پاکستان کے قیام کو 74 سال گزر گئے اس عرصہ میں جو بھی حکمران آیا وہ قوم کو ترقی و خوشحالی کے سبز باغ دکھا کر کے چلا گیا۔حکمران طبقے کی حالت کو بدل گئی لیکن قوم کی حالت مزید خراب ہوئی۔ آج سے 74 سال پہلے متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی ایک ریگستان کا منظر پیش کرتا تھا مگر وہاں کے حکمرانوں نے ایک میگا ترقیاتی پلان بنا کر اس پر عمل کرکے دبئی کو پوری دنیا کے لوگوں کا مسکن بنا دیا۔آج دنیا کے بعض ترقی یافتی ممالک میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں ہیں جو دبئی میں موجود ہیں۔
عرب حکمرانوں نے ایک ریگستان کے وسیع سمندر پر بلند وبانگ عمارتیں جو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں تعمیر کر دیں ۔ دُنیا کے بلند ترین ہوٹل برج خلیفہ جیسے بلند ترین ماڈرن ہوٹل تعمیر کر دیئے ۔ سڑکیں شیشے کی طرح صاف، گندگی ، غلاظت کا نام نہیں ۔جدید ترین ماڈرن میٹروٹرینوں کا جال بچھا دیا۔ دبئی میں پاکستانی طرز کی نہ تو سیاست چلتی ہے نہ پاکستانی تجربے ہوتے ہیں۔ یعنی دبئی میں کسی بھی جگہ چار بندے کھڑے ہو کر کسی بھی قسم کی کوئی سیاسی غیر سیاسی بات نہیں کر سکتے۔ دبئی میں رات کے وقت نائٹ کلبز چلتے ہیں۔ غیر ملکی ہر قسم کی انجوائے منٹ سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن ان ہوٹلز میں نماز کے اوقات کار میں نائٹ کلبز بند ہوتے ہیں۔ نماز کے بعد پھر کھل جاتے ہیں۔ کوئی پابندی نہیں کوئی تنقید نہیں۔ دبئی میں لوگ پرسکون ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔جبکہ پاکستان میں نااہل حکمرانوں کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہے۔
حالا نکہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے پاک سر زمین کو عطا کی ہیں اگر ان سے استفادہ کیا جاتا تو آج پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ترین ممالک کی فہرست میں ہوتا۔یہاں اگر ہم صرف بلوچستان کی بات کریں تو وہ قدرتی دولت سے مالا مال ہے ۔بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ پتھریلہ ہے ۔ جعفر ایکسپریس ریلوے لائن پر دوڑتی ہوئی جیسے ہی بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو چٹیل میدان دوردراز کہیں کہیں بھولے بھٹکے درخت نظر آجاتے ہیں ۔ اب ان سیاستدانوں سے سوال ہے کہ 74سالوں میں بلوچستان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ صرف بلند و بانگ نعرے ، دعوے اور کچھ نہیں۔
اگر دبئی میں ریگستانوں میں تعمیر و ترقی ، خوشحالی کی ہوائیں چل سکتی ہیں تو پھر بلوچستان میں کیوں نہیں؟کیا بلوچستان جیکب آباد سے سبی تک اور پھر کوئٹہ میں غیر ملکی امداد سے امریکہ ، فرانس جرمنی ، برطانیہ، روس، چائنا، جاپان، اٹلی سے مدد نہیں لی جاسکتی۔ جیسا کہ عرب حکمرانوں نے لی اور پرانے قدیم دوبئی کو ماڈرن دبئی میں بدل دیا۔ آج اگر یہی حکمران مخلص ، ایماندار، محب وطن بن جائیں تو کیا نہیں ہوسکتا۔ بلوچستان جو خشک پڑا ہے پتھریلی زمین کھود کر یہاں بلند و بانگ عمارتیں بن سکتی ہیں۔ یہاں جدید سہولتوں کی مدد سے زمین سے پانی نکالا جاسکتا ہے۔ پانی کے ساتھ تیل اور سونا بھی نکل سکتا ہے۔ کوئلہ تو نکل رہا ہے۔
قیمتی پتھر نکل رہے ہیں اگر نیت نیک کر لی جائے تو تیل اور سونا بھی نکل سکتا ہے۔ بلوچستان کی وسیع و عریض خشک بنجر زمین کو پانی کی مدد سے زرخیز مٹی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کوئٹہ کا پانی بہت مفید ، ہاضمے دار ہے جب یہاں دبئی طرز کا انقلاب ، زرخیز انقلاب لایا جائے گا تو خود بخود زرخیزی آئے گی۔ فصلیں نکلیں گی ہر طرف خوشحالی ، تعمیرات ترقی کا دور ہوگا۔ مقامی لوگ خوشحال ہوں گے ۔ امن قائم ہوگا۔ روزگار کی فراہمی ہو گی۔ ہرطرف خوشحالی چھا جائے گی۔ بیماریاں اور خاص کر مصنوعی بیماریاں جو حکومت نے کرونا کے نام پر کبھی ڈینگی کے نام پر کبھی ایڈز کے نام پر ملک و قوم پر مسلط کر رکھی ہیں سب خود بخود ختم ہوجائیں گی اور مستقبل قریب میں بلوچستان خوشحال ترین صوبہ بن جائے گا۔
ریلوے کی مدد سے ٹورازم کو فروغ ملے گا اور ٹیرورزم ختم ہوگا۔ پاکستان اور عوام مقامی لوگ مل کر پاک مسلح افواج کے تعاون سے FWOکے تعاون سے سب نئی تعمیر و ترقی خوشحالی کی نئی راہوں پر گامزن ہو جائیں گے۔ سوال پھر وہی ہے کون ہے کہ جو پہل کرے گا؟ بھئی کوئی تو ہے کوئی تو ہوگا ہم میں سے آپ میں سے کوئی تو نکلے نیک کام میں دیر مت کرے۔ بلوچستان کو احساس محرومی سے نکالیں یہاں خوشحالی پروگرام شروع کریں یہ بات PTIکے بس میں نہیں، آنے والے ذرا مخلص ہو کر سوچیں کہ جس طرح دبئی ایک مکمل ریگستان تھا آج دبئی دُنیا کے ماڈرن ممالک سے کہیں آگے نکل چکا ہے امریکہ برطانیہ، چائنہ ، جرمنی سے بلند ترین عمارتیں ماڈرن میٹرو ٹرینیں اور دیگر ہوائی سفر ، طبی سہولتیں لوگوں کے لیے روزگار ہر طرف خوشحالی تعمیرات پُرامن دبئی۔
بالکل اسی طرز کا ہم چاہتے ہیں مکمل پاکستان اور خصوصا ً بلوچستان یوں آئے گا استحکام تعمیرات سے بلوچستان کی سرزمین جو مکمل بنجر پتھریلی ہے۔ خلوصِ نیت سے سب لوگ مل کر جدو جہد کریں۔ بلوچستان میں دبئی طرز کا سبز انقلاب لایا جائے۔ ایسے انقلابی پروگراموں سے یقینا بلوچستان میں نئی تعمیرات اور لوگوں کی خوشحالی کے راستے کھلیں گے۔ نئے روزگار ملیں گے۔ بلوچستان میں دور دراز علاقوں تک سرسبز کھیت کھلیان، درختوں کے جھنڈ نظر آئیں گے۔ پہاڑوں پر ہریالی آئے گی اور تازے ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے ابھریں گے ہر طرف جنت کا سماں ہوگا ۔ سمجھ سے بالاتر ہے جو کوئی بھی حکمران آیا بلوچستان میں سبز گیم چلا کر چلا گیا۔
میں چند الفاظ میں ذرا بلوچ سرداروں پہ روشنی ڈالوں گا اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان سے سرداری نظام ختم کر دیا تھا لیکن آج بھی بلوچستان میں سراری نظام کے اثرات اور منحوس سائے موجود ہیں ان سرداروں کی اپنی عالیشان بلٹ پروف گاڑیاں ، عالی شان بنگلے ، بیرون ممالک اور یہاں بلوچستان میں وہی سرداری نظام جیسی شان و شوکت مسلسل موجود ہے ۔ دوسری طرف ذرا اس سرداری نظام کے سائے تلے دیکھیں تو آپ کو عام لوگوں میں بھوک ننگ، بیروزگاری غربت کے نہ ختم ہونے والے سائے نظرآئیں گے نہ ان بیچاروں کو وقت پر طبی امداد ملتی ہے۔
مثلاً بوستان، گلستان، کوئٹہ سے چمن جاتے ہوئے آپ بخوبی ریل گاڑی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اگر بوستان ، گلستان سے کسی بھی عورت کا اگر زچہ بچہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے مشکل ترین پہاڑی راستوں کوعبور کر کے کوئٹہ ہسپتال میں آنا پڑتا ہے بعض اوقات بیچاری مریضہ بچہ سمیت تڑپ تڑپ کر انتقال کر جاتی ہے یقین جانئے بوستان گلستان میں ایک بھی ہسپتال زچہ بچہ سنٹر اور لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے۔ اور نہ ہی پڑھنے کے لیے اسکول کالج کچھ بھی نہیں ،یہاں کے غریب لوگ فریاد کریں تو کس کے آگے؟ بلوچ سردار تو اپنی ٹھاٹھ باٹھ ، شان و شوکت اور دولت کے نشے میں سرداری نظام کے نشے میں دھت ہیں۔ نہ ہی سابقہ حکومتوں نے کچھ کیا اور نہ ہی موجودہ PTIکی حکومت جو حقیقی معنوں میں عوام دُشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ ان سے قطعی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔
مقتدر قوتوں سے اپیل ہے کہ ملک و قوم کی گرتی ہوئی معاشی معاشرتی اقتصادی روایات کو تحفظ دیں خاص کر بلوچستان ہرنائی سیکشن پر بھرپور توجہ دیں ۔ چمن سائیڈ سے اور پشاور لنڈی کوتل سائیڈ سے کابل تک اور قندھار تک ریلوے لائن بچھانے کی غرض سے متعلقہ ممالک سے مدد لیں اور بسم اللہ پڑھ کر کام شروع کردیں۔ کوئٹہ چمن بوستان گلستان ہرنائی ژوب سبی یعنی سندھ سے جب جھٹ پٹ کے بعد بلوچستان شروع ہوتا ہے تو ہمیں ہزاروں مربع میل میں بنجر زمین چٹیل میدان نظر آنے لگتے ہیں۔ جب بلوچستان میں پانی کی قلت دور ہونے سے لاکھوں مربع میل اراضی جو بنجر پڑی ہے۔ زرخیز سرسبز ہوجائے گی۔ پہاڑوں پہ درخت پھول پودے نکل آئیں گے اور یوں نئے جانور پرندے یہاں اپنے گھونسلے بنانا شروع کریں گے ۔
لاتعداد درختوں سے کوئٹہ کے پہاڑ جو بلند ترین ہیں سدا بہار برف سے ڈھکے رہیں گے یوں آئے گی پاک مسلح افواج کے تعاون سے اور دنیائے ممالک کے تعاون سے خوشحالی ، نئی تعمیر و ترقی لوگوں کو روزگار کی فراہمی ، مفت طبی سہولتیں، مفت تعلیم، اورمقامی بلوچوں کے لیے بہت سے ملازمتوں کے مواقع۔ غربت ، بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ بلوچستان دیگر صوبوں کی طرح خوشحال، پرامن صوبہ کہلائے گا۔ صرف جعفر ایکسپریس وہ بھی ڈائننگ کار کے بغیر چل رہی ہے۔ اکبر ایکسپریس جو لاہور پنڈی شیخوپورہ، فیصل آباد کے رستے کوئٹہ کامیابی سے چلی رہی تھی بند ہے۔ اسے جلد از جلد چلائیں اور کھانے کی گاڑی اے سی لوئر، اے سی سلیپرکے ڈبے ہمراہ بحال کریں۔
31،32نان اسٹاپ کوئٹہ سے کراچی براستہ روہڑی من پسند ٹرین تھی جو ریلوے کو ہفتے میں کروڑوں روپے منافع دے رہی تھی اسے جلد از جلد بحال کریں اور اسی روٹ پر چلائیں یہ کوئٹہ اور کراچی کے ہزاروں تاجروں کا مشترکہ مطالبہ ہے یہ ایک قسم کی ٹریڈ ٹرین ہے جو ماضی میں نہایت کامیاب اور یقینا آج بھی نہایت کامیاب ہو گی۔ دیگر میں بولان میل جو کوئٹہ سے سبی سے جیکب آباد حبیب کوٹ، لاڑکانہ ، دادو، سہون شریف صاحب کوٹری اور کراچی یہ ٹرین بھی ماضی میں نہایت کامیاب تھی اور یقینا آج بھی ہے اسے برانچ لائن پر چلائیں۔
کیونکہ کوئٹہ اور کراچی کے لوگ آئے دن بسوں، ویگنوں کے تنگ ترین ذلیل ترین سفر سے تنگ آچکے ہیں آئے روز بسوں ویگنوں کے کرائے بڑھادیئے جاتے ہیں لوگ بسوں ،ویگنوں میں بھیڑ بکریوں اور مرغیوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ لہٰذا فی الحال کوئٹہ اور کراچی کے مقامی لوگ تاجر برادری حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ ریل گاڑیاں جو تاجروں اور عام لوگوں کے حق میں مفید ترین ہیں جلد از جلد بحال کی جائیں یقینابلوچستان ان بند ریل گاڑیوں کی جلد ازجلد بحالی کے بعد خوشحال تعمیر و ترقی کی راہوں پہ گامزن ہو گا۔ بلوچستان کی خوشحالی تعمیر و ترقی کے ساتھ مضبوط پرامن پاکستان بھی ہوگا۔