|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2021

تربت:  HRCP ریجنل آفس تربت مکران (بلوچستان) کی جانب سے ایک پریس ریلیز کے زریعے 10 اکتوبر2021 کو ہوشاب ضلع کیچ میں FC کی طرف سے گولہ باری کر کے دو بچوں کو قتل کرنے اور ایک بچے کو زخمی کرنے کے عمل کی شدید مذمت کی گئی ہے اور قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزائیں دینے کا پرزور مطالبہ کیا گیا ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ 10 اکتوبر2021کو ہوشاب کے علاقے”پرکوٹگ” میں FC کی بلاوجہ اور بلاجواز گولہ باری کے نتیجے میں ملّی/مسکان بنت واحد موقع پر ہی جانبحق ہو گئی تھی جبکہ اللہ بخش ولد واحد اور پھلین ولد وزیر زخمی ہو گئے تھے۔

جنہیں علاج معالجے کے لیے ٹیچنگ ہسپتال تربت لے جایا گیا اللہ بخش ولد واحد شدید زخمی ہونے کی وجہ سے علاج معالجے کے دوران جان بحق ہو گئے جان بحق ہونے والے دونوں بچے انتہائی کمسن تھے اور زخمی بچہ بھی انتہائی کمسن ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کمسن بچوں نے آخر کون سا جرم کیا تھا جس کی پاداش میں FC نے ان پر غیرقانونی گولہ باری کی اور FC کو اس قسم کی گولہ باریوں کا اختیار کس نے دیا ہے اور ستم بالا ستم یہ ہے کہ تینوں بچوں کے خاندانوں کی طرف سے FIR کٹوانے کے لیے DC کیچ حسین جان سے رجوع کیا گیا۔

تو انہوں نے FIR کٹوانے سے انکار کرتے ہوئے تحقیقات کے بغیر اپنی طرف سے یہ جواب دیا کہ یہ ایک ہینڈ گرنیڈحملہ تھا جو پہلے سے وہاں پڑا ہوا تھا اور جب بچوں نے اس کے ساتھ کھیلنا شروع کیا تو وہ پھٹ گیا جس سے انہیں نقصان پہنچا اسی طرح جب بچوں کے خاندانوں کی طرف سے دونوں لاشوں کے ساتھ فدا شہید چوک تربت میں احتجاجی دھرنا دیا گیا جس کے دوران یکجہتی کے لیے لوگوں کا آنا جانا شروع ہوا اور اسی دوران12اکتوبر کی صبح جب DC حسین جان بھی دھرنے پر پہنچے تو انہوں نے وہاں پر بھی FIR درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے گفتگو کے دوران وہاں پر موجود ایک خاتون کی بلاوجہ اور بلاجواز بے عزتی کی جس سے لوگ ان کے خلاف کافی مشتعل ہو گئے۔

اور انہوں نے ان کی معطلی اور تبادلے کے مطالبات بھی کئے، پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ تربت سے حق رسی نہ ہونے کی وجہ سے 12 اکتوبر کی رات کو جب دونوں خاندانوں کی طرف سے دونوں لاشوں کو لیکر بہت سارے لوگ گاڈیوں پر حق رسی کی خاطر جب کوئٹہ جانے لگے توہوشاب میں FCنے انہیں جانے سے روکا اور یہ کہہ کر کئی گھنٹے روکے رکھا کہ کوئٹہ جانے کے بجائے لاشیں یہیں دفنا دیں مگر خاندان کے لوگوں نے اس ناجائز حکم کو ماننے کی بجائے کوئٹہ کا سفر جاری رکھا اور 13 اکتوبر کو کوئٹہ میں سول سکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا سلسلہ شروع کیا۔