مکران کے عوام نے گوادر شہر میں تاریخی جلسہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ سی پیک کے ثمرات بلوچستان کے عوام کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ منصوبہ ملکی اشرافیہ اور اسلام آباد سرکار کے لئے ہیں۔ اس جلسہ کا سہرا جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو جاتا ہے۔ ان کی بلوچ قوم پرستانہ سوچ نے مکران کے عوام کو یکجا کیاہے۔ عوام نے بھی ان کی پکارپرلبیک کہا۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے مولانا صاحب کی آواز کو بلوچ قوم کی آواز قراردیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما مولانا عبدالحق بلوچ کی رحلت کے بعد جماعت اسلامی بلوچستان میں سیاسی قیادت کا فقدان پیدا ہوگیا تھا۔
مولانا عبدالحق نے جماعت اسلامی میں رہتے ہوئے ہمیشہ بلوچستان کی بات کی۔ بلوچ قوم کی بات کی۔ ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی کی مرکزی پالیسی قوم پرستانہ سیاست نہیں ہے اور نہ ہی منصورہ میں بیٹھے ہوئے پالیسی میکر قوم پرستانہ سیاست کی اجازت دیتے ہیں۔ تاہم مولانا عبدالحق ایک باصلاحیت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک مصنف اور ادیب بھی تھے۔ بھلا ان کے سامنے منصورہ والے کیا بول سکتے تھے۔ بلوچستان میں جماعت اسلامی کو ایک طویل عرصے کے بعد مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی شکل میں ایک مخلص اور باصلاحیت قیادت نصیب ہوئی۔ ان کا تعلق ضلع گوادر کے ماہی گیر بستی سربندن سے ہے۔ ان کا تعلق ایک ماہی گیر خاندان سے ہے۔ سربندن سے قبل مولانا کے آبائواجداد کا تعلق گوادر کے نواحی علاقہ کلانچ سے تھا۔ ان کے بزرگ ہجرت کرکے سربندن میں آباد ہوگئے۔ کلانچ بلوچستان کا تاریخی شہر ہوا کرتا تھا۔ کلانچ نے بے شمار شخصیات پیدا کیں۔ جن میں مائی کلانچی شامل ہے۔ جنہوں نے موجودہ کراچی شہر کو آباد کیا۔
مولانا ہدایت الرحمان اپنے آبائواجداد کے نقش قدم پرگامزن ہیں۔ وہ بلوچ عوام کی آواز بن چکے ہیں۔ جس کی ہدایت پر شہرگوادر میں شہداء جیونی چوک پر ایک عوامی جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں ماہی گیروں، نوجوانوں سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ جلسہ عام میں سینکڑوں کی تعداد میں افراد نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، اور فوجی چوکیوں پر شہریوں کی تذلیل، ٹرالرز مافیا کے خلاف نعرہ بازی کرتے رہے۔ تاریخی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ سی پیک نے ہمیں چیک پوسٹوں کے سوا کچھ نہیں دیا،کوئی ترقی نہیں دی، بلکہ اس ترقی کے نام پر معزز شہریوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے اصل مالک مقامی ماہی گیر ہیں کوئی اور گوادر کی ملکیت کا دعویٰ نہ کرے۔کوسٹ گارڈ اور میرین سیکیورٹی گوادر والوں کو لاواث سمجھتے ہیں لیکن ہم سیاسی مزاحمت جاری رکھیں گے۔ مولانا صاحب نے اصل حکمرانوں کو للکارا اور انہیں کہا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور تیس اکتوبر تک مطالبات نہیں مانے گئے، تو 31 اکتوبر کو پریس کانفرنس کریں گے اور نومبر میں بلوچستان کی تاریخ کا بڑا دھرنا دیں گے۔
دیکھا جائے توگوادر کی تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ کبھی نہیں منعقد ہوا۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ عوام کی احساس محرومی اور سیکیورٹی اداروں کا رویہ ہے۔ دوسری وجہ مکران میں سیاسی قیادت کا فقدان تھا جس پر میں نے اکثر اپنے کالموں میں مصلحت پسندی کی سیاست کی نشاندہی کی۔گزشتہ سال مکران میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک میں بلوچ پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی جماعتوں نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی تھی۔ ان کی یہ مصلحت پسندی کی سیاست سمجھ سے بالاتر تھی۔ ڈرگ مافیا کے خلاف تحریک خود رو انداز میں چل رہی تھی۔ تحریک کی قیادت سیاسی لیڈرشپ کے بجائے سماجی رہنما برکت بلیدی صاحب کررہے تھے۔ جن کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے ہیں۔
مکران میں آج بھی سیاسی جماعتوں نے سیاسی خلا کو پر نہیں کیا۔ اس سیاسی خلا کو پرکرنے میں مولانا ہدایت الرحمان بلوچ میدان میں آگئے۔ میرا یہ سوال ہے ان سیاسی جماعتوں کے لیڈر شپ سے کہ ان کی یہ مصلحت پسندی کی سیاست کب تک چلے گی؟ کیوں سیاسی لیڈر شپ خوف میں مبتلا ہے؟ ان کو کس بات کا ڈر ہے؟ کیا یہ سیاسی جماعتیں صرف انتخابات کے دوران عوامی مینڈیٹ لینے کی حد تک ہیں؟ یہ پولٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کب تک چلے گی؟ ان سوالات کا جواب سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔حالانکہ پی ڈی ایم کے زیراہتمام گوادر میں اس طرح کا بڑا جلسہ ہوناچاہیے تھا۔ جس میں پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، سردار اختر مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ، محمود اچکزئی سمیت دیگر رہنماؤں کا خطاب ہونا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
سی پیک کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ان جماعتوں کے پاس مکمل تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ جو بلوچستان، سندھ اور دیگر علاقوں میں موجود ہیں۔ اس مہم کو مکران سے نکال کر ملک گیربناسکتے ہیں۔ کوئٹہ، خضدار، قلات، کراچی، حیدرآباد، ملتان سمیت دیگر علاقوں میں ریلیاں نکال سکتے ہیں۔ تمام بڑے بڑے شہروں میں قائم پریس کلبوں کے سامنے احتجاج یا سیمینار کا انعقاد کرواسکتے ہیں۔ جہاں ملکی اور بین الاقوامی میڈیا موجود ہے۔ علاوہ ازیں بلوچستان اسمبلی، قومی اسمبلی سمیت سینیٹ میں احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی دیگر جماعتوں کو اعتماد لیکر اسمبلیوں کا گھیراؤ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے ساتھ ملکر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مکران کے عوام کو تنہاچھوڑدیاگیا۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اے این پی کے دوستوں نے بھی پشتون عوام کو لاوارثوں کی طرح چھوڑدیا تھا۔ وہ ماورائے عدالت قتل کیے جارہے ہیں۔ وزیرستان آپریشن میں لوگ بے گھر ہوگئے۔ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ متاثرین کو معاوضہ نہیں دیاگیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ وہاں بھی ایک محسود تحفظ تحریک کے نام سے چند نوجوانوں نے تحریک کا آغاز کیا جو بعد میں اس تحریک کو عروج ملا۔ اس کی مقبولیت میں اضافہ کی وجہ سے اس کا نام “محسود تحفظ تحریک” سے تبدیل کر کے “پشتون تحفظ تحریک” رکھاگیا۔ اس تحریک کے سربراہ انسانی حقوق کے کارکن منظور پشتین ہیں۔
اے این پی کی لیڈرشپ نے پشتون عوام کو بے یار مددگار چھوڑ دیا جس کے باعث معاشرے میں سیاسی خلا پیدا ہوگیا۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنے میں پشتون تحفظ تحریک کی قیادت کامیاب ہوگئی جس کے باعث عوام کی ہمدردیاں اور حمایت تحریک کو حاصل ہوگئی۔ اور تحریک حالیہ عام انتخابات میں کامیاب ہوگئی۔ وہی کہانی آج مکران میں دھرائی جارہی ہے۔ اسلام آباد سرکار کے ڈر اور خوف کی وجہ سے بلوچستان میں مصلحت پسندی کی سیاست چل رہی ہے۔ لیکن جماعتیں یہ بھول گئیں ہیں کہ مصلحت پسندی کی سیاست کرنے سے جماعتیں مستحکم نہیں ہوسکتیں۔ سیاسی قیادت کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ یا انہیں عوام کے ساتھ ہونا پڑے گا یا اداروں کے ساتھ ۔