ضلع نصیرآباد میں معاشرتی اور سماجی ترقی کی سست رفتاری کی سب سے بڑی وجہ نیم قبائلی نظام ہے۔ نصیرآباد میں ایک پالیسی کے تحت فرسودہ قبائلی نظام کو زندہ رکھاگیا۔ضلع میں آج بھی سرکاری سرداروں اور نوابوں کو منتخب کروایا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی سرکار سرداریت کے نیم مردہ ڈھانچے کو آکسیجن فراہم کررہی ہے جس کی وجہ سے قبائلی نظام نے علاقے میں اپنے پنجے گاڑ دئیے ہیں۔ ضلع میں فرسودہ قبائلی سوچ کو غریب عوام پر مسلط کردیا گیا ہے۔ انہیں قبائل میں تقسیم کردیاگیا ہے۔
جس سے بلوچ مرکزیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلوچ کی اجتماعی سیاسی قوت کو مضبوط و مستحکم کرنے نہیں دیا جارہا۔ ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلے سے دست وگریبان کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حکومت کے خلاف جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں ابھریں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معاشرے میں سیاسی شعور کا خاتمہ کیا گیا۔ علاقے میں سیاسی جماعتوں کو پھلنے اور پھولنے نہیں دیاگیا جس کی وجہ سے فرسودہ قبائلیت کے خلاف قومی سطح کی مزاحمتی تحریک نہ ابھر سکی۔ تحریک ابھرنے کے لئے سیاسی شعور ضروری ہے جبکہ سیاسی شعور تعلیم اور تربیت سے ملتی ہے۔ اسلام آباد نے چند سرداروں کے ساتھ ملکر عوام کو تعلیم سے دور رکھا۔ عوام کو قبائل کے نام پر تقسیم کیاگیا۔ایک قبیلے کو دوسرے قبائل سے لڑوایاگیا۔ آج ضلعی انتظامیہ، پولیس اور دیگر اداروں کے سربراہ سرداروں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ کیونکہ ان کی مرضی سے یہاں ان کی تعیناتی ہوتی ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی میر سکندر عمرانی، رکن صوبائی اسمبلی میر محمد خان لہڑی اور رکن قومی اسمبلی نوابزادہ خالد مگسی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی منتخب نمائندوں کی کارکردگی صفر ہے۔ ضلع میں تعلیم اور صحت کا نظام تباہ ہے۔ ہر طرف جنجال ہی جنجال ہے۔ ایک محکمہ بھی سیدھا نہیں ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی میں لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنسز کا کیمپس عارضی طور چل رہا ہے۔ تاہم ضلع کی اپنی یونیورسٹی کی عمارت مکمل ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ضلع میں بننے والی زرعی یونیورسٹی ڈیرہ مراد جمالی نصیر آباد کی عمارت کا تعمیراتی کام 2017 سے چل رہا ہے۔ پانچ سو ایکڑ پر محیط نئی عمارت پر کام سست روی کا شکار ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی میں گرلز اور بوائز ڈگری کالجز بھی بدحالی کے شکار ہیں۔ تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔
ضلع نصیرآباد ایک زرعی ضلع ہے۔ جس کی زراعت کا انحصار پٹ فیڈر کینال پرہے۔ پٹ فیڈرکینال سے ایری گیشن حکام کی سرپرستی میں پانی چوری ہورہا ہے جس کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زمینداروں اور کسانوں کے کروڑوں روپے کی فصلیں خشک ہونے لگی ہیں۔ پانی کی عدم دستیابی پرقحط اور خشک سالی کی صورتحال ہے جس کے باعث نہ صرف فصلیں بلکہ مال مویشی بھی مرنے لگے ہیں۔ مقامی لوگ معاشی مسائل سے دوچار ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سماجی و سیاسی حلقوں نے پٹ فیڈر کینال میں پانی کی کمی کو کسانوں کا معاشی قتل قرار دیا ہے ۔ اور اس کی ذمہ دار بلوچستان حکومت اور نصیر آباد کے منتخب نمائندوں کو بھی ٹھہراتے ہیں۔کینال میں اگر چند قطرے پانی آتا ہے تو وہ بھی گندہ ہوچکا ہوتا ہے کیونکہ کشمور سندھ کے مقام پر سیوریج سسٹم کا گندہ پانی بھی پٹ فیڈر کینال میں چھوڑا جاتا ہے۔ بلوچستان کے لاکھوں لوگ پٹ فیڈر کے پانی کو پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔جبکہ کشمورسے شامل سیوریج کے گندے پانی سے پٹ فیڈر کینال نہرکا پانی زہریلا ہوجاتا ہے۔اور علاقے میں ہیپاٹائٹس بی اور سی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہاں صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کا ہے۔افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی سرزمین کی اہمیت بڑھنے لگی۔ کہا جارہا ہے کہ نصیر آباد میں ایک نیا فضائی اڈہ بنانے کا منصوبہ ہے۔
نصیر آباد کے علاقے نوتال میں اراضی کا معائنہ کرایاگیا ہے۔ یہ منصوبہ پانچ ہزار ایکڑ اراضی پر بنے گا۔ یہ اراضی مختلف قبائل کی ہے۔ جن میں لہڑی، جمالی، عمرانی سمیت دیگر قبائل شامل ہیں۔ بلوچ قوم پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ نصیرآباد کے نام نہاد سردار ریاستی کٹھ پتلی ہیں۔ عوام کی جدی پشتی زمینوں پر قبضہ کرنا ان کا معاشی قتل ہوگا۔ کیونکہ ان کاذریعہ معاش زراعت اور مال مویشی پالنا ہے۔ ان کی اراضی کے معاوضے کے حصول کے لئے کوئی مضبوط سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ ضلع میں قبائلی نظام کی مضبوطی کی وجہ سے یہاں سیاسی قوت کا فقدان ہے۔ لوگ قبائل کے ناموںپر تقسیم در تقسیم کردیے گئے ہیں۔ بلوچ تاریخ پر نظر ڈالیں تو بلوچ سیاسی اکابرین نے روز اول سے طبقاتی جبرکو نظرانداز نہیں کیا۔بلکہ طبقاتی جبر کو قومی جبر سے منسلک کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچ معاشرے کی پسماندگی کی سب بڑی وجہ نہ صرف قومی جبر ہے۔ بلکہ طبقاتی جبر بھی ہے۔ یہ سردار اور نواب قابض حکمرانوں کے ساتھ ملکر عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ بلوچ جدید تاریخ میں سب سے پہلے قبائلی نظام کے خلاف ترقی پسند رہنما میر عبدالعزیز کرد نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔
اس تحریک کو نہ صرف قابض انگریز انتظامیہ کی جانب سے مخالفت کا سامنا رہا بلکہ قبائلیت اور سردار بھی ان کے آگے بڑی رکاوٹ بنے رہے۔ قومی یکجہتی، آزادی اور جدید خطوط پر ریاست میں اصلاحات کی اس تحریک کی سرداروں نے انگریزوں سے بھی بڑھ کر مخالفت کی۔ نوابزادہ میر یوسف علی خان عزیز مگسی جب اس تحریک میں شامل ہوئے تو انگریز حکمرانوں نے ایک سرداری جرگہ کے ذریعے اسے قید و جرمانہ کی سزا سنائی۔ حتیٰ کہ 1939 میں مستونگ کے مقام پر سرداروں نے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے جلسے پر حملہ کردیا اورپولٹیکل ایجنٹ کی ملی بھگت سے خان آف قلات پر پریشر ڈال کر پارٹی کو ریاست میں کالعدم قرار دلوادیا۔
قبائلی جھگڑے خطے میں معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ قبائلی تعصب سے بالاتر ہوکر کر نئی نسل کو جدیدتعلیم سے ہمکنار کرنا ہوگا تاکہ ترقی کے پائیدار اہداف کا حصول ممکن ہوسکے۔