گوادر جو اپنے آپ میں بہت خاص ہے جس کے تین اطراف سمندر اور ایک طرف خشکی ہے۔اس کے علاوہ ہم گوادر کی اہمیت کا اندازہ اس وقت سے لگا سکتے ہیںجب چین اور پاکستان کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہوا۔جو چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کے نام سے ہے۔جو ون بیلٹ ون روڈ کا ایک اہم اور بہت بڑا پروجیکٹ ہے جس کی وجہ سے آج پوری دنیا کی نظریں گوادر شہر پر ہیں۔اور ابھی تک بہت سے سرمایہ داروں نے یہاں پر سرمایہکاری کی ہے اور مزید کر رہے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود گوادر کے عوام کے لیے ابھی تک سب کچھ اسی طرح ہے جو اس پروجیکٹ سے پہلے تھا۔گوادر کے بنیادی مسائل ابھی بھی ویسے ہیں جیسے پہلے تھے۔کہنے کو تو یہ پروجیکٹ گوادر اور ملک کا مقدر بدل دے گا۔ملک کا تو پتہ نہیں لیکن گوادر کے حالات اس پروجیکٹ کے آنے سے مزید برے ہو چکے ہیں۔مسائل تو بہت سارے ہیں لیکن جو موجودہ اور سب سے اہم مسائل گوادر میں بجلی اور پانی کے ہیں۔آئے روز گوادر کے لوگ سڑکوں پر پانی اور بجلی کے لیے احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
جب کوئی علاقہ یا شہر کاروباری مرکز یا حب بنتا ہے یا پھر بننے جارہا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس علاقے اور شہر کے بنیادی مسائل حل کئے جاتے ہیں تاکہ وہ پروجیکٹ اس علاقے کے لیے خوش آئند ہونہ کہ اس علاقے اور شہر کے لوگوں کے لئے باعث سر درد ہو۔اور اگر میں یہ کہوں کہ گوادر صرف اور صرف گوادر کے لوگوں کے لئے خوابوں کا دبئی اور سنگاپور تک ہی محدود رہے گا تو میں بالکل غلط نہیں ہونگا۔کیونکہ گوادرجسے سی پیک کا دل یا ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے لیکن اس جدید دور میں بھی لوگ بجلی اور پانی کے ایک بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔
قدرتی طور پر تین اطراف سمندر ہونے کے باوجود سی پیک کے باشندے پانی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔سننے کو یہ بات کچھ عجیب لگتی ہے نہ، لگنا بھی چاہیے۔ آپ نے کبھی سنا ہے عرب ممالک یا خلیجی ممالک میں ڈیم کا پانی ختم ہوا ہے۔یا پھر خلیجی ممالک میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا بحران شروع ہوا ہے تو جواب ملے گا نہیں۔کیونکہ خلیجی ممالک میں پانی کا سارا دارومدار سمندر کے پانی پر ہے۔لیکن گوادر میں جب بھی پانی کابحران ہوتا ہے تو ضلعی انتظامیہ اور حکومت بلوچستان ٹینکروں کا سہارا لیتے ہیںاور پانی بحران پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیںجو ایک عارضی حل تو ہوسکتا ہے لیکن مستقل نہیں ۔اور ٹینکروں کی مد میں اربوں کربوں روپے حکومتی خزانے سے لوٹا جاتا ہے۔اگر ان پیسوں سے گوادر میں پانی کا مستقل حل نکالا جائے تو بدرجہا بہتر ہوگا۔لیکن ایسا ہوگا نہیںکیونکہ اگر مستقل حل نکالا گیاتو ان حکمرانوں کے جیب میں پیسے کیسے چلے جائیں گے۔اصل بات تو یہی ہے کہ حکومت سنجیدہ نہیں اور حکومت ان مسائل کا حل نہیں چاہتا ۔
اسی طرح گوادر میں بجلی کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیںبلکہ یہکافی پرانا ہے۔مکران کے پورے بجلی کا نظام ایران پر انحصار کرتاہے جو کئی سالوں سے چلتا آرہا ہے۔اور حکومت بلوچستان بجلی کی مد میں ایران حکومت کو اربوں کربوں روپے سالانہ کی بنیاد پر اداکرتاہے۔جو اسی طرح ایک عارضی حل تو ہو سکتا ہے لیکن مستقل حل کہنا صحیح نہیں ہوگا۔اگر چاہے ان پیسوں سے جو ایران حکومت کو دئیے جارہے ہیں، مکران ڈویژن کے لیے گریڈ اسٹیشن بنائی جائے تو ہمیشہ کے لیے مکران میں بجلی بحران ختم ہوگا۔لیکن پھر وہی بات ،اگر مستقل حل نکل گیا تو حکمرانوں کے جیب کون بھرے گا۔
ایک اور انوکھی چیز گوادر ادارہ ترقیات جس کا کام گوادر شہر میں ترقیاتی کام وغیرہ کروانا ہوتا ہے۔لیکن وہاں کے لوگ گوادر کے مسائل حل کروانے کے لئے جائیںتو اس ادارے کی طرف سے ایک ہی جواب ملتا ہے۔جو ہر سرکاری ادارے سے عوام کو ملتا ہے۔کہ ادارے کا اتنا بجٹ نہیں ان مسائل کا حل نکال سکے۔لیکن 14 اگست 2021 جشن آزادی کے رات صرف اور صرف کچھ لمحوں کے لیے گوادر ادارہ ترقیات نے ایک کروڑ کا خرچہ کیا۔صرف ایک پروجیکٹر اور کچھ آتش بازی کیلئے ،کیا یہ مذاق لگ رہا ہے لیکن درحقیقت یہ سچ ہے۔میں یہ نہیں کہتا جشن منانا بری چیز ہے۔لیکن صرف کچھ منٹس کیلئے ایک کروڑ روپے کا خرچہ کرنا بس ایک پروجیکٹر اور کچھ آتش بازی کیلئے بھی غلط ہے۔وہاں کے باشندے ایک ایک بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔اور جب مسئلوں کے حل کیلئے شہری کہتے ہیں تو اتنا بجٹ نہیںلیکن دوسرے غیر ضروری چیزوں کیلئے صوبائی خزانہ بھرا پڑا ہے۔
لیکن بات پھر وہی آتی ہے۔حکمران سنجیدہ نہیں ہیں۔ان ہی مسائل کے حل کیلئے گوادر میں ایک تحریک کا آغاز ہوا ہے۔جو ‘‘گوادرکو حق دو’’ کے نام سے ہے۔جس کی سربراہی مولانا ہدایت الرحمن کررہے ہیں۔اور اس سلسلے میں 30 ستمبر کو ایک عوامی جلسہ شہدائے جیونی چوک پر ہوا۔جو بلوچستان کی تاریخ میں سب سے بڑا عوامی جلسہ تھا۔جس میں مولانا نے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کو سخت اور واضح الفاظ میں بتایا۔کہ اگر 30 اکتوبر تک ان کے جائز مطالبات نہ مانے گئے تو جس طرح تاریخ کا سب سے بڑا عوامی جلسہ کیا، اسی طرح تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا بھی دیا جائے گا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مولانا ہدایت الرحمن اور عوام کے ان جائز مطالبات کو پوری کرتاہے یا مولانا کو پھر مجبور کر کے ایک اور تاریخ رقم ہو گا۔اس چیز کا تعین 30 اکتوبر کے ڈیڈلائن کے بعد ہی ہوگا۔