیں اور نہ ہی کوئی سرکاری دفتر……لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے تھے…… خوشحالی کا زمانہ تھا۔ہمارے علاقے کے معتبر حاجی غلام سرور بارانزئی اور ملک محمد اعظم کاسی سیاسی اور قبائلی معاملات میں متحرک تھے۔ ملک محمد اعظم کاسی مسلم لیگ میں تھے اور حاجی غلام سرور بارانزئی نیشنل عوامی پارٹی کے رکن تھے۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ہمارے محلے میں انتخابی مہم کے سلسلے میں سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری آرہے ہیں۔ ہم بچے تھے ہم نے پہلی مرتبہ یہ نام سنے تھے۔

سہ پہر کے وقت حاجی غلام سرور بارانزئی کے بیٹھک میں لوگ جمع ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑیاں آئیں۔ایک دبلا پتلا شخص جس نے قراقلی ٹوپی اور واسکٹ پہنی ہوئی تھی، گاڑی سے اْترے۔سب نے اْن سے ہاتھ ملایا۔ اْن کے ساتھ دوسرا شخص نواب خیر بخش مری تھے جن کی شخصیت متاثر کن تھی ۔کچھ اور لوگ بھی تھے جو مجھے یاد نہیں۔ پہلی مرتبہ میں نے ایک سردار اور نواب کو ایک ساتھ دیکھا۔ الیکشن کے بارے میں تقریر یں ہوئیں۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کیا باتیں ہورہی ہیں صرف اتنا پتہ چلا کہ ان کا انتخابی نشان جھونپڑی ہے اورجھونپڑی کو ووٹ دینا ہے۔ بعد میں جب الیکشن ہوئے اور نیشنل عوامی پارٹی کامیاب ہوئی۔ تب ہمیں الیکشن کے بارے میں تھوڑی بہت آگاہی ہوئی۔ بعدازاں سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ بنے اور میر غو ث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنرمنتخب ہوئے۔

سردار عطاء اللہ مینگل اپنی مختصر سی کابینہ کے ساتھ شب و روز محنت کرکے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے سب سے پہلے نفاذِ اردو کے لئے کام کیا اور بلوچستان کی سرکاری زبان اردو کوقرار دیا اور بلوچستان یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نوکریاں عام تھیں ،نہ سفارش اور نہ اقربا پروری چلتی تھی سارے کام میرٹ پرہونے لگے۔ 9ماہ کی قلیل مدت میں سردار عطاء اللہ مینگل نے وہ کام سر انجام دیئے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ان کی کارکردگی سے گھبرا کر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کام کرنے سے روک دیا اور ان کی حکومت ختم کی گئی جس کے بعد مزاحمتی تحریک شروع ہوگئی۔ ہم اکثر ان کے جلسوں میں جاتے۔ سردار عطاء اللہ مینگل ایک شعلہ بیان مقرر تھے وہ ہربات دلیل کے ساتھ کرتے او ربلوچستان کی حقوق کی بات کرتے یہی وجہ تھی کہ انہیں پابند سلاسل کردیا گیا۔

وہ بلا کے ذہین اور اپنی بات کو منوانے اور دوسروں کو لاجواب کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ وہ زندگی کے کٹھن دور سے گزر ے، ان کے جوان بیٹے اسد مینگل کو لاپتہ کیا گیا۔ سردار صاحب اپنے ساتھیوں سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے کئی برس تک اسیر رہے اور پھر جلا وطنی کی زندگی گزاری۔ جس کی وجہ سے ان کے لہجے میں تلخی اورغصے کے آثار نمایاں نظر رہے۔سردارصاحب آخر وقت تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے ،ان کی قوم پرستی میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ وہ پہلے دن سے بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے رہے ان کا موقف تھا کہ بلوچستان کی سر زمین کے خزانے اور وسائل بلوچستان کے لوگوں کے ہیں۔یہ ان کی اپنی سر زمین ہے جس کی ہر چیز پر ان کا بنیادی حق ہے۔ ان کا یہ حق ان سے چھینا جارہا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم امیر بلوچستان کے غریب باسی ہیں۔ آج بلوچستان کے لوگوں کے پاس بنیادی وسائل تک نہیں وہ دیہی علاقوں میں میلوں دور سے پینے کا پانی لاتے ہیں۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں نہ تعلیم ہے، نہ صحت کی سہولتیں۔ہم گیس کے مالک ہیں مگر ہم استعمال نہیں کر سکتے اس لئے کہ گیس تک ہماری رسائی ممکن نہیں۔

چونکہ ہم مینگل بارانزیوں کے محلے میں رہتے تھے۔ لہٰذا اس تحریک کا ہم پر بھی اثر ہوا او ریوں ہم بھی قوم پرستوں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ او رآ ہستہ آہستہ ہمارا رجحان ادب کی طرف ہوا اور ہم نے سیاست کی بجائے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونابنایا۔او راپنی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ 1983ء میں میں پاکستان ٹیلی ویژن میں پروڈیوسر کی حیثیت سے تعینات ہوا اور میرا شعبہ حالات حاضرہ تھا۔ مصطفی مندوخیل شعبے کے سربراہ تھے۔ ہمارا کام حکومت کی تشہیر کرنا او رسیاسی لوگوں کے انٹرویوز نشرکرنا تھا۔ جس کی وجہ سے میرابلوچستان کے تمام لیڈروں کے ساتھ رابطہ رہا۔اس دوران سردار عطاء اللہ مینگل اورخیر بخش مری ملک سے باہر چلے گئے۔ صرف نواب اکبر بگٹی اور میر غوث بخش بزنجو پاکستان میں سیاست کر رہے تھے ۔21دسمبر 1988 ء میں پہلی مرتبہ مجھے غوث بخش بزنجو کا انٹرویو کرناتھا۔لہٰذا میں ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی کے گھر بروری روڈ گیا جہاں میر غوث بخش بزنجو قیام پذیر تھے ،ان سے سلام دعا ہوئی اور میں نے دہشت گردی کے حوالے سے ان کا انٹرویو ریکارڈ کیا ۔اس انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ میری سیاست کے وارث نوجوان ہیں جنہوں نے میری سیاسی مخالفت کی۔ جب ہم نے میر صاحب کو وہ انٹرویو دکھایا تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہ حصہ ضرورشامل کرنا۔

میں نے کہا میر صاحب آپ کا انٹرویو میں نے دہشت گردی کے حوالے سے ریکارڈ کیا ،یہ حصہ جو آپ کہہ رہے ہیں یہ نہیں چل سکتا۔ میر غوث بخش بزنجو نے کہا سرکار کی جو مرضی وہ چلائے۔میرصاحب ایک زیرک انسان تھے ،ان جیسا سیاست دان آج تک پیدا نہیں ہوا بعدازاں میر صاحب بیمار ہوگئے اور علاج کی غرض سے ملک سے باہر چلے گئے۔ بعد میں 11 اگست کوکراچی میں ان کا انتقال ہوا چونکہ اس زمانے میں ایک ہی سرکاری ٹی وی تھا لہٰذا ہم میر بزنجو صاحب کے حوالے سے ایک تعزیتی پروگرام کے سلسلے میں ہیڈ آف کرنٹ افیئرمصطفی مندوخیل کے ساتھ نال گئے۔ جہاں پر سردار عطاء اللہ مینگل، ولی خان،خان داؤدجان، سردار محمد خان باروزئی، میر حاصل بزنجو،طاہر بزنجو، ڈاکٹر حکیم لہڑی، سینیٹر عبدالرحیم مندوخیل، ملک معراج خالد، مولوی عصمت اللہ، جام یوسف، فتح یاب علی خان، امان اللہ گچکی، ملک فیض محمد یوسف زئی، نواب محمد اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور کئی دوسرے رہنماؤں کے انٹرویو ز ریکارڈ کئے۔ سردار عطاء اللہ مینگل کافی عرصے کے بعد وطن واپس آئے تھے۔غوث بخش بزنجو کی رحلت کی وجہ سے کافی غمگین تھے۔ ان کے لہجے میں تلخی تھی۔

جب ہم نے ان سے انٹرویو لیا تو انہوں نے کرخت لہجے میں کہا کہ میں بہت کچھ سیکھ کے آیا ہوں میں دیکھ رہا ہوں کہ آج بھی بلوچستان ایک صدی پیچھے ہے ،بلوچستان کی ترقی میں کافی رکاوٹیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ 1970ء میں بلوچستان میں صرف چند سردار تھے ہم نے سرداری نظام ختم کیا آج ہزاروں سردار اور نواب ہیں۔ جن کے پاس ہتھیار ہیں جو حکومت کے منظور نظر ہیں ،سرداری نظام نے بلوچستان میں ترقی کی ہے۔ لیکن عوام کا وہی صدیوں پرانا حال ہے۔ انہوں نے میر غوث بخش بزنجوکے بارے میں کہاکہ ’’میں ذاتی طورپر یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک بہت ہی پرانے ساتھی اور اپنے سیاسی اتالیق سے بچھڑ گیا ہوں۔ اْن کی خدمات جو کہ اس ملک کے لئے انہوں نے کی ہیں شاید ہی کوئی ایسا نکلے جو یہ کہہ سکے کہ وہ ان کی قربانیوں کو فراموش کر سکیں۔ بزنجو صاحب نے اْس وقت سیاست کی جب لوگ سیاست کا تصور تک نہیں کر سکتے تھے۔اور اس وقت سے لے کر آج تک ان کی سیاست کا تسلسل نہیں ٹوٹایہ اْن کی مستقل مزاجی تھی اور یہ اْن کی عظمت تھی‘‘۔
میر غوث بخش بزنجو کی تعزیت کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل دوبارہ ملک سے باہر چلے گئے۔ جب پاکستان میں انتخابات کے لئے ماحول سازگار ہوا سردار عطاء اللہ مینگل نے جمہوری طریقے سے بلوچستان کے حقوق حاصل کرنے کے لئے دوبارہ پاکستان آئے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی تشکیل کی اور جمہوری طریقے سے جدوجہد کا آغاز کیا۔
1997ء کے انتخابات کے حوالے سے پی ٹی وی نے ایک پروگرام Hour Electionشروع کر دیا جس میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اپنے منشور اورا پنی پارٹی کے حوالے سے بات کرتے، اس حوالے سے سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی پارٹی کا موقف بیان کرنے کے لئے 10جنوری 1997ء کو پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر تشریف لائے ۔ان کے ساتھ میر حاصل خان بزنجو اور حبیب جالب بھی تھے ۔اس پروگرام میں نامور صحافی صدیق بلوچ اور سلیم شاہد بھی موجود تھے اور میزبانی کے فرائض امداد نظامی نے سر انجام دیئے۔ان کے موقف کو سننے کے بعد عوام نے بلوچستان نیشنل پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیاجس کے نتیجے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو کامیابی ملی اور ان کے صاحبزادے سردارا ختر جان مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے۔انہوں نے سب سے پہلے یہاں کی زبانوں کے اکیڈمیز کو فعال بنانے کیلئے ان کے فنڈز میں دس گناہ اضافہ کیا۔ بلوچی اکیڈمی کو پلاٹ الاٹ کیا اور براہوئی او رپشتو اکیڈمی او ربراہوئی ادبی سوسائٹی کے سالانہ فنڈز کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمنٹ کو ان کی ترقی یافتہ سوچ پسند نہیں آئی اور سابقہ ادوار کی طرح ایک مرتبہ پھر بلوچستان نیشنل پارٹی کی حکومت ختم کر دی گئی۔
کافی عرصے سے سردار عطاء اللہ مینگل سیاست میں غیر فعا ل تھے۔ 2 ستمبر 2021ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال سے بلوچستان کے حقوق کی جد و جہد کرنے والی ایک توانا آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔