|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2021

بلوچستان میں آئے روز اپنی نوعیت سے بڑھ کر ایک نیا سانحہ رونما ہوتا ہے۔ ہر نئی دن بلوچستان کیلئے غم سے بھرپور گزرتا ہے۔ آئے روز بزرگ، جوان، بچے اور خواتین کو موت کی منہ میں دھکیلا جاتا ہے۔ ہر دن پرآشوب خون سے لت پت ہوتا ہے۔ موت کا رقص بلوچستان کے شہر وں،گلی کوچوں اور دیہاتوں میں جاری ہے۔ اندھی سیدھی گولیوں اور معلوم نامعلوم افراد کے ہاتھوں روزانہ نہتے معصوم بچے خواتین نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ اہل بلوچستان اپنے تحفظ اور بقاء کیلئے چیخ چیخ کر پکار رہے ہوتے ہیں مگر سنگ دل حکمرانوں کے دل میں ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ حکمران اپنے مفادات اور مراعات کی جنگ میں اس قدر مست و مگن ہیں کہ انہیں اب لاشوں سے بھی بلیک میلنگ کی بو آتی ہے۔

آئے روز کے قتل و غارت سے بلوچستان والے اب لاشیں دفنا دفنا کر تھک چکے ہیں، لواحقین اپنے مقتولین کی لاشیں بجائے دفنانے کے سڑکوں پر رکھ کر انصاف کے حصول کیلئے مہینوں مہنیوں تک دھرنا دے بیٹھتے ہیں۔ مگر انصاف کا ترازو عدل کیلئے ذرا بھی سنجیدہ نہیں ہوتا۔

بلوچستان کے لوگ پرامن طریقے سے انصاف کے حصول پر یقین رکھتے ہیں۔ آئے روز بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ کبھی اپنے پیاروں کی بازیابی تو کبھی اپنے قتل ہونے والے مقتولین کی لاشیں اٹھا کر بلوچستان کے دارالحکومت شہر اقتدار کا رخ کرتے ہیں اسی اْمید پر کہ انہیں انصاف مل سکے گا۔ وہ انصاف کی اْمید بھی ریاست اور ریاستی اداروں سے ہی کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین اور قانون نے تمام قوموں کو جینے کا یکساں حق دیا ہے۔ انسانیت ہی آئین کی روح میں سب سے زیادہ مقدم ہے۔ انکا مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں انصاف ریاست کے آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دیا جائے۔لیکن بدقسمتی سے حکمران اور اہل اقتدار اہل بلوچستان کو بلیک میلر غداری جیسے القابات سے نواز کر مزید انکے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ آئے روز حکمران اور ذور آور قوتیں آئین و قانون کو روند کر بلوچستان کے جمہوری آواز کو دباتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سے طاقت کے زور پر بلوچستان کی ہر اْس آواز کو دبانے کی کوشش کی جو غریبوں کے حق اور مظلوموں کی بقاء کیلئے اٹھتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ بلوچستان میں نفرت بڑھتی جارہی ہے اگر قانونی و آئینی حق اہل بلوچستان سے چھین لیا جاتا ہے تو ظاہراً ایک انسرجنسی اور عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

حکمران دھوکہ فریب کے سواء کچھ اور نہیں کررہے ہیں اگر وہ دھوکہ نہیں دیتے تو ایک رامز خلیل کی لاش اپنے مقام تک ابھی تک پہنچ ہی نہیں پاتا کہ دوسرے نہتے معصوموں کی لاش تربت سے براستہ کوئٹہ انصاف کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔اگر حکمران ذرا بھی بلوچستان کیلئے درد رکھتے تو وہ کسی ایک ذمہ دار کو قانون کے کٹہرے میں ضرور لے آتے مگر ممکن ہی نہیں کوئی مجرم قانون کے گرفت میں آیا ہو ۔اس طرح کی نالائقیوں کے بعد اہل بلوچستان ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جان بوجھ کر بلوچستان کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔ ایک منصوبے کے تحت بلوچستان میں خونی کھیل جاری ہے۔

بلوچستان کے عوامی حلقے ریاست کے اسی بات کو لیکر چوک چوراہوں پر گلہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنائیت کا احساس نہیں دلایا جاتا، ہمیں یقین دلایا جائے کہ ہمیں اس ملک کا شہری اور باسی سمجھا جاتا ہے۔ دیگر صوبوں کی طرحبرابری کی بنیاد پر ہمارے ساتھ بھی رویہ رکھا جائے مگر اہل اقتدار اور کچھ ایسے لوگ جن کی روزی روٹی بلوچستان کے انسرجنسی سے وابستہ ہے وہ ہر بار بلوچ اور بلوچستان کی بات کو بغیر سمجھے ،بلوچستان کے مسئلے کو بغیرجانے بے جا الزام تراشیوں کا سہارا لیکر خود کو بھری الذمہ اور اہل بلوچستان کو قصوروار ٹھہرانے کی ضد پر ڈٹ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

اہل بلوچستان سمجھتے ہیں یہ جو کوئٹہ کے سڑکوں پر مکران سے لاشیں سراپا احتجاج ہیں یہ کسی بھی ایجنڈے کو لیکر نہیں آئے ہیں یہ وہ غریب کمزور لوگ ہیں جنکے پیروں میں چپل تک پٹے ہوئے ہیں یہ کسی بیرونی ایجنڈے یا ریاست دشمنی کی بات نہیں کرتے، آئینی و قانونی حق اپناتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرانے آئے ہیں۔ اسی احتجاج کے توسط سے وہ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مگر ایک کردار ایسا ہے جو ہمیشہ سے بلوچستان کے مسائل کو بجائے حل کرنے کے، غلط رنگ دیکر بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ آج بھی وہ قوتیں بچوں کے لواحقین کے احتجاج کو سنجیدہ لینے کے بجائے غلط رنگ دینے کی کوشش میں ہیں۔
لیکن احساس رکھنے والے تمام دل انکے احتجاج اور مطالبے کی انسانیت کے ناطے حمایت کرتے ہیں اخلاقی طور پر تمام اداروں سمیت حکمرانوں کو بلوچستان پر اب ترس آجانا چاہیئے کیونکہ اہل بلوچستان آج بھی اسی آس پر بیٹھے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمیں ادارے پاکستان کے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انصاف دیں۔ وہ انصاف انکے پیاروں کی بازیابی کی صورت میں ہو یا پھر انکے شہید ہونے والے مقتولین کی قاتلوں کو سزا دینے کی صورت میں ہو یا پھر بلوچستان کے جملہ مسائل حل اور بلوچستان کو حقوق دینے کی صورت میں ہو، ان تمام پر اہل بلوچستان حکمران اور دیگر ریاستی تمام اداروں سے انصاف کے منتظر ہیں۔