|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2021

زندگی میں بعض کالم ، مضامین لکھنے سے قبل جذباتی کیفیت بے قابو ہوئی، تاہم یہ مواقع بہت کم پیش آئے۔ جب آپ کے جذبات آپے سے باہر ہوں گے تو غلطیاں ،کوتاہیاں ہونے کے مواقع امڈ آتے ہیں۔ تاہم صورت حال ایسی بھی پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان جذباتی کیفیت میں اپنی زندگی کی سنہری یادوں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی کیفیت میںبعض خوبصورت شخصیات کی پیارو محبت کی عکاسی شاندارانداز میں کرجاتا ہے۔ بہر حال جونہی حقیقی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت کی خبر آنکھوں کے سامنے آئی، سارے اوسان خطا ہوگئے۔ محسن پاکستان کے ساتھ حقیقی کا لفظ اضافہ اپنے پورے ادراک سے کررہا ہوں۔ اگر ان کو محسن ملت بھی کہا جائے تو صادر آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم و ملت کے دل و دماغ پر حکمرانی کرنے والے محسن ہیں۔

اگرچہ ان کو ملک کی پارلیمنٹ ، عدالت ، یا دیگر اداروں نے ایسا اعزاز نہیں دیا۔ اور نہ ہی دنیا کے ایسے فورمز نے ان کو ایسے اعزاز ات سے نوازا۔ تاہم متنازع ترین شخصیات کو بڑے بڑے فورمز نے بڑے بڑے اعزازات سے نوازا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو ان فورمز کے اعزاز کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ان کے والدین نے پاکستان کے لیے ہجرت کسی جغرافیائی نظریے سے نہیں کی، ہجرت کا مقصد صرف اسلامی نظام ، قدریں تھا ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ایسا خطہ میسر آئے گا جہاں پر اللہ کی حکمرانی ہوگی ، جہاں پر اللہ کا نظام ہوگا۔ جہاں پر خلافت راشدہ کا عملی نمونہ دیکھنے کو ملے گا۔ ان کے والدین نے جس نیت سے ہجرت کی ان کو اللہ تعالیٰ نے ان شا اللہ ضرور قبول کیا ہوگا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنی آنکھ اس خاندان میں کھولی، جس کے خون میں اسلامی رنگ کی لہریں موجیں مارا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1938کو بھوپال میں پیدا ہووے۔ کراچی میں سائنس مضامین میں گریجویشن کی، بعد ازاں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ہالینڈ سے ایم ایس سی کی ڈگری ملی۔ یونیورسٹی کے عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈبلیو جی برگز نے انہیں اپنا اسٹنٹ بنا لیا۔ 1972میں انہوں نے یونیورسٹی آف لیون بیلجیم سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے بین الاقوامی جرائد میں 78سے زیادہ سینٹیفک پیپر شائع کروائے۔ اورووپیکس آف فزیکل میٹلرجی نامی کتاب تحریر کی ، یہ کتاب 1972میں ایلزے ویر ہالینڈ نے شائع کی تھی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے فزیکل ڈائنا مائیکل ریسرچ آف ڈی اور ہالینڈ میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کیا جو عالمی شہرت کی ایک فرم وی ایم ایف کا ذیلی ادارہ ہے۔ انہوں نے بعد ازاں یورینوکوانرجمنٹ پلانٹ ہالینڈ میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ حکومت ہالینڈ ہی کا ایک مشترکہ ادارہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دوسال تک ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ گروپ آف یورپین اکنامک کونسل بیلجیم میں یونین آف ڈچ انڈسٹری کی بھی نمائندگی کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگرچہ ہالینڈ میں مختلف ریسرچ سنٹروں میں کام کرتے رہے لیکن ان کے ذہن میں پاکستانیت اور قومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ جب 1971میں بھارت نے سازش کرکے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کیا اور پاکستان پر اپنی دھاک بیٹھانے کے لیے 1974میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا ، جس کے بعد وہ سب بے چین ہووے۔ اور پرکشش ملازمت کو خیر آباد کہنے کا فیصلہ کرلیا ، پاکستان میں آکر اس کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے کام کا آغاز کیا۔ بلاشبہ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی بھرپور معاونت کی ۔ 1976میں بے سروسامانی کے باوجود نیو کلیئر ریسرچ لیبارٹری تعمیرکرنے میں مصروف ہوگئے۔ دن رات محنت کی ، وہ کہا کرتے تھے کہ ان کو ایک شاندار ٹیم میسر آئی ، یہی وجہ ہے کہ ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں پاکستان کا نام عالمی ایٹمی نقشے پر لانے میں کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کے علاوہ برطانیہ ، کنیڈا اور جاپان کی ایک درجن کے قریب سائنسی اور انجینرنگ اداروں کے بھی رکن رہے۔ ان کی خدمات پر 14اگست 1989کو ہلال امتیاز کا اعزاز بھی دیا گیاجو 23مارچ 1990کو صدر پاکستان نے دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں جب اس میدان میں مصروف کار تھے تو سابق صدر ضیا الحق نے بھی ان پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔ بہر حال 28مئی 1998کی ایک دوپہر کو چاغی کا پہاڑی ایٹمی دھماکے سے لرز اٹھا۔ اس پر پوری امت مسلمہ نے شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ بلاشبہ پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر بنا دیا گیا۔ ۔ڈاکٹر خان صاحب سے راقم کی پہلی بار بات ٹیلی فون پر ان دنوں ہوئی جب اس ملک میں ایک آمر کی حکمرانی تھی، جب اس ہیرو کی عزت نفس کو دائو پر لگا رکھا تھا، جب ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگا رکھی تھیں، جب خان صاحب کے جذبات مجروح کیے جارہے تھے۔

جب ٹیلی فون کررہا تھا ذہن میں آرہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب سے جو بات چیت ہورہی ہے وہ ضرور کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہورہی ہے تاہم وہ کھل کر بات کررہے تھے، جب ان سے بات ہوا کرتی تھی ، ان کی جذباتی کیفیت میں قوم و ملک کے درد کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ سے اظہار یکجہتی بھرپور انداز میں جھلکتی تھی۔ ان کی شخصیت بارے تین چار کالم رکھے ، ان میں سے ایک کالم کے بارے میں ڈاکٹر خان صاحب کا ذکر کرنا میرے لیے ایک اعزازتھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بلمشافہ ملاقات کا جنون ان دنوں بھی رہا جب وہ اپنے گھر پر نظر بند تھے۔ ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ اتنا آسان نہ تھا۔راقم ان کی رہائش گاہ پر پہلی بار گیا۔ اس سے قبل گمان کررہا تھا کہ وہ ایک بڑے بنگلے میں رہائش پذیر ہوں گے، انداز رہائش شان و شوکت کا ہوگا ، کیونکہ اس ملک میں وہ لوگ جو بظاہر عوامی نمائندگان ہیں، خادم ہیں، خدمت گزار ہیں، ان کا رہنا سہنا ، لش پش والا ہوا کرتا ہے، ان کے بنائو سنگھار میں مختلف رنگ بھرے ہوتے ہیں ، حالانکہ قد کاٹھ کے لحاظ سے سارے کے سارے لوگ بونے ہیں۔ بہر حال ان کی رہائش گاہ پر نظر پڑی تو ایسے لگا کہ یہ گھر ایک عام پاکستانی جس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے ، کی رہائش ہے۔ غلط فہمی کا شکار ہوا تھا کہ یہ محسن پاکستان کا گھر نہیں ہوسکتا۔

ان کی زندگی میں کتنی سادگی تھی ، ڈاکٹر صاحب کا شمار دنیا کے مقبول ترین سائنس دانوں میں تھا،ان کا شمار ان سائنسدانوں میں ہوا ، جنہوں نے انتہائی کم وسائل میں شاندار گول اچیو کیے۔ جنہوں نے اپنی زندگی کی ضروریات کو بھی انتہائی محدود رکھا ۔ جنہوں نے ایک نظریے پر کام کیا اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رضاء کو ملحوظ خاطر رکھا۔ ان محرکات کی عکاسی نہ صرف ان کی بات چیت میں جھلکتی ، بلکہ ان کا کردار ، ان کی تحریریں ، ان کا بیان چیخ چیخ کر بتا رہا ہوتا۔ وہ نظریہ پاکستان کے سب سے بڑئے ہامی تھے ، اگر یہ غلط کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مفکر پاکستان کے بعد وہ سب سے بڑے مفکر، پختہ نظریے کے ہامی ہوئے۔ محسن پاکستان اقرباء پروری ، کرپشن کے سخت خلاف تھے، جس کا اظہار وہ اپنی تحریروں کے ذریعے بے دریغ اندا ز میں کرتے ۔ ان کے قلم کی نوک پر پاکستان کے طاقت ور سیاست دانوں کی کرپشن کا نقشہ ، شاندار انداز میں کھینچتا ہوا نظر آیا۔ وہ بے لاگ تنقید کرتے ، یہی وجہ تھی کہ بعض بڑے بڑے سیاست دان اپنے دلوں میں ڈاکٹر قدیر خان کے بارے میں بغض رکھتے اور خوب کڑھتے ،یہ وجہ ہوسکتاہے کہ ڈاکٹر خان کو عوامی مطالبہ کے باوجود صدر پاکستان کے منصب پر فائز نہ کیا گیا۔ جماعت اسلامی اس مطالبہ کی بڑی ہامی رہی۔

جماعت اسلامی کے سابق امراء قاضی حسین احمد، سید منور حسن، اور موجود امیر سراج الحق سمیت دیگر مذہبی سکالرز، مذہبی رہنما خاطر خواہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ قاضی حسین احمد نے ان سے ان دنوں خصوصی ملاقاتیں کی جب خان صاحب پر امریکہ کے مطالبے پر جکڑ بندیاں کی جارہی تھیں۔ یہ عمل انتہائی افسوسناک تھا کہ ڈاکٹر خان کو سکرین پر ایسے بیان کے لیے لایا گیا جو ان کی طبعیت و تربیت ، کردارکے منافی تھا۔ وہ اس بیان پر سخت پریشان تھے اور اس کا اظہار انہوں نے مختلف انداز میں کیا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے بارے میں یہ معروف ہوا کہ ان کو دیگر شہریوں کی طرح کہیں امریکہ کے حوالے نہ کردیا جائے، بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں پر امریکہ کا شدید دبائو تھا اور انہو ں نے امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے تھے ۔ ویسے ہمیشہ تمام حکمرانوں نے امریکہ کی غلامی کی زنجیروں کا طوق پہنے رکھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بڑے سائنسدان کے ساتھ مفکر اسلام تھے ، ان کی تحریروں میں قرآن و حدیث کے مطالعہ کی جھلک نظر آتی ، وہ اسلامی تاریخ سے بھی خوب واقف تھے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر خان اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے ، ان کے اندر خود اعتمادی، خودداری ، غیرت وحمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خان نہ صرف پنجگانہ نماز کے پابند تھے ، بلکہ تہجد گزار تھے۔ وہ اعلیٰ درجے کے صوفی تھے، وہ طلباء طالبات سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے ، وہ یتامی کے سرپرست بھی بنے رہے۔ وہ الخدمت فائونڈیشن یتامی چیپٹر کی سرپرستی کرتے رہے۔ انہی کی خواہش پر آغوش جیسا ادارہ بنایا گیا ، جہاں پر ہزاروں یتیم بچے ،تعلیم و تربیت سے آراستہ ہورہے ہیں۔

راقم نے ڈاکٹر خان صاحب کو بہاولپور آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی تھی ، لیکن حالات اس طرح کے تھے کہ کسی بھی سرکاری تعلیمی ادارے کا سربراہ ان کی مہمان نوازی کے لیے راضی نہ ہوا۔ ان دنوں یونیورسٹی میں کانووکیشن کا انعقاد بھی ہونا تھا ، راقم نے اس وقت کے اپنے دوست وائس چانسلر سے گزارش کی تھی۔ لیکن وہ بے بس نظر آئے ، حقیقت میں ڈاکٹر خان صاحب نوجوانوں کے درمیان رہ کر خوش رہتے اور ان کو پیغام دیا کرتے کہ وہ اس قوم ملت عظیم سرمایا ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان نظریہ پاکستان کے ہامی و محافظ رہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی غائبانہ نمازجنازہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بہاولپور میں ادا کی، اس موقع پر انہوں نے ایک عظیم مسلم سائنسدان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ مفکر اسلام، مجاہد اسلام، محسن پاکستان کو جوار رحمت میں جگہ دے، اور درجات بلند فرمائے۔