|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2021

مچھیرے کابیٹاہوں۔۔
اب گوادرسمیت مکران میں ظلم ہوا تو ہم بھی جیناحرام کردیں گے۔
ایک ماہ میں تمام چیک پوسٹیں ختم ،ماہی گیروں کے مسائل حل اورگوادرمیں پانی کی فراہمی سمیت تمام مسائل حل کئے جائیں۔۔۔

ہمیں لاوارث ناسمجھاجائے۔چادراورچاردیواردیواری کاتقدس پامال کیاجارہاہے۔
ہمیں سی پیک نہیں پانی چاہیے۔سمندر کوٹرالروں سے پاک کیاجائے۔
فرعونیت کاوقت ختم ہوگیا ،اب زمینوں پرقبضہ نہیں کرنے دیں گے۔
اب ہم آپ سے پوچھیں گے کہ کہاں سے آرہے ہواورکہاں جارہے ہو۔
یہ سخت جملے کسی طاقت ورسردارکے ہیں نہ ہی کسی بندوق بردار مزاحمت کار کے، بلکہ ایک مچھیرے کے بیٹے کے ہیں جوسی پیک کے ماتھے کے جھومر پاکستان کی ترقی کے ضامن گوادر میں ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلندکررہے ہیں۔

گوادرسمیت مکران میں برسوں سے خاموشی ٹوٹنے جارہی ہے۔
یہ 1993 کی بات ہے جب ٹی وی پردشت ڈرامہ نشرہورہاتھاتو اس وقت کسی اخبارمیں مستقبل کے گوادر کے حوالے سے اشتہارشائع کرایاگیاتھاجس میں بلندوبالا عمارتیں اور نیلاسمندردکھایاگیاتھا۔پھر1998 کے بعد مشرف دورمیں گوادرمیں ترقی کے نام نہاد سفرکاآغازہواتاہم نوازشریف کے دورمیں پاکستان چائنہ بزنس کوریڈور کاباقاعدہ آغازکیاگیاجس میں ساحلی شہر کومرکزی حیثیت دی گئی تاہم زمینی حقائق کچھ اورہی رہے۔
گوادرمیں عیش وعشرت کے لیے بہترین فائیو اسٹار ہوٹلزبنائے گئے ہیں لیکن غریب کی جھونپڑی ڈھادی گئی۔۔
عالمی معیارکااسٹیڈیم بنایاگیاجہاں کراچی ،لاہور،راولپنڈی سمیت ملک بھرسے کھلاڑی آکرکھیل سکتے ہیں۔ وہاں اداکاروں اور ماڈلزکوبھی فلم بندی کے لیے خصوصی طور پر بلایاجاتاہے لیکن یہ گراؤنڈمقامی نوجوان کے لیے نوگوایریاکی طرح ہے۔ضلع کے لوگ معمولی بخار کے لیے کراچی یادیگرشہروں کارخ کرنے پر مجبورہیں۔گوادرسمیت بلوچستان بھرمیں تعلیم کاتواللہ ہی حافظ ہے۔
جب ترقی کے سفرکاآغازہواتو مقامی مچھیروں کوبے دخل کرنے کے لیے تنگ کیاجانے لگاتودوسری جانب چائنیز کمپنیزکی جانب سے ڈیپ سی ٹرالنگ نے ماہی گیروں کے زخموں پر نمک چھڑکااور ستم بالائے ستم یہ کہ گوادرسمیت مکران کے باشندوں کو احتجاج تک کی اجازت نہیں دی گئی۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے صحافی جمیل قاسم کے مطابق 1988 میں پہلی بار بڑا احتجاج کیا گیاتھاجس میں نہتے مظاہرین پرپولیس نے گولیاں برسا کرخاتون اوربچی سمیت تین افرادکوموت کے گھاٹ اتاراتھا جنہیں اس دور کے شعرانے منفرد انداز میں خراج عقیدت پیش کیا
یاسمین ء ِ دلبند ء َ ھون دنزیتگ تیراں
کبر بوتگ انت پْرسیگ جیونی ء ِ دل سْتکگ
ایسے حالات میں سمندرکی طویل خاموشی یقیناً طوفان ہی کاپیش خیمہ ثابت ہوئی اورجماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان کی کال پر مخلوق نے لبیک کہا اور بحر بلوچ پرسناٹے بپھرنے لگے۔ جمیل قاسم کے مطابق ایک لاوا تھا جو پک چکاتھا۔ حکمرانوں کے مظالم سے لوگ شدیدتنگ آ گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گوادرمیں احتجاجی اجتماع کوتاریخ کاسب سے بڑا جلسہ قراردیاجارہاہے۔ میڈیامیں بلیک آئوٹ ہونے کے باوجود سوشل میڈیاپراس کی پذیرائی ہوئی اور ملکی سیاست میں بھی ہلچل مچ گئی ہے۔ لیگی رہنمامریم نواز نے ٹوئٹ کیاکہ گوادر کے عوام کی بات سنی جائے۔
شاہدخاقان عباسی نے ٹی وی پروگرام میں اینکرپرطنزکیاکہ آپ لوگوں کوتوپتہ بھی نہیں کہ گوادرمیں کیا ہورہاہے۔انہوں نے سوال اٹھایاکہ گوادر کے احتجاج کوکیوں کوریج نہیں دی جارہی؟
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وفاق میں حکومت کرنے والوں نے بلوچستان کوکالونی بنائے رکھالیکن افسوس تو اس بات کاہے کہ بلوچستان کے حکمران بھی صوبے کے وسائل اور مسائل دونوں کونظرانداز کرتے رہے۔ماضی کی حکومتیں توخیرقصہ پارینہ بن چکی ہیں تاہم موجود جام حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلوچستان کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ جو جتنابڑا کرپٹ،بدعنوان اور منشیات کی ریل پیل میں ملوث رہا اسی کولیڈر بناکرعوام میں پیش کیاگیا۔ایک طرف جہاں گوادرمیں چائینزڈیپ سی ٹرالنگ،سرحدی تجارت کی بندش سمیت تربت میں اٹھاؤماروپھینکو اور کوئٹہ میں احتجاج کرنے والے طلباء،مزدوراور سیاسی کارکنوں پرتشدد معمول بن گیاہے۔
تین سال سے وزیراعلیٰ کبھی اپوزیشن ،کبھی بیوروکریسی توکبھی اپنے ہی ارکان سے لڑتے نظرآرہے ہیں ،انہیں بلوچستان کے مسائل سے زیادہ اپنی نوکریوں کی فکرلاحق ہے۔ یہ حکمران مسائل کے حل کے بجائے صوبے کے لیے خود مسائل بن گئے ہیں۔ بحربلوچ سے نکلنے والی سناٹوں کی گونج اب تربت میں بھی پڑاؤ کرچکا ہے۔ اگرحکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے توکوئٹہ اور اسلام آبادبھی زیادہ دورنہیں۔