|

وقتِ اشاعت :   October 3 – 2021

بیسویں صدی میں بلوچستان کی سرزمین نے جن عظیم اور قدآور سیاسی شخصیات کو جنم دیا ان میں میر غوث بخش بزنجو،نواب اکبر خان بگٹی،نواب خیر بخش مری اور عطا ء اللہ مینگل نمایاں تھے۔گوکہ ان میں باہم نمایاں فکری اور سیاسی اختلافات بھی رہے مگر یہ سب بلوچستان کے سیاسی افق پر براجمان رہے۔ اور سیاست کو نئی سج دھج اور پہچان دی۔ان سب شخصیات کو بلوچستان سے باہر بھی شہرت اور پذیرائی حاصل رہی۔02 ستمبر 2021ء کو انتقال کرنے والے سردار عطاء اللہ مینگل ان سیاسی سرخیلوں کی پیڑھی کے آخری ستون تھے۔اب ان کے جانے کے بعد لگتا ہے کہ بلوچستان کی سر زمین بانجھ ہوگئی ہے۔ دور دور تک ان شخصیات کے قد کاٹھ کا کوئی سیاسی لیڈر نہیں رہا۔ ان کی عمر 92سال تھی۔ انہیں 3ستمبر کو ان کے آبائی علاقے وڈھ میں سپرد خاک کیا گیا۔

ان کے انتقال سے بلوچستان اصولی سیاست اور حقوق کی جنگ کے حوالے سے ایک توانا آواز سے محروم ہوگیا ہے۔ وہ قوم پرست سیاست کے حوالے سے ایک معتبرنام تھے، گوکہ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے مگر گاہے بگاہے ان کی آواز ہمارے کانوں میں گونجتی رہی۔1997ء میں ایک انگریزی رسالے کودئیے گئے سردار عطاء اللہ مینگل کے پروفائل انٹرویو کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں جس میں سردارعطاء اللہ مینگل کی زندگی، سیاست،جدوجہد اور بلوچستان کے عمومی سیاسی حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب سردار عطاء اللہ مینگل 1978ء کے بعد اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ایک بلوچ رہنما جس کا لباس،وضع قطع سادگی اور متانت کا امتزاج تھا۔جھکے ہوئے کندھے،نرم خواورکمزور صحت نے ان پر طبعی اثرات ڈالے تھے۔لیکن ان کی عزم وہمت انٹرویو کے دوران نمایاں ہوتی گئی۔سردار آہستگی سے بات کرتے ہیں اور اپنے الفاظ کو تول کربولتے ہیں، ان کی گفتگو سے انفرادیت کا اظہار ہوتا ہے۔

دوسری طرف و ہ جس قسم کا لہجہ اختیارکرتے ہیںوہ سامنے والے کے خفتگی کا باعث ہوسکتا ہے۔اس کی آنکھیں چبھنے والی ہوتی ہیں۔ سردارعطاء اللہ مینگل 30کی دہائی کے اوائل میں وڈھ میں پیدا ہوئے جوجنوبی بلوچستان کا ایک دور دراز گاؤں ہے اورمینگل قبیلہ کا صدر مقام بھی ہے۔یہ ایک ویران اور بنجر علاقہ ہے جس کے چاروں اطراف جھلسا دینے والا صحرا اور پہاڑی چوٹیاں ہیں۔اس زمانے میں سڑکیں تھیں نہ بجلی نہ ٹیلی فون اور عام طور پر سفر اونٹ اور گھوڑوں کے ذریعے کیاجاتا تھا۔اس سخت اور جان گسل ماحول نے قابل فخر قبائلی لوگوں کو جنم دیا جو اپنی ہمت اور اختیار کے خلاف مزاحمت کے لئے مشہور تھے۔زندگی عزت اور مہمان نواز ی پر مبنی سخت قبائلی ضابطے کے تحت چلتی ہے۔ عطاء اللہ مینگل 1952ء میں کالج میں داخل ہوئے ہی تھے کہ جب وہ اور ان کے والد سرداری کے تنازعے کے بعد لسبیلہ منتقل ہوگئے تھے۔اس عرصہ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے والد سے سرداری وراثت میں نہیں لی تھی۔ سردار ی کے سلسلے میں قبیلہ کے اندر جھگڑا کھڑا ہواجس پر کسی اورنے سردار ہونے کا دعویٰ کیا لیکن ان کا جلد ہی انتقال ہوگیا۔

اور ان کے انتقال کے بعدمیرے چچا نے سرداری پر قبضہ کرنے کے لئے چھلانگ لگا دی۔ایک سال بعد قبیلہ لڑائی کو ختم کرنے کے لئے جمع ہوا اور رائے شماری ہوئی جس میں سردار عطاء اللہ اپنے قبیلے کا سردار منتخب ہوئے۔ اس سے تین سال قبل اس نے شادی کی تھی اور جلدہی بیٹے کے باپ بن گئے۔اپنے والد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ”وہ ایک مضبوط سردار تھے،بہت اچھے والد تھے اور خاص طور پر مجھ سے محبت کرتے تھے ”اس وقت بلوچستان پاکستان کا واحد خطہ تھا جسے صوبے کا درجہ نہیں دیا گیاتھا۔ اس پر براہ راست مرکز کی حکمرانی تھی۔ 50 کی دہائی کے وسط میں ایم این اے کی ایک نشست بلوچستان کو الاٹ کی گئی اوراس پربھی ڈاکٹر خان صاحب نے قبضہ کر لیا جو کہ سرحد کے پشتون تھے۔ ابتدائی بلوچ قومی تحریک اس مطالبے پر مبنی تھی کہ بلوچوں کو ریاست اور گورننس کے معاملات میں آزادانہ طور پر حصہ لینے کا حق دیا جائے۔

اس تحریک کے روح رواں میر غوث بخش بزنجو تھے، جو ایک بائیں بازو کے سیاسی لیڈرتھے۔ 1956ء تک عطاء اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی اور خیر بخش مری کے ساتھ بزنجو سے متاثر ہوئے اور انہوں نے سیاست کا ایک نیا انداز اختیار کرنا شروع کیا جو کہ روایتی جاگیردارانہ سیاست سے مختلف تھا۔ 50 کی دہائی کے آخر تک ”ون یونٹ” مغربی پاکستان پر مسلط ہو چکا تھا اور جلد ہی بلوچ رہنما اور جنرل ایوب ٹکراؤ کے راستے پر گامزن تھے۔ پہلی قبائلی بغاوت 1958-59 میں ایوب خان کے خلاف شروع ہوئی۔ دونوں طرف سے لوگ مارے گئے اور فوجی عدالتوں نے مشتبہ مجرموں کے خلاف من پسند سزائیں منظور کیں۔ 1962ء میں عطاء اللہ مینگل جو کہ اب ایم این اے منتخب ہوچکے تھے اس نے قومی اسمبلی کے پہلے سیشن میں ایوب خان پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ایک ماورائے خون مارشل لاء نہیں ہے‘‘۔بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع ہوا جس میں بگٹی، مینگل اور سینکڑوں دیگرسیاسی کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، میر غوث بخش بزنجو کو ایک کرنسی نوٹ استعمال کرنے پر 14 سال قید کی سزا دی گئی جس پر مہر لگا ہوا نعرہ تھا کہ ”بلوچستان کو اس کے حقوق دیں ”۔ جواب میں مینگل مری اور بگٹی علاقوں میں بغاوت پھوٹ پڑی اور امن بحال کرنے کے لیے فوج کو طلب کیا گیا۔

حکومت نے کرم خان کو مینگلوں کے لیے کٹھ پتلی سردار مقرر کیا لیکن اس کے کچھ ہی دیر بعد اسے اس کے اپنے قبیلے کے لوگوں نے قتل کر دیا۔ عطاء اللہ مینگل کے والد اور بھائی کو بھی گرفتار کیا گیا۔ سردارمینگل نے اس حوالے سے اپنے انٹرویو میں کہا: ”مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایسی صورتحال پیدا کی جس سے میرے والد کو تکلیف ہوئی؛ یہ ان کے لیے مناسب نہیں تھا”۔ ایوبی دور کے اختتام تک عطااللہ مینگل روایتی سردار سے قوم پرست رہنما میں تبدیل ہو چکے تھے۔ ایوب خان کے جانے کے ساتھ ہی بلوچوں کو رہا کر دیا گیا اور فوج واپس چلی گئی۔ یحییٰ خان 1969 ء میں مینگل، بگٹی اور مری سے ملے اور انہوں نے ون یونٹ کو توڑنے پر اتفاق کیا۔ان کی جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان کو پہلی بار ایک مکمل صوبے کا درجہ دیا گیا۔ یہ پاکستان بننے کے 22 سال بعد ہوا۔

1970ء کے عام انتخابات کے بعد سردار عطاء اللہ کے لئے ان کی زندگی کا مشکل ترین دور شروع ہونے والا تھا۔ اپنی زندگی کے اس مرحلے کے بارے میں انہوں نے کہا: ”ہم نے 1970 ء کے انتخابات جیتے، میں اکثریت کا لیڈر تھا اور ہم نے حکومت قائم کی۔ پھر مشکلات کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے :۔ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں انتخابات جیتے تھے اور نیپ /جے یو آئی اتحادنے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ابتدائی طور پر بھٹو کا بلوچستان میں نیپ کو حکومت دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ان کی جانب سے غیر مقبول حکومت مسلط کرنے کے خلاف مظاہروں کی لہر نے انہیں اپنا ذہن تبدیل کر نے پر مجبور کیا۔ 1972 ء کے اوائل میں سردار عطاء اللہ کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا، اور میر غوث بخش بزنجو کو گورنربلوچستان بنایا گیا۔ سردار عطاء اللہ نے بعد میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھٹو کبھی بھی اس پر راضی نہیں تھے۔

ان کے سامنے صرف ایک وجہ یہ تھی کہ فوج اب بھی سرحد پر بھارتی افواج کا سامنا کر رہی تھی۔ اس طرح وہ بلوچستان میں قوم پرستوں کے ساتھ محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔تاہم بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کے اقتدار میں آنے کے باوجود پہلے دن سے ان کے لیے مسائل پیدا کیے گئے۔ ”بھٹو نے ہمیں سیاسی طور پر قبول کیا لیکن ذہنی طور پر کبھی نہیں۔ وزیراعلیٰ کے طور پر میرے دور میں وفاقی حکومت کی طرف سے ہر ماہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا”۔ یہ میکیاویلین مداخلت صوبے میں بے چینی کا باعث بنی۔ مثال کے طور پر مصطفیٰ کھرنے اپنے دور حکومت کے شروع میں تمام پنجابی بیوروکریٹس کو واپس بلا لیا جو بلوچستان میں خدمات سرانجام دے رہے تھے جس سے ایک شدید انتظامی مسئلہ پیدا ہوا۔ اس کے بعد پولیس کی ہڑتال ہوئی جس نے صوبے کو مفلوج کر دیا۔ سردار عطاء اللہ کو ایک نئی فورس بھرتی کرنے پر مجبور کیا گیا جسے ”دیہی محافظ” کہا جاتا تھا۔ اس کے فوراََ بعد مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کے زیر اہتمام پیپلز پارٹی کے ہمدردوں نے لسبیلہ میں مواصلات کے ذرائع کو منقطع کردیا یہ تمام کاروائیاں وفاقی حکومت کی جانب سے چلنے والی پروپیگنڈا مہم کے پس منظر میں ہو رہی تھیں جس میں سردار عطاء اللہ اور خیر بخش مری پر پاکستان کو توڑنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان مسائل کے درمیان عطاء اللہ مینگل کی زوجہ اور ان کے آٹھ بچوں کی ماں 1972 ء میں فوت ہو گئیں۔اس کے ساتھ ساتھ بھٹو کے ساتھ تناؤ بڑھتا گیا ان کی ملاقاتیں ہمیشہ غیر یقینی، بے اعتمادی اور شکوک و شبہات کے ماحول میں ہوتی تھیں۔

بھٹو ان کے ساتھ متکبر نہیں تھا بلکہ مکمل طور پر دوغلا تھا۔ عطاء اللہ مینگل یاد کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہاؤس کراچی میں بھٹو سے ملاقات کے بعدجب وہ باہر جا رہے تھے توانہیں بھٹونے واپس بلالیا۔ مینگل دروازے میں رک گئے اور جب اس سے بھٹو نے پوچھا: ”کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی حکمرانی ہو سکتی ہے؟” مینگل نے کہا: ”میں اس کے بارے میں نہیں جانتا، لیکن ایک چیز جو میں جانتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ جس دن جمہوریت نہیں ہوگی وہاں بھٹو نہیں ہوگا”۔ بھٹو نے دوبارہ کہا: ”تم غلط ہو۔ میں اس ملک پر 15 سال تک ڈنڈے کے روز پر حکومت کروں گا، اور پھر ہم دیکھیں گے۔”

1973ء کے اوائل میں بھٹو مجوزہ نئے آئین میں ایک شق شامل کرنا چاہتے تھے جس میں موجودہ وزیراعظم کو صرف اس صورت میں ہٹایا جا سکتا تھا جب دوتہائی اکثریت نے اس کے خلاف ووٹ دیاہو۔نیپ نے اس معاملے پر تبادلہ خیال کرنے اور مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لیے لاہور میں ایک اجلاس منعقد کرنا تھا۔ عطاء اللہ مینگل اس وقت کو یاد کرتے ہیں کہ’’ انہوں نے فوجی ٹرکوں کو کوئٹہ اور بلوچستان کے اندورنی علاقوں کی طرف جاتے دیکھا۔‘‘ اس طرح انہیں واضح اشارہ دیا گیا کہ اگر نیپ نے اس شق کو مسترد کردیا تو اس کے لئے اور اس کی حکومت کے لیے سنگین نتائج ہوں گے، اور اگر انہوں نے یہ تبدیلی قبول کی تو فوج کو بلوچستان سے واپس بلا لیا جائے گا۔

تاہم یہ دباؤ کے حربے نیپ کی قیادت کو خوفزدہ کرنے میں ناکام رہے اور انہوں نے اس شق کو مستردکر دیا۔ اس کے فوراََ بعد بلوچستان میں مینگل حکومت کو گورنر بزنجو کے ساتھ برطرف کر دیا گیا اور صوبے کو وفاقی حکمرانی میں دیا گیا۔ نیپ/جے یو آئی کے تحت صوبہ سرحد کی حکومت نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر استعفیٰ دے دیا۔ اس طرح پاکستان کی تخلیق کے 26 سال بعد بلوچستان کے عوام نے صرف ایک سال کی نمائندہ حکومت کا لطف اٹھایا۔ذوالفقار علی بھٹو نے اب بلوچ ‘ٹرائیکا’ کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔

وفاقی حکومت کے اعلان کے فوراََ بعد نواب اکبرخان بگٹی کو گورنر مقرر کیا گیااور اسکے بعد یہ بھی افواہ پھیلائی گئی کہ ‘اسلام آباد میں اسلحہ کا ایک ذخیرہ پکڑاگیا ہے جس کا تعلق عراق سے تھا اور اسے بلوچستان میں تخریب کاری کے لئے لے جایاجانا تھا۔ اب اس نے فوج کو بلوچستان جانے کا حکم دیا اور جلد ہی وہ صوبے میں موجود تھی۔ مقامی قبائلیوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں ہوئیں اور آہستہ آہستہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔چار سال تک تقریباً ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ آپریشن جاری رہا۔ ایران کے شاہ نے ہیلی کاپٹر اور کچھ لاجسٹک سپورٹ فراہم کی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جمہوریت کا وائرس ایرانی بلوچستان میں پھیل جائے جہاں سردار مینگل کے مطابق ”بلوچ شہری نہیں ماتحت ہیں ”۔ اگست 1973ء میں سردارعطاء اللہ کوغوث بخش بزنجو اور نواب مری کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ پورے صوبے میں سینکڑوں کارکن فوجی کیمپوں میں قید تھے اور بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ 1975ء میں بھٹو نے بلوچوں اور دیگر نیپ رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد میں سنگین غداری کے الزام میں کیس چلانے کا فیصلہ کیا، جس کی انتہائی سزا موت تھی۔

سردارعطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ کو کراچی کی ایک سڑک پر گھات لگا کر لاپتہ کیا گیا۔ نصرت بھٹو نے ہمدردی اور امید کا پیغام دینے کی کوشش کی لیکن سردارعطاء اللہ نے محسوس کیا کہ سچ بتانا بہت خوفناک ہے۔بھٹو کو 1977ء میں معزول کیا گیا اور اس کے فوراََ بعد جنرل ضیا ء نے نیپ قیادت سے ملنے کے لیے ذاتی طور پر حیدرآباد جیل کا دورہ کیا۔ اس نے اکیلے عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کی اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ انکے بیٹے کی بازیابی کی کوشش کریں گے اور جرم کے مرتکب افراد کو سزا بھی دی جائے گی۔ شدید انجائنا میں مبتلا، عطاء اللہ مینگل نے ضیا ء سے کہا: ”میں جانتا ہوں کہ آپ محسوس کرتے ہیں کہ میں بیمار ہوں اور آپ اس دھچکے کو نرم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا بیٹا مر گیا ہے”۔ اس کے فورا ًبعد سردارعطاء اللہ کو ہارٹ بائی پاس آپریشن کے لیے امریکہ بھیجا گیا اور دیگر تمام نیپ رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔

جنوری 1978ء میں جنرل ضیاء نے ایک تقریر کی جس میں انہوں نے غداری کے مقدمے کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ”نیپ کے رہنما اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے کہ دوسرے پاکستانی۔‘‘ فروری 1978ء میں واپس آتے ہوئے سردارعطاء اللہ نے ضیا ء الحق سے ایک بار پھر ملاقات کی۔ انہو ں نے اس بارے میں بتایا کہ ”ضیاء نے پھر کبھی میرے بیٹے کا تذکرہ نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ضیاء بھٹو کے دور میں ہونے والی فوجی کارروائیوں میں ایک فریق تھے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ اپنے پیشرو سے بدتر ہوتا ہے اور اسی لیے میں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھوڑی دیر کے لئے۔۔۔۔۔ سردار عطاء اللہ مینگل نے اسی سال دوبارہ شادی کی اور انگلینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اس نے اپنے سب سے بڑے بیٹے منیر مینگل کے حق میں اپنی سرداری چھوڑ دی۔ وہ 1989ء میں پاکستان آئے۔

یہ عجیب بات ہے کہ موت نے ہمیشہ انہیں واپس لانے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ 1989ء میں وہ میر غوث بخش بزنجو کی تدفین کے موقع پر آئے اس کے بعد چند ماہ بعد وہ اپنے بڑے بیٹے منیر مینگل کی تدفین کے لیے آئے جو دل کے دورے سے انتقال کرگئے تھے۔۔۔۔۔۔وہ پھر لوٹ گئے۔1996ء کے اواخر میں پھر وہ پاکستان واپس آگئے۔ فعال سیاست میں دوبارہ داخل ہونے سے ان کی ہچکچاہٹ کے باوجود پرانے قوم پرستوں کی طرف سے ان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ بلوچ سیاست کو ایک علامتی سہارافراہم کریں جس کے تحت وہ متحد ہوسکیں۔ ان کی نوتشکیل شدہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو فروری1997ء کے انتخابات میں 10 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ بلوچستان حکومت کی تشکیل میں ان کے پرانے ساتھی نواب اکبر بگٹی بھی شامل تھے۔

سردارعطاء اللہ مینگل کے بیٹے سردار اختر مینگل نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ اس موقع پر اپنی مستقبل کی امیدوں کے بارے میں سردار مینگل نے کہا: ”برسوں میں جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھ کر پر امید ہونا مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اپنی زندگی میں مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ مجھے ثابت قدم رہنے کے لیے کافی سہارا دیتی ہے۔ سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ کی لاش اب تک نہیں ملی۔ اس بار ے میں سردارعطاء اللہ مینگل کا کہنا تھا: ”وہ اس جنگ میں مرنے والوں میں سے ایک تھا”۔