|

وقتِ اشاعت :   October 10 – 2021

بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر سے اٹھنے والی آواز ساری دنیا کو سنائی دی مگر پاکستان کے بے حس حکمرانوں کو یہ سنائی نہیں دی۔گوادر وہی شہر ہے جہاں سے پاکستان کی ترقی کی ڈھونگ رچائی جاتی ہے وہی شہر جو کہ سی پیک کا مرکز کہلاتا ہے۔ آج کل تو حکمران اسے سنگاپور اور لِٹل پیرس کے نام سے موسوم کرتے نہیں تکتے ۔ یہ سب بے سروپا دعوے گوادر کی وجہ سے ہیں اور گوادر پوری دنیا میں سی پیک کی وجہ سے اہمیت حاصل کر چکا ہے۔

مگر افسوس وہی گوادر کے شہری گزشتہ کئی سالوں سے مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں آئے روز اپنے مسائل کے حل کیلئے مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔ لٹل پیرس میں لوگ پینے کے پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں پینے کا پانی بالکل ناپید ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ دیہی علاقوں میں بجلی نہ ہونا، صحت کی صورتحال ابتر، تعلیم صفر پر ہے اور روزگار کا کوئی موقع میسر نہیں ہے۔ یہاں کے عوام کا ایک ہی ذریعہ روزگارتھا ماہی گیری ، اسے بھی ظالموں نے وہاں کے غریب عوام سے چھین لیا۔ امن و امان ایک سوالیہ نشان ہے مقامی لوگوں کی تشخص اور املاک خطرات سے دو چار ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو تشویش ہے کہ آئندہ مستقبل قریب میں مقامی لوگ اقلیت میں تبدیل نہ ہوں ایسا نہ ہو کہ انکا وجود اور تشخص مٹ جائے۔

گوادر کے لوگ سی پیک اور گوادر پورٹ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ترقی ہمارے لئے نہیں ہے بلکہ غیروں کی خوشحالی اور ہماری لئے بربادی ہے۔ ان کے کافی سارے خدشات اب تک درست ثابت ہو چکے ہیں۔ گوادر میں پینے کا پانی ،بجلی، صحت ،تعلیم روزگار کا مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن اب ان کے وجود اور عزت نفس کو بھی خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ عجیب بات ہے مختلف سیکورٹی چیک پوسٹوں کے حصار میں گوادر اب اپنی ہی باسیوں کیلئے دیار غیر بن گیا ہے۔ مقامی لوگوں کیلئے انٹری کارڈ، گوادر کو خاردار تاروں کے حصار میں بند کرکے لکیر کھینچنا، سیکورٹی چیک پوسٹوں میں آئے روز اضافہ کرنا، مختلف چوکیوں پر انہیں حراساں کرنا یہ سب گوادر کے عوام کی خدشات میں مزید اضافے کے باعث بن رہے ہیں۔ ان کے علاوہ گوادر میں اکثریت فشریز کے کاروبار سے منسلک ہیں ماہی گیروں کی بہت بڑی تعداد گوادر ساحل پر اپنے رزق کی تلاش میںسمندر کا رخ کرتے ہیں۔ کئی دنوں کی مشقت و محنت کے بعد مچھلیاں پکڑ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

اس لئے کہ وہاں روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے بھی نہیں ۔یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے باضمیر باسیوں کے خمیر میں بھیک مانگنا اور چوری کرنا شامل نہیں ہے وہ غلط اقدام کرنے سے نہیں بلکہ محنت کرکے حلال رزق کمانے پر یقین رکھتے ہیں، یوں وہ محنت سے وہ اپنے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہیں ہونے دیتے لیکن اب ماہی گیروں کیلئے بھی سمندر تنگ کردیا گیا ہے، ایک تو انہیں سمندر میں جانے نہیں دیا جاتا اور دوسری جانب غیر اضلاع اور دوسرے صوبوں سندھ پنجاب کے ماہی گیر گوادر کے حدود میں آکر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور مقامی ماہی گیروں سے روزی کا موقع چھین لیتے ہیں تیسری بات یہ کہ گوادر کے ماہی گیروں کیلئے اب سرکار نے محدود وقت مقرر کیا ہے جس محدود وقت میں ماہی گیروں کیلئے مچھلیاں پکڑنا ممکن ہی نہیں ۔پہلے ماہی گیر اپنی مرضی سے سمندر میں شکار کیا کرتے تھے لیکن اب انہیں سرکار کے مقررہ وقت میں مچھلی پکڑنے کی اجازت ہے اور سرکاری مقررہ وقت میں مچھلیاں پکڑنا نا ممکن ہے کیونکہ سمندر میں شکار کا بھی ایک وقت ہوتا ہے اس وقت میں ماہی گیر زیادہ سے زیادہ شکار کرسکتے ہیں مگر اب سرکار کی مقرر وقت شکار کی نسبت سے غیر مناسب نہیں بلکہ سراسر ظلم ہے۔

اس لیئے اب ہزاروں خاندان کا کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ہزاروں لوگ بیروزگاری سے تنگ آکر سی پیک جیسے براہ نام ترقی پر لعنت بھیجنے لگے ہیں۔ ان حالات سے گوادر کے باسی دوچار ہیں۔ گوادر وہ سرزمین ہے جو ساحل سمندر پر ہوتے ہوئے بھی پیاسا ہے۔ یہاں پر 20 سے 30 ہزار تک فی ٹینکی پانی فروخت ہونے لگی ہے ۔ ان حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ گوادر کس کرب سے گزر رہا ہے۔ انہی مسائل کے تناظر میں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے “گودار کو حق دو” کے نام سے تحریک کا آغاز کردیا ہے یہ تحریک گزشتہ دنوں سے کافی شدت اختیار کرچکی ہے۔ ویسے مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کا سیاسی تعلق جماعت اسلامی سے ہے لیکن انہوں نے اس تحریک کا آغاز صرف اپنی جماعت کے پلیٹ فارم کے بجائے گوادر کے دیگر سماجی سیاسی سوشل ورکر اور تاجروں اور عام عوام پر مشتمل مشترکہ پلیٹ فارم سے کیا ہے۔ مولانا کا لہجہ اس تحریک میں کافی تلخ ہے وہ اپنی تقاریر میں اکثر ملکی اداروں کو زیر بحث لاتے ہیں اور اْن پر کھڑی تنقید بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے گوادر کے حقوق کی بات دہرانے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ بلوچستان خاص کر گوادر میں سیکورٹی فورسز نے اتنی سارے چیک پوسٹیں قائم کی ہیں کہ اب جہاں سے بھی گزرو پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو ۔

انکا کہنا ہے کہ ہم اپنے گھر سے گوادر شہر دن میں چار سے پانچ مرتبہ آتے جاتے ہیں۔ ہمیں ہر بار ان چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے اپنا تعارف کرانا پڑتا ہے ہر چوکی پر روزانہ ہم سے چار پانچ مرتبہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو۔ انکا شکوہ ہے کہ ہم مقامی ہوتے ہوئے بھی دن میں چار پانچ مرتبہ چوکیوں پر اپنا تعارف کراتے ہیں اور اسکے علاوہ بازار اور گردنواح میں دوران چیکنگ الگ سے ہمارا تعارف اور چیکنگ ہوتا رہتا ہے یہ ہماری تذلیل نہیں ہے تو کیا ہے ؟ حتیٰ کہ سکول ہسپتال اور سمندر جاتے ہوئے تب بھی ہمیں ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اکثر یہی سوال ہم سے ہوتا ہے جب کہ ہم یہاں کے مقامی ہیں اور یہ علاقہ یہ سمندر یہ شہر ہمارا ہے ہم صدیوں سے اس کی حفاظت کرتے آئے ہیں ہمیں یہاں کی چرند پرند پہاڑ زمین سب جانتے ہیں، لیکن راولپنڈی، لاہور، سیالکوٹ سمیت غیر علاقوں سے آئے ہوئے ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آاور کہاں جارہے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمان کا یہ لہجہ قابل داد ہے کہ پہلے وہ اپنا تعارف کرائیں کہ وہ کون ہیں جو پوچھتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں کہاں جارہے ہیں کیوں آئے ہیں۔ مولانا اسی بات کولے کر اور گوادر کے دیگر بنیادی مسائل پانی بجلی روزگار صحت سمیت دیگر مسائل کو لیکر ان دنوں کافی مقبول ہورہے ہیں۔ گوادر کے مقامی لوگ مولانا کے اس موقف اور بیانیے کو بے حد پسند کرتے ہیں اور وہ مولانا کو مسائل سے نجات کا ذریعہ اور اپنا مسیحا سمجھ کر خوب سپورٹ کررہے ہیں۔ اسکی واضح مثال حالیہ دنوں مولانا ہدایت الرحمن کا گوادر جلسہ ہے جس میں عوام کی ہزاروں کی تعداد میں شرکت ثابت کرتا ہے کہ وہاں کے لوگ مولانا ہدایت الرحمن کے بیانیے کو پسند کرتے ہیں اور انکی تحریک کی دل کھول کر حمایت کرتے ہیں۔

ایک جانب گوادر کے لوگ کئی مسائل تلے دبے ہوئے ہیں دوسری جانب ان پر سی پیک ایک خطرے کے طور پر مسلط ہے۔ سی پیک ،گوادر پورٹ بننے کے بعد گوادر اپنا وجود اور تشخص کو کھونے جارہا ہے اسی تشویش میں گوادر کے لوگ مبتلا ہیں۔اور دوسری جانب سیکورٹی اداروں کی مختلف چیک پوسٹوں پر لوگوں کی تذلیل نے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے۔ اس لئے یہاں کے لوگ کافی تنگ آچکے ہیں وہ سب اچھی قیادت کے منتظر تھے انہیں اپنا مْدعا بیان کرنے اور لڑنے کیلئے قیادت درکار تھی۔ اسی عوامی مْدّعا کو لیکر جب مولانا ہدایت الرحمن بلوچ میدان عمل میں آیا تو سارا گوادر بلکہ پورا مکران اْمنڈ آیا اور مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کے پیچھے لبیک کہتا ہوا نکلا ۔اب مولانا ہدایت الرحمن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کے اعتماد کو لیکر انہیں ان مسائل سے نجات دینے کیلئے مستقل مزاجی کے ساتھ اور ثابت قدم رہ کر اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اسلام آباد، کوئٹہ سیکریٹریٹ میں بیٹھے گْنگے بہرے حکمرانوں اور دیگر زور آور قوتوں کو دکھائے اور سْنائے کہ گوادر اٹھ کھڑا ہے اور اپنے مسائل حل کرنے کیلئے جدوجہد میں ہے۔ انہیں باور کرانے کیلئے شدت سے جدوجہد کرنا ضروری ہے اپنے جدوجہد کو وسعت دیکر مزید اس میں تیزی لائے تاکہ پسے ہوئے طبقات مسائل سے نجات حاصل کریں۔