|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2021

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں سیاست کے بجائے روایات اور قبائلی اقدار کو فوقیت دی جاتی ہے صوبے میں بھائی چارگی کی فروغ میں قبائلی اور علاقائی روایات اور رسوم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلوچستان میں قبائلی روایات کو تمام چیزوں پر فوقیت دی جاتی ہے اسی لئے مشہور ہے کہ بلوچ قوم جو قول اور وعدہ کرتے ہیں وہ اسے ہر حال میں پورا کرتا ہے۔

جبکہ وہ ہر نقصان اٹھا کر بھی اپنے وعدے کی پاسداری کرتا یے بلوچستان میں آج کل بلوچی قول میں بھی جمہوریت کی طرح تبدیلیاں آ رہی ہیں اب بلوچیت بھی جمہوریت کی طرح موقع محل کے مطابق فیصلے کر رہی ہے بلوچستان میں اسمبلیاں اور سیاسی جماعتیں چند دنوں میں ہی وجود پذیر ہو کر صاحب اقتدار بن جاتی ہیں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور حکومت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے وزیر اعلیٰ سردار اختر جان مینگل کی وفاق سے اختلافات کے باعث اس وقت کی اسمبلی میں لارجسٹ پارٹی کو توڑ دی گئی۔

جس کے باعث وزارت اعلیٰ سے سردار اختر مینگل کو ہاتھ دھونا پڑا اور بی این پی عوامی وجود میں آئی اس کے بعد 2018 ہی میں مرکز میں نواز شریف حکومت کے ہوتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کے اپنے پارٹی اراکین نے بغاوت کرکے تحریک اعتماد پیش کی تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی نواب ثناء اللہ زہری نے استعفیٰ دیکر ایک بہترین روایت قائم کی بعد میں وہی مسلم لیگ ن کیباغی ممبران نے بلوچستان عوامی پارٹی بنائی جوکہ صوبے کی تاریخ میں مختصر دور میں بننے والی پارٹی صوبے کی اکثریتی پارٹی بن گئی تاہم قوم پرست پارٹیوں کا موقف ہے کہ بلوچستان میں باپ کے باپ نے سلیکشن کرکے نومولود سیاسی جماعت کو عوام پر ہی مسلط کر دیا باپ پارٹی کی جانب سے وزیر اعلی جام کمال خان کو بنایا گیا تین سال سے زائد عرصے تک جام کمال خان کی تعریف وتوصیف فرشتوں سے بھی زیادہ کیا گیا فرشتہ صفت وزیراعلیٰ جام کمال خان کو اگلے ٹرم تک وزیر اعلی بنانے کے دعویداروں نے ہی جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اور بیس اکتوبر کو ہی تحریک پر رائے شماری کی گئی جس پر 33 معزز اراکین نے کٹہرے ہوکر عدم اعتماد کی حمایت کی۔

جبکہ جام کمال خان اب بھی پر امید ہیں کہ وہ اپنے بقایا معیاد یعنی پانچ سال پورے کریں گے جبکہ سیاسی مخالفین اب ایک دن بھی جام کمال خان کو برداشت نہیں کر رہے ہیں اب اصل فیصلہ بروز سوار 25 اکتوبر کو ہی رائے شماری میں ہوگی ناراض اراکین نے اپنے تمام پتے شو کرکے اپنی اکثریت ثابت کر دی ہے جبکہ جام کمال ناراض اراکین کو منت سماجت کرنے کے باوجود اپنی حمایت حاصل کرنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں اسی وجہ سے جام کمال اپنی شکست کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مخالفین کو زیر کرنے کیلئے ان کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی ہے اور پہلی فہرست ناراض اراکین کے چہتے آفیسران کے تبادلے کئے گئے جبکہ باپ کے رہنماء￿ میر ظہور بلیدی نے جام کمال خان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مشیر محنت و افرادی قوت حاجی محمد خان لہڑی کے بھائی میر آصف لہڑی اور پارلیمانی سیکرٹری میر سکندر خان عمرانی کے بھائی میر اکبر خان عمرانی کو گرفتار کرایا گیا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ناراض اراکین اسمبلی اس طرح کی گرفتاریوں سے نہ تو اپنے موقف سے ہٹیں گے اور نہ ہی جام کمال کو واک اوور دینگے۔ اور نہ ہی کوئی رکن جیل و زندان جیسے اقدام سے جام کمال کی حمایت کریں گے؟ اگر ظہور بلیدی اور عبدالرحمن کھیتران کے الزامات درست ہیں تو یہ بلوچستان کے قبائلی روایات اور جمہوری اصولوں کی مکمل خلاف ورزی ہے جمہوریت امن و سلامتی اور محبت اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے مثالی کردار ادا کرتی ہے جیل وزندان اور انتقامی کارروائیاں جھگڑے کو طوالت دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ جام کمال خان والی لسبیلہ ہیں وہ قبائلی روایات اور جمہوری اقدار سے بہتر طور پر بہرہ مند ہیں انہیں اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرنے چاہئے تھے تاہم اقتدار کا نشہ نہ تو قبائلیت سے اور نہ ہی جمہوری روایات سے مرغوب ہوتا ہے۔ کرسی کیلئے انسان ہر حد تک جاتا ہے تاہم نارض اراکین نے اپنی واضح اکثریت شو کرکے جام کمال خان کو باعزت مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے لیکن جام کمال خان بضد ہیں کہ وہ بھی چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی کی طرح فرشتوں کے ذریعے ووٹ حاصل کرکے سب کو حیران وپریشان کرکے جمہوریت کی بحالی کیلئے وزر اعظم کو سرپرائز دینگے تاہم اب دیکھتے ہیں کہ اکثریت جیت جاتی ہے یا اقلیت فرشتے کس کی حمایت کرتے ہیں اور کتنے ووٹ جام کمال کو دلا کر اپنی طاقت کو جمہوریت اور پارلیمان سے بہتر کر سکتے ہیں یہ سب حالات پر ہی منحصر ہیں۔
٭٭٭