|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2021

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے کبھی بھی آمر مطلق کے آگے سر نہیں جھکایا ،عوام کے حقوق پر کبھی سودا بازی نہیں کی۔ قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں کبھی بھی کسی دنیاوی سپر طاقت سے ڈکٹیشن نہیں لی ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے قومی مفاد کو ترجیح دی۔ امریکا روس فرانس برطانیہ کا دباؤ قبول نہیں کیا۔ کشمیر کے مسئلے پر کشمیری لیڈر شپ کو ساتھ لے کر بھارتی قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیشہ بات کی ۔کبھی کسی امریکی صدر کے ٹیلیفون کا انتظار نہیں کیا۔

پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے ایگزیکٹو آرڈر پریہ کہتے ہوئے دستخط کر دئیے کہ اس کا انجام اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنا ہے۔یہ جرات اور حوصلہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت میں ہے کہ آمر مطلق نے قتل کے جعلی مقدمہ میں عدلیہ سے گن پوانٹ پر پھانسی کی سزا کا فیصلہ صادر کرا دیا مگر قیادت نے رحم کی اپیل کی نہ ملک سے فرار ہونے کی رعایت قبول کی اور تختہ دار پر چڑھ کر خود کو امر کر لیا۔ پیپلز پارٹی کو ہمیشہ کے لیے پاکستان کے لیے ناگزیر بنا دیا۔. فوجی آمریت اور شخصی آمریت کے خلاف پیپلز پارٹی وجود میں آئی، عوام کے حق حکمرانی کے لیے پیپلز پارٹی ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

عوام کے لیے جینا اور عوام کے ہجوم میں مرنا پاکستان پیپلز پارٹی کا جمہوری سیاسی ماٹو بن گیا ہے مسلم دنیا کی پہلی عوامی دو بار منتخب وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کے پروگرام کا اعلان کیا تو گن پوائنٹ پر اقتدار پر قابض پرویز مشرف نے شور مچانا شروع کر دیا کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی صاحب زادی دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان نہ آئیں۔ان کی زندگی کو خطرہ ہے دہشت گرد ان کو نشانہ بنا ڈالیں گے ریاست ان کو سیکورٹی فراہم نہیں کر سکے گی۔

مگر محترمہ نے اپنے شیڈول کو موخر کرنے سے صاف انکار کر دیا عالمی برادری با وردی صدر مملکت پرویز مشرف کے ملک کی دو بار منتخب وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی چیئر پرسن کو سیکورٹی دینے سے معزوری کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا اور کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں پر راج کرنے والی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹوکا طیارہ 18 اکتوبر 2007 کو کراچی ائیرپورٹ لینڈ کر گیا۔ کشمیر گلگت بلتستان سے لے کر چاروں صوبوں کے جمہوریت پسندوں کے ٹھاٹھیں مارتے انسانی سمندر نے ان کا تاریخی استقبال کرکے غیر جمہوری وردی پوش صدر مملکت کو چاروں صوبوں کی زنجیر کے لیے ایوان اقتدار خالی کر دینے کا پیغام دے دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ذوالفقار قائمخانی نے سانحہ کارساز 18 اکتوبر 2007 کے شہداء کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ کارساز میں جس بیدردی سے جمہوریت پسندوں کا قتل عام ہوا ہماری قومی سیاسی تاریخ کا نا قابل فراموش سانحہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے جانثاروں نے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اپنی محبوب قائد کو محفوظ رکھنے کیلئے ان کی گاڑی کے گرد حصار قائم کرلیا ۔ہم بھی اس قافلے میں شریک تھے ہمیں بھی آگے جانے سے روک دیا گیا اور جب قیامت ٹوٹی تو ان جمہوریت پسند جیالوں نے اپنی جانیں نثار کردیں مگر اپنی قائد اور پارٹی عہدیداروں کو خروچ تک نہیں آنے دی۔ ذوالفقار قائمخانی نے کہا کہ اس سانحہ کا منظر بھول نہیں سکتے ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں زخموں سے چور جیالوں کو اسپتال پہنچاتے رہے ،جیالے ایک ہی سوال کرتے کہ ہماری قائد تو محفوظ ہیں جب ہم بتاتے محفوظ ہیں تو وہ اپنی تکلیف بھول جاتے۔انہوں نے کہا کہ جیالوں کی جانثاری دیکھ کر ہماری آنکھیں اشکبار ہوگئیں آج بھی ہم ان جیالوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور 17 اکتوبر کو مزار قائد کے جلسے میں سلام عقیدت پیش کریں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے صدر خلیل ہوت نے سانحہ کارساز میں 200 جمہوریت پرستوں کی شہادت اور ملک بھر سے کراچی آ کر اپنی محبوب قائد کا استقبال کرنے والوں میں 500 سے زائد جمہوریت پسند زخمی ہونے والے جیالوں کے بارے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں 2007 میں پیپلز پارٹی کے پی ایس 109 کا صدر تھا اس وقت یہ سٹی ایریا خالص لیاری پر مشتمل تھا اور محترم سعید غنی کا حلقہ بھی ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں تھا ۔18 اکتوبر 2007 کو جب ہزاروں جیالوں کا قافلہ محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں کارساز پر پہنچا تو اچانک اسٹریٹ لائٹ آف ہو گئی اور شاہراہ فیصل اندھیرے میں ڈوب گیا محترمہ بینظیر بھٹو کی گاڑی کے گرد لیاری چینسر گوٹھ اور کیماڑی کے جانثاروں نے فوری اپنے حصار میں لے لیا اس وقت وقار مہدی راشد ربانی ذوالفقار قائمخانی سعید غنی اور عبدالقادر پٹیل اور دیگر عہدیدار بھی پریشان ہو گئے ۔

ہم محترمہ کی گاڑی کے قریب تھے جیالوں نے حصار بناتے ہوئے ہماری گاڑیوں کو محترمہ کی گاڑیوں کے قریب آنے سے روکا اچانک دھماکے ہوا اور فائرنگ شروع ہو گئی محترمہ کی گاڑی کو حصار میں لینے والے جانثار دھماکوں کے دوران سڑک پر گر کر تڑپنے لگے ۔کچھ فائرنگ کی زد میں آکر شہید اور زخمی ہو گئے اچانک محترمہ کی گاڑی کو سانحہ کے مقام سے دور پہنچا دیا گیا خلیل ہوت نے پلکوں پر آنے والے آنسوئوں کو ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے کہا کہ دھویں اور بارود کے بادل چھٹنے کے بعد ہم سب بی بی کی گاڑی کی طرف بھاگے، پتہ چلا کہ محترمہ محفوظ ہیں اور ان کی گاڑی کو بلاول ہاؤس بھیج دیا گیا۔ وقار مہدی سعید غنی راشد ربانی ذوالفقار قائمخانی قادر پٹیل اور میں زخمیوں اور شہید کارکنوں کی جانب لپکے، بھیانک خوں کی ہولی کھیلنے والے فرار ہو چکے تھے ہم نے زخمیوں کو اپنی اپنی گاڑیوں میں بھر کر اسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کیا ۔

خلیل ہوت نے بتایا کہ ہر زخمی اپنی تکلیف بھول کر محترمہ کی خیریت بارے جاننے کو بے چین تھا ہم جب بتاتے کہ ہماری قائد سلامت ہیں تو ہاتھوں ٹانگوں سے معزور زخمی جیالوں کے چہروں پر سکون آ جاتا۔ ہم ان کی جانثاری کو سلام کے بغیر نہیں رہ سکے ۔خلیل ہوت نے بتایا کہ سب سے زیادہ شہید جیالوں اور زخمیوں کا تعلق ڈسٹرکٹ ساؤتھ اور کیماڑی اور ڈسٹرکٹ ایسٹ سے تھا، اسی لیے محترمہ بینظیر بھٹو بھی لیاری کیماڑی اور ڈسٹرکٹ ایسٹ سے پیار کرتی تھیں۔ مرد حر جناب آصف علی زرداری بھی ان ڈسٹرکٹس سے بے پناہ لاڈ اور پیار کرتے ہیں اور آج بھٹو شہید کے نواسے محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور جناب آصف علی زرداری کے لخت جگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی لیاری ڈسٹرکٹ ساؤتھ کیماڑی ڈسٹرکٹ ویسٹ اور ڈسٹرکٹ ایسٹ سے بے پناہ محبت کر رہے ہیں۔

جس پارٹی کی لیڈر شپ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے عوام کے دکھ درد میں شریک رہے عوام میں موجود رہ کر جام شہادت نوش کرتی ہو اس سیاسی پارٹی کے کارکن بھی اپنی لیڈر شپ پر جانیں نثار کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ اعزاز پاکستان میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہے اسی لیے میں صحافی ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے نام پر جذباتی ہو جاتا ہوں اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اور جیالوں کے خلاف کوئی تبصرہ پسند نہیں کرتا۔