پاکستان کی روایتی سیاست لفاظی کی حد تک ہمیشہ انقلابی دکھائی دیتا ہے لیکن عملی میدان میں اترنے کے بعد لفظ اور لب ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست میں بلوچستان کا نام تو ہے لیکن اختیار و اقتدار میں اس کا اول تو کوئی حصہ نہیں اور اگر ہے تو برائے نام ‘ یہی سبب ہے کہ ہمیشہ بلوچستان میں ہر چیز ہر وقت نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں میں گروی ہے ۔اس سے بڑھ کر ستم کیا ہو کہ ملک کے پورے آدھے حصے کو چھوٹا صوبہ کہا جائے، پھر بجٹ اورترقیاتی منصوبوں میں اس کی جغرافیائی وسعت کو حساب میں نہ لایا جائے ۔
پاکستان بحیثیت ملک اور بلوچستان بحیثیت اس کی ایک وحدت دونوں بد نصیب ہیں کیونکہ پاکستان کے ارباب اختیار سونے کے انڈوں کے دلدادہ ہیں اور سونے کے ہزاروں انڈے دینے والا بلوچستان ہے جس کے حقیقی وارث بلوچ ہیں لہذا ان سونے کے انڈوں کی حفاطت کے لئے مالکان کو بیدار، چوکس اور تیار ہونا چائیے۔ بلوچستان کے ساتھ روز اول سے معاندانہ سلوک کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دو ہزار کے بعدیہ مزید تیز ہوگیا ہے جس کے سبب بلوچوں کی تشویش فطری اور لازمی ہے۔ بلوچستان کی طویل ساحل ہو یا انواع واقسام کے قدرتی وسائل ،ان تمام کی لاوارث کے ترکہ کی طرح تقسیم ہر گز قابل قبول نہیں مگر طاقت کے مراکز میں تشریف فرما بقراطوں کو ان کے چاپلوس سقراط خطر ناک دلدل میں پھنسانے پر تلے ہوئے ہیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بلوچ قوم اس ملک اور اپنی سرزمین پر اجنبی ہے جگہ جگہ نا کے چیک پوسٹ اور مسلح دستوں سے مد بھیڑ اس بات کی غمازہے کہ اس قوم کی تذلیل روز مرہ کا معمول بن جائے۔ ایسے مواقع پر عوام الناس کا رنجیدہ خاطر ہونا لازمی بات ہے۔
بلوچستان میں امن وامان کی حالت بہت بری ہے شاید اس سے پہلے اتنے عرصے ایسے حالات نہیں رہے ،ارباب اختیار کی آنکھیں بند ہیں یا ان کی بصیرت میں یہ بات نہیں آتی کہ بلوچستان اور بطور خاص مکران آتش فشاں بن چکا ہے اور اگر حقیقت حال اب تک خاموش ہے تو یہ خاموشی عارضی ہے، صرف اتنی دیر کی بات ہے کہ کوئی نبض شناس انسان ایک چیخ مارے۔ قدرت کی شان کہ یہ سعادت ایک دینی طالب کے حصے میں آئی ۔ جماعت اسلامی سے سیاسی تربیت یافتہ اور اس کی تنظیم سے منسوب مولانا ہدایت الرحمن کی اس بر وقت آذان نے سب کچھ تہہ و بالا کردیا اور بلوچستان کے ساحل پر اسلام آبادی نمائندوں اور اختیار داروں کی آنکھیں اگر اب بھی نہ کھلیں تو پھر قیامت کا انتظار کریں۔ اس ملنگانہ خود سری کی سعادت بھی آئی تو کس کے حصہ میں آئی ۔
یارو احباب کا فرمانا ہے کہ جماعت اسلامی کے ایک تنظیمی اہم عہدہ دار کا میدان میں آ کر یہ ساری کریڈٹ اپنے نام کرنے کے کیا معنی؟ کوئی کیا کہے اور کوئی کیا جواب دے مگر یہ حقیقت ہے کہ عوام کی درد و آواز ہدایت الرحمنٰ نے ہی اٹھائی۔ میں نہیں کہتا کہ ہمارے نیشنلسٹ حضرات نے کیوں پہل نہیں کی میں یہ کہوں گا کہ ہدایت الرحٰمن صاحب نے نا عاقبت اندیش قیادت کی تکبر کے گھوڑے کے ٹانگوں پر ضرب کاری لگا دی ہے بقیہ کام مل کر کیے جا سکتے ہیں کیونکہ یہ ملک ،اس کے وسائل بلوچستان اور مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں اوراس میں کوئی نیشنلسٹ کا حصہ زیادہ اور کوئی وفاقیت کی حامی کا حصہ کم نہیں ہے ۔ہدایت الرحمن بلوچستان کے ساحل کے اصلی مالکوں میں سے ایک ہیں، اس میں اس کا اپنا حصہ اور انہی قوم کا حصہ بھی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے آواز اٹھانا ایک فرض تو تھا ہی مگر یہ ایک قومی فرض تھا جو ان لوگوں کا قرض ہے۔
جو ابھی تک دنیا میں نہیں آئے ہیں ۔ہدایت لرحمن صاحب پیشگام ہوئے ،اب اس مشن کو سیاست زدہ زنگ آلودگی سے بچانے کی فوری ضرورت ہے۔ ہدایت الرحمن کی آواز ستر سال پہلے کی آواز ہے اور ان لوگوں کی آواز ہے جو شاید کسی موذن کی آذان کے منتظر تھے، اب بلا تاخیر تمام سیاسی حلقوں اور گروپوں میں موجود ہر با شعور انسان اپنے حقوق کے لئے یکمشت ہو کر میدان میں موجود ہے اس نعرہ کو اتنی جلدی اتنے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملنے کو ایک لمحہ فکریہ سمجھ کر ارباب حل و عقد بھی ہوش میں آجائیں اور بلوچ کو یہ باور کرائیں کہ پاکستان کا آدھا حصہ تمہارا تو اس کے وسائل بھی اتنے حصے تمہارے۔