|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2021

بلوچستان میں طبل جنگ بج چکا ہے، اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ حکومتی باغی اراکین اور وزیراعلیٰ جام کمال گروپ میں سیاسی تصادم سامنے آنے کے بعد سے اقتدار کی جنگ میں شدت آچکی ہے۔ مرکزی شہر اقتدار اسلام آباد میں اس وقت بلوچستان کے تقدیر کے فیصلے ہورہے ہیں۔ ناراض اراکین و جام کمال گروپ دونوں اسلام آباد کا طواف کرکے اقتدار اقتدار کی سدائیں بلند کرتے رہے۔ دونوں جانب آس اسلام آباد پر لگی ہوئی ہے اب اسلام آباد کا فیصلہ 20 اکتوبر کو متوقع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کس کے حق میں جاتا ہے اور اسلام آباد والے کس پر مہربان ہوتے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان کے عوامی حلقوں میں اس متوقع تبدیلی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہاں کے عوام اس تبدیلی کو کسی بھی طرح بلوچستان کیلئے سودمند نہیں سمجھتے کیونکہ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے فیصلے بلوچستان کیلئے کبھی بھی باعث خیر نہیں بنے۔ وہاں پر بلوچستان کی تقدیر میں ہمیشہ سے دکھ تکلیف مشکلات لکھی جاتی ہیں۔ اس لیئے بلوچستان کے لوگ اسلام آباد اور پنڈی کے ہر فیصلے کو بلوچستان کیلئے کوئی نئی خطرہ سمجھ کر خوفزدہ ہوتے ہیں۔اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہونے والے فیصلے اور وزیروں کی تقرریاں کبھی بلوچستان کے عوام کیلئے باعث خوشی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ وہاں کے فیصلے ہمیشہ بلوچستان کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتے۔کیونکہ اس سے قبل ماضی قریب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کو بھی منصب سے ہٹایا گیا اور بعد میں میر قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا۔ میر قدوس بزنجو وہ رکن صوبائی اسمبلی تھے جو آواران سے صرف پانچ سو ووٹ لیکر منتخب ہوئے تھے اور بعد میں وہ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوکر مزید سرپرائز دیا۔ قدوس بزنجو کی چند ماہی ڈرامائی سین ہیرو پن بعد میں بلوچستان کیلئے عذاب ثابت ہوا، بلوچستان پر ایک مصنوعی باپ مسلط ہوا جو بلوچستان میں سیاسی، معاشی، سماجی بحران کا باعث بنا ،آج اسی باپ کی وجہ سے سارا بلوچستان مسائلستان، احتجاجستان، قبرستان اور تابوتستان بن گیا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی اسلام آباد اور راولپنڈی کی خواہشات کے مطابق بنی، بلوچستان سے مختلف اراکین کو مِلا کر جماعت وجود میں لائی گئی اور اس جماعت کو فوراً اقتدار سونپ دی گئی۔لیکن اس باپ کے بچے اب تک جماعت کے تین سال پورے نہ ہوئے کہ نافرمانی پر اْتر آئے۔ وہ بچے اب ایک نیا گروہ بنا کر اقتدار کی چادر کھینچنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اقتدار انہیں کو حاصل ہوگی جن کے سر پر اسلام آباد اور راولپنڈی کی آشیرباد ہوگی اب کس پر اسلام آباد اور پنڈی مہربان ہوتے ہیں یہ فیصلہ آنا 20 اکتوبر کو متوقع ہے۔ لیکن اس متوقع تبدیلی سے بلوچستان اور بلوچ عوام کسی بھی خیر کی اْمید نہیں رکھتے البتہ اس تبدیلی سے مزید خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔

یہاں اقتدار پرست اقتدار کی رنگینیاں بلوچستان کی مفادات کے نام پر لیتے ہیں لیکن بعد میں بلوچستان کے مفادات کا سودا کرتے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے قسمت کے فیصلے بلوچستان میں بہتر ہوتے ہیں اسلام آباد اور راولپنڈی میں نہیں۔ اگر واقعی کسی کو بلوچستان کی فکر ہے اگر کسی کے دل میں بلوچستان کے مسائل معنی رکھتے ہیں تو یقیناً وہ کوئٹہ شہر میں آٹھ سو کلومیٹر دور ہوشاپ تربت سے آئے ہوئے معصوم بچوں کی لاشوں تک ضرور جاتے اور وہ ٹھٹھرتی سردی میں بیٹھے لواحقین سے ضرور ملتے اور انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی ضرور کراتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ظاہر ہے پھر یہ جنگ ذاتی مفادات کی ہے، یہ جنگ اقتدار اور عوام پر شاہی حکمرانی کرنے کی ہے۔ یہ جنگ عوام کو مزید گمراہ کرنے اور انہیں آسرے پہ رکھنے کی ہے۔ یہ جنگ عوام کے حقوق غصب کرنے کی ہے۔ اس جنگ میں کہیں بھی بلوچستان کے مفادات نظر نہیں آتے کیونکہ بلوچستان کے مفادات بلوچستان کے سڑکوں پر ہیں، مگر یہاں کے مسائل پر بولنے اور سوچنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں جس کے نتیجے میں آنے والے کسی بھی متوقع تبدیلی سے کسی کو بھی خوشحالی کا امکان نظر نہیں آتا۔