|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2021

یوں تو پاکستان میں برائیوں کے خاتمے کیلئے سخت قوانین اور سزائیں موجود ہیں آئین پاکستان ایک مکمل دستور ہے لیکن پاکستان وجود میں آنے سے لے کر اب تک آئین پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے تاہم قانون غریب اور لاچار پر قہر بن کر انہیں ذلیل و خوار کرتا چلا آ رہا ہے جبکہ طاقتور کیلئے ریاستی قانون مکڑی کا جالا ثابت ہوتا چلا آ رہا ہے۔ بالکل اسی طرح ملک میں برائیوں کے خاتمے کیلئے محکمہ انسدا رشوت ستانی اور انسداد منشیات کا محکمہ قائم کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں ایکسائیز محکمہ بھی منشیات کے تدارک اور روک تھام کیلئے سرگرم عمل ہے بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی میں اب نوجوان نسل بیروزگاری بدامنی اور ذریعہ معاش نہ ہونے کے باعث منشیات کی لعنت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں ہمارے سکول ویران جبکہ منشیات کے اڈے آباد ہوتے جا رہے ہیں چمن سے لیکر ڈیرہ اللہ یار اور حب تک سینکڑوں پولیس لیویز چوکیاں سمیت اینٹی نارکوٹیکس گوسٹ گارڈ کے چیک پوسٹیں ہونے کے باوجود منشیات کا صوبہ بھر میں ترسیل و فراہمی ان محکموں کی کارگردگی پر بدنما داغ ہے۔ اب تو بلوچستان میں منشیات استعمال کرنے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ یہ نمائشی محکمے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرفوٹو سیشن میں مصروف عمل ہیں پورے سال میں ایک بار فوٹو سیشن اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے منشیات پکڑنے کا ناٹک کرکے حکومت اور عوام کو ماموں بنا رہے ہیں ظلم یہ ہے کہ اگر منشیات کی ترسیل بند ہے تو ملک وبلوچستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں فراوانی سے منشیات کیوں دستیاب ہیں؟کیا کبھی حکومت نے ان محکموں کی کارگردگی کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے؟ کیا منشیات فروش اللہ دین کے چراغ ہیں کہ ہمارے ان نمائشی محکموں کو نظر ہی نہیں آتے یا پھر مٹھی و جیب گرم ہونے پر آنکھیں بند کرکے بآسانی منشیات مافیاز کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔

بلوچستان میں اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تعلیمی اداروں کے طلبا طالبات شیشہ جیسی جان لیوا اور خطرناک نشے کی لت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں بلکہ شیشے کے کیفے آج کل ہر شہر میں قائم ہیں جہاں نوجوان نسل تعلیم کے بجائے اس لعنت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں صوبے کے نوجوان نسل کی تباہی اور بگاڑ کے ذمہ دار انسداد منشیات اور محکمہ ایکسائیز کے اہلکار ہی ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے اور قومی مفاد کو تباہ کرکے اپنی ذاتی فوائد کیلئے نوجوان نسل کو تباہی کی جانب گامزن کر رہے ہیں۔

کیا کبھی صوبائی حکومتوں نے ان دونوں محکموں کی محکمانہ کارگردگی کا جائزہ لیا ہے کہ انسداد منشیات کی بدولت صوبے میں منشیات کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ سال میں کتنے منشیات فروش گرفتار کیے گئے ہیں؟ کتنے منشیات مافیاز کو سزائیں ملی ہیں؟ لیکن آپ کو انسداد منشیات کی کارگردگی سوائے مٹھی گرم کرنے کے کوئی خاص کارگردگی نظر نہیں آئے گی ۔اسی طرح انسداد رشوت ستانی کے محکمہ کے باوجود صوبے میں کرپشن کا بازار انتہاء تک پہنچ چکا ہے ظلم تو یہ ہے کہ بلوچستان میں جو جتنا بڑا کرپشن کرتا ہے اسے اتنا ہی بڑا سرکاری عہدہ و اعزاز ملتا ہے ،کیا انسداد رشوت ستانی محکمہ کے باعث بلوچستان میں رشوت کم ہوئی ہے؟ عوام کا دفتری کام مٹھی گرم کئے بغیر ہوتا ہی نہیں اور نہ ہی فائل آگے جاتا ہے۔

روپے ملنے پر ناجائز اور غیر قانونی فائل کو بھی پر لگتے ہیں وہی کام پھر قانونی طریقے سے ہی ہوتا ہے ۔اب عمران خان کے ریاست مدینہ اور جام کمال خان کے خلافت میں پاکستان اور بلوچستان میں نہ تو منشیات کا تدارک ہو رہا ہے اور نہ ہی رشوت ستانی میں کمی ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں ہم نہ تو بحیثیت مسلمان رشوت کے خاتمے کیلئے اور نہ ہی ریاست کے قوانین اس قبیح رسم کے خاتمے میں مخلص ہیں۔ اب اگر یہ دو محکمے اپنا ٹاسک پورا کرسکتے ہیں تو انہیں جاری رکھا جائے بصورت دیگر یہ محکمے عوامی خزانے پر بوجھ ہیں اور اپنے مقاصد میں اب تک مکمل ناکام بھی ہیں تو ان کو ختم کرکے پولیس کو ہی ٹاسک دیا جائے اور جس شہر یا علاقے میں منشیات کی اطلاع ہو وہاں کے متعلقہ ایس ایچ او ہی ذمہ دار ہو اور یہ اس وقت ممکن ہوگا جب سفارش اور سیاسی کلچر کے بجائے میرٹ پر فیصلہ ہوگا تاہم موجودہ حالات میں اس طرح کے بہتر فیصلے کرنے کا نہ تو کوئی طاقتور ادارہ اجازت دے گا اور نہ ہی کوئی اپنے پیٹ اور پائوں پر کلہاڑی مارے گا۔