|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2021

کیا ایسا نہیں کہ ہم سب کا کوئی نا کوئی ایسا سرکاری کام ضرور ہے جس کے مکمل ہونے کا آپ کو پچھلے چند ماہ سے انتظار ہے؟ یا آپ نے اکثر میٹرک سے ماسٹرز تک کے طلباء وطالبات کو نوکری کیلئے درخواستیں جمع کرتے اور انہیں نوکریوں کی ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے چھ آٹھ یا بارہ مہینہ انتظار کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

کہی بار تو سیخ پا ہوکر سرکاری کاموں کو انجام تک نا پہنچنے پر بے چارے افسروں کو گالیاں ملتے سنا بھی ہوگا۔ بلکہ دی بھی ہوگی؟ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو کام چند دنوں یا گھنٹوں میں ہو سکتی ہے وہ سالہا سال مکمل ہونے کا نام تک نہیں لیتا؟ کوئی شک نہیں کہ آج اور اب بھی آپکی کوئی سرکاری کام اپنے انجام تک پہنچنے کے لئے اپنی وقعت اور اہمیت کھو کر انتظار سے دم تھوڑ رہا ہے؟ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ ایسا نہیں ہونا چائیے تھا مگر ہو کیوں رہا ہے؟ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جہاں پلک جھپکتے ہی انسان میلوں کا سفر طے کرچکا ہوتا ہے۔

جہاں اب مہینوں کے کام دنوں میں اور دنوں کے کام گھنٹوں اور منٹوں تک ہی محدود ہوکر رہہ گئی ہو وہی ہم ٹیکنالوجی کے اس دور جدید میں تیز ترین، ترقی یافتہ اور خوشکن ٹیکنالوجیکل دائرے سے باہر آج بھی مر مر کے کسی ایسے کام کے ہونے کی انتظار کرتے ہیں جو انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی شاید اپنی اہمیت بھی کھو بیٹھی ہو! کیا آپکو بھی ایسا نہیں لگتا کہ سرکاری اداروں کے بجائے پرائیویٹ ادارے ہمارے لئے مفید اور کارگر ثابت ہورہے ہیں؟ ہمیں سترہ گریڈ کے آفیسر سے زیادہ پندرہ ہزار روپئے پہ کام کرنے والا ایک شوخ و شنگ لڑکے کی خدمات حاصل کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہوگی جس پر عوام الناس کی خدمت گزاری کا زمہ اور فرض بھی تو نہیں۔ مگر پھر بھی ہمیں سرکاری اداروں سے زیادہ پرائیویٹ اداروں سے خدمات حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ آج پتہ لگنے ہی لگا کہ ہمیں سرکاری دفتروں سے گن کیوں آنے لگتی ہے، کیونکہ جہاں جو کام تین دنوں میں ہوسکتی ہے وہی کام یا کاغذات سرکاری دفاتر میں مہینوں دھول اور مٹی میں چھپی کسی آفیسر کی ہاتھوں دستخط ہونے کا منتظر ہوتی ہے جو دفتر میں موجود بھی ہے مگر کسی غیر روح دار جسم کی طرح جو کسی کام کا نہیں ہوتا۔ گھوسٹ اسکولوں، ہسپتالوں اور کالجوں کی طرح گوسٹ دفاتر بھی کیوں نا کہا جائے جن میں لوگ یا تو موجود نہیں ہوتے یا تو موجود ہوکر کسی کام کے بھی نہیں ہوتے۔

یہ ستمبر 2019 کی بات ہے جب کوئٹہ سے کسی دوست کی فون کال موصول ہوئی جنہوں نے یہ زمہ داری لگاکر فون کال بند کردیا کہ جس یونیورسٹی میں آپ پڑھتے ہیں وہاں کسی کی داخلے کیلئے فارم بھر کر مجھے سلپ بھجوا دینا۔ خیر کام کرکے سلپ بھجوانے جب بازار پہنچا تو خیال آیا کہ کیوں نا چار سو بچا کر صرف پچاس روپے میں سرکاری پوسٹ آفس سے ہی کاغذات بجھوادیا جائے، پوسٹ آفس اس خدمت کیلئے ہی تو بنی ہے پھر ٹی سی ایس کیوں؟ سوچا کام بھی ہوجائے گی اور اسٹوڈنٹ لائف میں پیسے بھی بچت کر پاہونگا۔ مگر یقین مانے دو سال گزرنے کے باوجود وہ کاغذات کسی سرکاری آفیسر کی کھوٹڑی میں اسکی دستخط کے انتظار میں ہمیں ملنے سے رہہ ہی گئے۔ دو سال بعد اب بھی خیال آتا ہے کہ کاش وہ چار سو کا خیال رکھے بغیر ٹی سی ایس سے کاغذات بھجوا دیتا تو نا مجھے اتنا طویل انتظار کرنا پڑتا اور نا ہی ان بچارے کاغزات کو دھول چاٹنے کی ضرورت ہوتی۔

اس ملک کا سرکاری نظام ایسا فرسودہ، دقیانوسی اور بیکار ہے کہ کاغزات، آرڈرز، پیسے یا کچھ بھی اپنا معیار اور اہمیت کھو بیٹھے گا مگر مجال کہ سیدھے وقت پر اپنے موصول کرنے والے کے ہاتھوں لگ جائے، جب کوئی شے ضرورت کے وقت میسر نہ ہو اسکے بعد میں ملنے یا نہ ملنے کا کیا فائدہ؟ ایسا ہی کچھ ملک کے اصل اثاثہ جات یعنی 64 فیصد نوجوانوں کے ساتھ ہے جنہوں نے نوکریوں کے لیے درخواستیں جمع کرکے ایک، دو اور پھر تین برس تک انتظار کرنے کا بھی سوچ کر رکھنا ہوگا کہ شاید کہی ان نوکریوں کا اتا پتہ ہو، شاید اس نوکری کے لئے اسے بلا لیا جائے یا پھر بھلا ہی لیا جائے! یا پھر اتنی دیر لگادی جائے کہ اسے ہی اس نوکری کو بھلانے پر مجبور کیاجائے۔ ایک دوست کہہ رہیں تھے کہ اس کی کمائی سے زیادہ ہزاروں روپے تو صرف نوکریوں کیلئے کاغذات جمع کرنے صَرف ہوئے ہیں۔ تو بھلا یہ کونسا نظام ہے جو نوکری تو نہیں دیتی مگر جیب میں رکھیں چار آنے پر مشتمل پیسوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔
کیا پرائیویٹ اداروں کی طرح سرکاری طور پر بھی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹنگ سسٹم رائج نہیں کیا جاسکتا؟ اس دور جدید میں جہاں دنیا ٹیکنالوجی سے بائیوٹک کی طرف قدم بڑھا رہی ہے اور ہم وہی دقیانوسی زمانے کے رجسٹرز پر چار لکیریں کھینچ کر لوگوں کا نام لکھتے جاتے ہیں جس کے بعد پتہ و نام بھی مٹی کے ڈھیر تلے زیر ہوجاتے ہے اور رہہ جاتا ہے تو بس انتظار۔ عوام کی جان تو مہنگاہی، بیروزگاری اور سیاست میں رکھی خالص جھوٹ نے نکال دی ہے اور اوپر سے یہ ادارے، انتظار اور وہ نظام جس میں بیٹھے لوگوں کو خود بھی اس سے گِن آنے لگتی ہے۔

اگر ہمارے ادارے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ٹھیک سے آگے بڑہیں اور نئے نظام متعارف کروائیں، تبدیلی کے ساتھ ہی خود کو بدل دیں تو شاید یہ ملک کی مستقبل کیلئے ایک انوکھی تدبیر ثابت ہو۔ وگرنہ حکمران سوتے رہیں، آفیسر حضرات گھوسٹ دفتروں میں نخریں دکھائے اور عوام انتظار میں گالم گلوج کرتے ہوئے تھکی ہاری زندگی بسر کریں۔۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہوگا! کسی کا کچھ بھی تو نہیں بگڑتا نہ۔