|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2021

پون صدی تک پہنچتے پہنچتے ہمارے اسٹیبلشمنٹ کی نفسیات میں یہ بات مسلم رہی کہ پاکستان کو اگر عوام کے ہاتھوں میں دیا جائے تو پتہ نہیں اس کاکوئی انجام ہوگا، یہی احساس سبب بن گیا ہے کہ عوام الناس یہی سمجھیں کہ اس ملک کے حال و مستقبل میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ مایوسی نے اپنے پیداوار بھی دئیے ہیں اور وہ ہیں آپس کی بد گمانی اور محکوموں کے درمیان رابطے کا فقدان۔جبکہ ارباب اختیار نے اپنی ضرورت کے تحت مراعات یا فتہ طبقہ پیدا کیا ہے اور یہ طبقہ اسٹیبلشمنٹ کا دوسرا چہرہ بھی ہے اوراس کو سہارا دینے والا بیسا کھی بھی ۔مراعات یافتہ طبقہ مافیائی حیثیت حاصل کرکے عوام کو استعمال بھی کرتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ اب ایک خاندان بن کر حاکمیت کے مرکزی اختیارات کو دست بدست ایک دوسرے کو عطا کرتے ہیں اور مراعات یافتہ طبقہ کے کندھوںکو استعمال کرکے کبھی کبھار اپنے چہرے ان کے ماسک کے اندر چھپاتے ہیں ۔الغرض پون صدی گزرگئی اورمعاملات ابھی تک عارضی حل پر چل رہے ہیں اور لگتا نہیں کہ آئندہ بھی کوئی دائمی حل نکلے گا۔ حبیب جالب نے کہا تھا کہ’’ یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے ‘‘ مگر اایسا نہیں یہاں پر پیر پگارہ مرحوم کی بات صادق آتی ہے ۔

پاکستان میں اس پون صدی میں بہت سی نسلیں بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ وہ پیدائشی محکوم و مقروض اور بے بس ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ جو اصلی حاکم ہے اس نے کبھی بھی آسانیاں پیدا نہیں کیں اورکبھی بھی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش نہیں کی ،انہوںنے ایسا کیوں کیا یا وہ ایسا کیوں کررہے ہیں شاید اس کا سبب ان کی تربیت اور ذہنی وابستگی ہے کیونکہ ایک صدی پہلے تیسری دنیا کے ممالک سے انگریز اور یورپی افراد تو چلے گئے مگر ان کے افکاربیورو کریسی کی مہربانیوں سے برسر اختیار رہے ۔ اور یہی ہیں وہ خاندان جو بمشکل عددی اعتبار میں زیادہ ہوجائے جبکہ غرباء اور محکومین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ اس مخصوص مافیا کے کارخانوں کو خون پسینہ دیتے ہیں مگر ان کے خون پسینہ کی کمائی مراعات یافتہ طبقہ کے جیب اور عشرت کدوں میں چلی جاتی ہے۔

تیسری دنیا کی مصیبت اور المیہ ایک جیسا ہے اور وہ ہے حاکم اور رعیت کے درمیان فاصلہ اور اجنبیت ،عوام الناس کمائے اور خواص الناس کھائیں اور وہ بھی یہاں نہیں ،ان کے کپڑوں کی سلائی بھی کسی یورپی ملک میں ہوتی ہے۔ ان حضرات کے ایک جوڑے کے پیسوں سے ایک کنبہ کو کپڑا پہنایا جا سکتا ہے مستزادیہ کہ ہمار ے سٹیبلشمنٹ اور ان کے زیر سایہ لوٹ مار مچانے والے مافیا کا نہ کوئی عقیدہ و ایمان ہے نہ کوئی ملک و وطن اور نہ کوئی خونی ‘ زبانی قومی نسبت یہ لوگ سب کچھ جمع کرکے اس انتظار میں ہیں کہ وہ بہت جلدی کسی خوشحال ملک میں جا کر گوشہ نشین ہوجائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو کون سمجھائے کہ تم لوگ کچھ اپنے ملک کا بھی سوچو‘

جس گائے ،بکری کے دودھ اور گوشت سے غذا حاصل کرتے ہو اسے زندہ رہنے کا حق دینے کے ساتھ اس کی روزی روٹی کا بھی خیال رکھو مگر ہمارے ناعاقبت اندیش اختیار دار ان نے اپنی قوم کے ساتھ صاحب جیسا طرز عمل اپنایا ہے جو اپنے گدھے کو چارہ پانی نہ دیتا اور اگر دیتا تو کبھی کبھی انتہائی کم۔ اس کے حلقہ یا راں اس سے اس حیوان کے بارے میں عجیب سلوک کا سبب پوچھتے تو وہ جواب میں ارشاد فرماتا کہ یہ اس لیے کرتا ہوں کہ گدھے کی عادت بن جائے اور وہ کھائے پیے بغیر زندہ رہنے لگے ۔ ایک دن خردار صاحب سے اس کے ایک دوست نے گدھے کے بارے میں پوچھا اور یہ بھی کہ اب گدھا کھائے پیے بغیر کیسا ہے ؟ تو مالک خر نے فرمایا کہ بہت اچھا جارہا تھا مگر ۔۔۔۔ ؟ تو دوست نے پوچھا مگر کیا ہوا؟ تو اس نے کہا کہ گدھا کھائے پیے بغیر عادت کررہا تھا مگر مر گیا ۔اگر دیکھا جائے جو قوم اور پاکستانی قومیت کی تشکیل اور شناخت سے وہ بعینہ اس کرب سے گزر رہا ہے پاکستان میں اتنے اضداد جمع کیے گئے ہیں کہ ان سے نکلنا معجزہ ہوگا ۔

کہنے کو تو بلوچ مظلوم ہیں اور بلوچ قوم کی مظلومیت کے دلائل تو روشن دن کی طرح عیاںہیں ،اب اگر سندھی سے پوچھیں تو وہ بھی مظلومی کے وہ داستان سنائے کہ نا طبقہ سربگر یبان ہوجائے۔ پٹھان اور پختون نے تو اپنے آپ کو ہر مظلوم سے زیادہ مظلوم ثابت کرنے کے قابل ہیں۔ اگر پاکستان زمینی تشکیل کردہ جغرافیائی حدود کا نام ہے تو موجودہ حالت میںمملکت خداداد کی چوالیس فیصد رقبہ بلوچستان پر مشتمل ہے ، اگر پنجاب کے بلوچ علاقے شامل کئے جائیں تو آسانی کے ساتھ پچاس فیصد ہوجائے گی ۔اب زمینی حقائق کو سامنے لا کر ترقیاتی تناسب کو دیکھیں تو بلوچستان اس ملک کے کسی بھی حصہ کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے۔ دوسری بات ملک کا اپنے وحدتوں سے فوائد سمیٹنے کی ہو تو مرکزی حکومت کو بلوچستان سے روح اور زندگی مل رہی ہے۔

کارکانوں کے ایندھن اور دیگر قیمتی ذرائع بلوچستان سب سے زیادہ دے رہا ہے۔ قوموں کی شناخت اور ان کی ذیلی ثقافت اور تہذیب کی باری آئے تو بلوچی ادب وزبان حساب میں نہیں آتے جبکہ یہ زبان دنیا کے سو بڑے زبانوں میں حساب ہوتا ہے، تو دیکھیں اس ملک میں کتنے بلوچی ٹی وی اور ریڈیو چینل رہے ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں کتنے اخبار و جرائد چل رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کشیدہ ماحول کب تک قابل برداشت رہے گا اب جبکہ زمانہ معلومات تک رسائی کا ہے اور اس سے حربی اور معلومات کی فراوانی اور آسانی پیدا ہوئے ہیں کہ چاہے جتنا اور جیسا ہو معلومات اور صحیح خبر پھیل جاتی ہے اور جھوٹ کا تعاقب بہت آسان ہوگیا ہے ۔

حالات سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہمارے ارباب اختیار تو کہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر حقائق بتاتے ہیں کہ سب کچھ تباہ ہے۔ پھر دیکھیں کب تک ایک ملبہ کو ہم محکم قلعہ فرض کرتے رہیں گے؟