|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2021

یوں تو ملک میں ہر چیز ہے اختیار ہے اعتماد ہے احساس ہے قیامت ہے عوام ہے خواص ہے دوست ہے با شعور طبقہ ہے لیکن کیا یہ ہیں ؟ اگر ہیں تو وہ معصوم لاشوں کو کئی دن پیوند زمین پر انتظار کیوں کرنا پڑا؟
موت تو حق ہے اور موت کو روکنے کی کوئی تکنیک پیدا نہیں ہو سکی ہے اور پیدا نہیں ہوگی لیکن کسی بھی مہذب معاشرہ کی مہذب ہونے کی نشانی اس معاشرے کی آبادی اور اس کے امن سے دیکھا جاتا ہے اور یہ بات بھی کہ امن کے لئے وہ کیا اسباب اور ذرائع استعمال کرتے ہیں اور قیام امن کے لئے وہ کس حد تک سنجیدہ ہیں اور کس حد تک جا سکتے ہیں ۔دنیا کی کوئی طاقت ظلم کے سایہ میں امن قائم نہیں کر سکی ہے اور یہ قانون فطرت ہے ۔
ہوشاب کے دو معصوم بچوںکے ناگہانی موت نے یہ ثابت کردیا کہ یہاں صرف مرنا آسان ہے اور بس، باقی مرنے کے لئے کوئی قاعدہ قانون نہ منع کر سکتا ہے اور نہ اظہار افسوس کر سکتا ہے ۔ہوشاب ضلع کیچ کا حصہ ہے جو بلوچستان کی سیاست اور بلوچستان کی پہچان ہے۔ یہ بچے مرنے کے بعد کئی دن تک تربت شہر کے مہمان رہے مگر ایک معمولی بات بھی طے نہ ہوسکی بات تھی ان بچوں کی خون کے بارے میں ایف سی کے نام پر ایف آئی آر کٹوانا۔ اندازہ کریں کہ اتنی طویل عریض بلوچستان میں درجن بھر سیاسی جماعتیں ،ہزاروں سیاسی ورکرز اپنے لیڈروں سمیت حکومتی اور انتظامی مشینری بھی یہی چھوٹی بات طے نہ کرسکی۔ ہوسکتا ہے کہ بادی النظر میں ہم ان معصوموں کو بعد از مرگ عرصہ دراز تک اپنے کنبہ کے ساتھ رہنے کو ان کے والدین کی ضد قراردادیں لیکن حقیقت میں یہ والدین نہیں ان ننھے جانبازوں کی ضد تھی اور یہ بھی قدرت کی شان کہ لہو اپنا نشان چھوڑ کر مٹ جاتا ہے۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے دراصل یہ پختہ دوستی مضبوط کرنے کا نہیں، نفرتیں بونے کی کوشش ہے کہاں ہیں وہ لوگ جو بیورو کریسی بن کر ریاست کی ریڑھ کی ہڈی بن بیٹھے ہیں ؟ کہاں ہیں وہ سیاسی زعماء جو اپنے آپ کو حقوق کے علمبردار قرار دے کر ہر انتخابات کے موقع پر اپنی بازی گری دکھا کر عوام کی خیر خواہ اور دوست ہونے کی سعی کرتے ہیں ؟ ان لاشوں نے بلوچستان کے ہر طبقہ کو پاؤں تلے روندا ہے۔ رہی بات ایف آئی آرکی تو یہ کون سی طوفان تھی جو ایک ادارہ کی حیثیت پر منفی رنگ چھوڑتی۔ ایف آئی آر میں ہو سکتا تھا کہ ایف سی اہلکار بے گناہ ثابت ہوتے اور متاثرہ خاندان کا مداوا ہوتا مگر جو ہوا اس سے یہ بات ثابت اور عیاں ہوگئی کہ بلوچستان میں کون کہاں کھڑا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی عجیب سی ہے کہ مولانا ہدایت الرحمنٰ صاحب کے طوفانی رابطہ مہم کے دوران کم فاصلہ میں بلیدہ میں ایک بچے کا مارے جانا اور تربت ہی کے مضافاتی علاقہ میں ایک خاتون کا فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہونا اور پھر ہوشاب کا یہ سانحہ یہ سب کچھ وارننگ یا رد عمل ہے یا اتفاقی حادثات ؟ جب کہ معاشی اور معاشرتی مشکلات میں روز افزوں پریشانیاں اپنی جگہ ۔ آخر کار ہوشاب کے ننھے جانباز بھی بعداز مرگ سخت جان ثابت ہوئے اور انہیں زمین یک آغوش میں آسودہ خاک ہو نے کی جلدی نہ تھی۔ بھلا ہو عدالت عالیہ کے جس نے یہ مسئلہ حل کیا اور بھلا ہوا ان وکیلوں کا جنہوںنے اتنا کوہ گراں سر پر اٹھایا۔ ویسے بھی اگر اس کیس کے وکلاء عدالت کے دروازے پر دستک نہ دیتے تو شاید معصوموں کو پیوندخاک ہونے کا سفر مزید تاخیر سے ہوتا مگر بہت اچھا ہوا کہ عدلیہ کی بالیدگی کا ایک اچھا موقع سامنے آیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کی المناک موت سے ان کی لاشوں پر یہ سب کچھ بیت جانا ،رونے کا مقام ہے یا آنکھیں بند کرنے سونے کا مقام ؟ اس بات میں دورائے نہیں کہ ملک کا اصل اور با اختیار حاکم فوج ہے اور ایف سی اس کا ایک حصہ ہے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ ہوشاب کا سانحہ آخری سانحہ و حادثہ ہو، اس کے بعد ایسے حالات نہ آئیں لیکن مقام عبرت اور لمحہ فکریہ ہے اس طبقہ کے لئے جو اپنے آپ کو سیاسی قیادت کہتی ہے اور یہ قیادت چاہے اقتدار میں ہے یا حزب اختلاف میں ان تمام لوگوں پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر واقعی ان کا کوئی وجود ہے تو اپنی زندگی ثابت کریں اور اگر نہیں ہے تو عوام خیالی گھوڑوں سے اتر کر پیدل اپنا سفر شروع کریں ۔