سندھ حکومت نے ملیر کے عوام ساتھ ایک بار پھردھوکہ دہی کا ارتکاب کیاہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ملیر میں پی ایس 88 کا ضمنی انتخاب جیتنے کے لئے ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا روٹ تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھاجس پرعوام نے خوشی کے عالم میں پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف مرتضیٰ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ انتخاب جیتنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بار پھر پرانے روٹ پر ملیر ایکسپریس وے منصوبے کی تعمیرکا فیصلہ کیا۔ پرانے روٹ پر منصوبے کی تعمیر سے تقریباً دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوگی۔ دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ سندھ حکومت بجائے ملیر کے عوام کی فلاح و بہبود پر کام کرے وہ ضلع ملیر اورگڈاپ میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں پرتوجہ دے رہی ہے۔
ملیرایکسپریس وے ڈی ایچ اے کریک ایونیو سے شروع ہوکر جام صادق پل، شاہ فیصل کالونی روڈ، فیوچرکالونی سے ہوتا ہوا ایم نائن پر کاٹھور تک جائیگا۔ اس منصوبے کے بننے سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوجائیں گے۔ سندھ حکومت منصوبے کو پرانے روٹ پر بنانے پر بضد ہے۔ اس ضد کے پیچھے کونسے محرکات ہیں کہ پی پی حکومت اپنے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ اس فیصلے میں ملیر کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی برابر کے شریک ہیں۔ ایسی کونسی مجبوری ہے کہ ملیر کے عوامی نمائندے بھی اپنی جماعت کے سامنے گونگے بہرے ہوگئے ہیں؟۔
بلوچ متحدہ محاذ کے سربراہ اور بزرگ سیاستدان یوسف مستی خان نے کہا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے ترقی کا نہیں بلکہ بلڈرز مافیاز کی جانب سے سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ ہے۔ سندھ حکومت اگر مقامی لوگوں کو ترقی دینا چاہتی ہے، تو یہاں کے لوگوں پر براہِ راست سرمایہ کاری کرے۔ علاقے میں اسکولز، اسپتالز، یونیورسٹیز اور دیگر عوامی منصوبوں پر کام کرنے سے ہی مقامی لوگوں کی ترقی ہوگی۔ اور اگر ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر انتہائی ضروری ہے تو اس منصوبے کے روٹ کو تبدیل کیا جائے۔
بلوچ متحدہ محاذ اور دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں نے متفقہ طور پر ملیر ایکسپریس وے منصوبے کے روٹ کو تبدیل نہ کرنے اور مقامی لوگوں کو جبراً بے دخل کرنے کے خلاف 31 اکتوبر 2021 کو ملیر 15 سے سلمان ٹاور تک مین نیشنل ہائے وے پر ریلی نکالنے اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ احتجاجی مظاہرے میں تمام متاثرین کی شرکت اور مختلف سماجی تنظیموں کو مدعو کرنے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ہم نے یہ دیکھا کہ حکومت اور قبضہ مافیا نے ماضی کی عوامی طاقت سے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا۔ جب رواں سال مئی اور جون میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ نے سندھ حکومت کی مدد سے کاٹھور کے قدیمی علاقے نورمحمدگبول گوٹھ اور عبداللہ گبول گوٹھ پر چڑھائی کردی۔ احتجاج کرنے پر خواتین اوربچوں پر شیلنگ اورفائرنگ کی گئی۔ لوگوں کو ان کی جدی پشتی اراضی سے بزوربے دخل کردیاگیا۔ جس پر سندھ کے عوام نے اپنی طاقت کا مظاہر کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن پر ہلہ بول دیا۔ گڈاپ سٹی پولیس نے بحریہ ٹاؤن پر حملے میں ملوث 125 سے زائد سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کو گرفتار کر کے 11 مختلف مقدمات درج کرلئے۔
سندھی قوم پرست تنظیموں سندھ یونائٹیڈ پارٹی ، سندھ ترقی پسند پارٹی ، جئے سندھ محاذ ، جئے سندھ قوم پرست پارٹی ، قومی عوامی تحریک و دیگر قوم پرست تنظیموں نے 6 جون 2021 کو دس ہزار سے زائد کارکنوں کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کو جو سبق سکھایا وہ ایک عوامی رد عمل تھا۔ وہ ایک عوامی مزاحمت تھا۔ جس کے پس منظر میں سندھی اور بلوچ عوام میں پائی جانے والی بے چینی تھی۔ عوامی محرومیاں تھیں۔ جو ستر سال سے چلی آرہی تھیں۔ سندھ کے عوام نے کنٹینرز کے ساتھ لگی ہوئی خار دار تاروں کو کاٹ کر کنٹینرز کی توڑ پھوڑ شروع کر دی اور بحریہ ٹاؤن کے مین گیٹ کوآگ لگا دی۔
اس واقعہ کو سال پورا ہی نہیں ہوا کہ حکومت نے متنازعہ منصوبہ ملیر ایکسپریس وے کو پرانے روٹ پر تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اگر دیکھا جائے ملیر ندی کراچی کے لئے آکسیجن حب ہے۔ یہاں کمرشل سرگرمیوں سے ماحولیاتی آلودگی جنم لے گی۔ جس سے ملیر کی پرفضا کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اور اگر ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ تو اس منصوبے کے روٹ کو تبدیل کیا جاناضروری ہے۔ پیپلز پارٹی ایک عوامی اور جمہوری جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کے احترام کی بات کرتی ہے۔ لیکن ان کا عمل اس کے برعکس ہے۔ ان کی قیادت بلڈرز مافیا کے ساتھ ملکر مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی پر قبضہ کررہی ہے۔ وہ بلڈر مافیا کے ساتھ ہاؤسنگ اسکیمز بنانے میں مصروف ہے۔ عوام دشمن منصوبے پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔
سندھی اور بلوچ قدیم آبادیوں پر مسمار کرکے ان کی جگہ نئی ہاؤسنگ اسکیمز کے لئے ایکسپریس وے بنانے میں مصروف ہے۔ کراچی کی قدیم سندھی اور بلوچ آبادیوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان قدیم بستیوں کو ہٹانے کے لئے سندھ پولیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مقامی افراد کی زرعی اراضی کوزبردستی بلڈرمافیاز کے حوالے کیا جارہا ہے۔ چراگاہوں پرقبضہ کیا جارہا ہے۔ ایک طرف انڈیجینس لوگوں پر ڈھائے جانے والے زیادتی اور ظلم کے خلاف نام نہاد قومی میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے تو دوسری جانب سندھ حکومت اور وفاقی ادارے بلڈرمافیاز اور ملکی وغیر ملکی کمپنیوں کی پشت پناہی کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ کونسی ترقی ہے؟ جس سے انڈیجینس لوگوں کو بے گھرکیا جائے۔ قدیم انسانی آبادیوں کو ترقی کی نام پر صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ اس کی جگہ نئی بستیاں قائم کی جارہی ہیں۔ یہ نئی بستیاں کس کے لئے بنائی جارہی ہیں؟۔ کیا سندھ مزید ڈیموگرافک تبدیلی کا متحمل ہوسکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے پاس شاید نہ ہوں۔ تاہم ان کا ایک ہی منشور ہے وہ ہے پیسہ بنانا۔