|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2021

سوشل میڈیا میں ایک تصویر نظروں سے گزری جس میں ایک شخص پلے کارڈ تھامے کھڑا ہے جس پر عبارت تحریر ہے کہ ” ملیر میرا وجود ہے اسے مجھ سے مت چھینو”
ابن آدم زمین کے جس حصے میں جنم لیتا ہے وہاں کی خاک سے تاحیات اس کا روحانی رشتہ جڑ جاتا ہے اور اس زمین سے جڑی ہر شے اس کے لئے محبوب کی مانند ہوجاتی ہے اور اس میں حب الوطنی پیوست ہو کر رہ جاتی ہے جو ایک فطری جذبہ ہے.
ملیر کی زرخیز زمین گزشتہ کہیں دہائیوں سے سرمایہ داروں کے شکنجے میں ہے اس زمین میں اب آب و گِل کی نمو قصہ پارینہ بن چکی اور نہ یہاں اب انگور، امرود، پپیتا ،آم، کیلا، تربوز، خربوزہ اور چیکو سمیت دیگر پھلوں اور سبزیوں کے باٍغات ہیں اور پرندے بھی اس فضا کا رخ نہیں کرتے ملیر کی تتیا مرچ بھی قصہ پارینہ بن گئی ہے۔
انگریزی حکومت کے دور میں کراچی شہر کے لئے پینے کا پانی فراہم کرنے والا ملیر اب خود تشنہ لبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔70 برس سے شہر کی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر کے لئے ریتی بجری دریائے ملیر کا سینہ چیر نکالی جارہی ہے۔ملیر کی زرخیزی کی بدولت 1899 ء تک کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کے درآمد کا مرکز تھا اور اب ملیر کے سرسبز کھیتوں اور شاداب چراگاہوں میں طائروں کے چہچہانے کی آوازیں نہیں بلکہ ہر طرف آہ و بکا گونج رہی ہے، اک ہنگامہ برپا ہے اور زباں پر ایک ہی صدا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبہ ان کے سینے پر خنجر ہے مگر سندھ حکومت بدستور ملیر ایکسپریس وے منصوبہ کو “معاشی ترقی” قرار دے رہی ہے جبکہ ماہرین کے مطابق معاشی ترقی کا انحصار، تعلیم و صحت اور ذرائع معاش کے بہتر مواقع کی فراہمی معاشی ترقی کی معاونت کے لئے بنیادی جزو ہیں اور معاشی ترقی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ
انسان میں اضطراب، خوف، روحانی اذیت یا کہیں سے کوئی خطرہ محسوس نہ کیا جارہا ہو تو تب ہی وہ معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ کہلائے جانے کا حق دار ہے۔
ملیر ایکسپریس وے منصوبہ کے خلاف ملیر کے عوام شدید بے چینی ، خوف اور سراسیمیگی میں مبتلا ہیں۔ انہیں حکومت کے اس منصوبہ سے ملیر کے وجود کے خاتمہ کا خطرہ محسوس ہورہا ہے عوام کی اس کیفیت میں ہر گزرتے لمحے میں مزید شدت آتی جارہی ہے اور اس کیفیت کے سدباب کے لئے انہیں کوئی مسیحا نظر نہیں آرہا یہی وجہ ہے کہ وہ خود ہی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ملیر ایکسپریس وے منصوبہ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
حکومت وقت کی کسی پالیسی یا عمل کے ذریعے اگر آئینی و قانونی حقوق سلب ہورہے ہوں تو عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ اس کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کے ذریعے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرکے حکومت تک اپنا پیغام پہنچائیں تاکہ وہ عوام کی بے چینی و اضطرابی کیفیت کو دور کرنے کے لئے اپنے پالیسی یا عمل پر نظر ثانی کرے جس کے سبب عوام سراپا احتجاج ہیں۔
جمہوری نظام کے تحت ووٹ کے ذریعے منتخب نمائندوں کی آئینی و قانونی بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ عوام کے حقوق اور مفادات کے محافظ بنیں مگر ملیر میں معاملہ اس کے برعکس ہے قدیمی لوگوں کی کشتی “ملیر ایکسپریس وے” کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے لیڈر شپ کا فقدان اور سیاست دانوں کی ایک بھیڑ نظر آرہی ہے اور ان کی نظریں آئندہ انتخابات پر ہیں اگر کوئی لیڈر ہوتا تو وہ “حبِ کرسی” کے بجائے حب الوطنی کو ترجیح دیتے ہوئے عوام کی وسیع تر مفادات کا تحفظ کرتا کیونکہ عوام کی حقیقی ترجمانی اور انہیں منزل تک پہنچانے کیلئے غیر متزلزل عزم و حوصلے کے حامل لیڈر شپ درکار ہوتی ہے۔
ضلع ملیر کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، جام عبدالکریم جوکھیو، آغا رفیع اللہ، ساجد جوکھیو، سلیم بلوچ، یوسف بلوچ، محمود عالم جاموٹ، راجہ رزاق، شاہینہ شیر علی اور سابق رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ کے دستخط ہیں ان سب کا تعلق سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے ان میں سے ساجد جوکھیو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی کابینہ میں شامل ہیں جبکہ سلیم بلوچ اور یوسف بلوچ پارلیمانی سیکریٹریز بھی ہیں بظاہر تو اس طرح کا خط لکھنا ایک عام سی بات ہے مگر یہ خط سندھ حکومت کے خلاف چارج شیٹ سے کم نہیں جس میں ملیر ایکسپریس وے کی خامیوں کی نشاندہی کرکے اس منصوبہ کا روٹ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ” ملیر ایکسپریس وے ” منصوبہ کے منظور شدہ روٹ کی وجہ سے قدیمی گوٹھوں کے ہزاروں مکین بے گھر ہوں گے اور اس سے ضلع ملیر کی زرعی اراضی و گرین بیلٹ تباہ ہو جائے گی مزید برآں ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس سے قدیم باشندے اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے جبکہ منصوبے کا روٹ بائیں جانب سے دائیں جانب کرنے سے حکومت کو 4 ارب روپے کی بچت بھی ہوگی۔
اس خط نے سندھ حکومت کی کارگردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت ماحولیات سے متعلق امور صوبوں کو منتقل ہوئے جس کی بنیاد پر صوبے میں سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ایکٹ 2014 کے ذریعے صوبہ کے قدرتی وسائل و ماحولیات کو تحفظ فراہم کیا گیا اس قانون کے مطابق ترقیاتی منصوبوں کے لئے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور ماحولیات کی تجزیاتی رپورٹ کے نتائج کو عوامی سطح پر مشتہر کرنا ضروری قرار دیا گیا مگر ملیر ایکسپریس وے منصوبہ کے لئے اس قانون کے تحت ماحولیاتی معیارات و تقاضوں کی سنگین خلاف ورزی کی گئی اور منصوبہ سازوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں ملیر ایکسپریس وے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھوا کر انہیں بھی شریک جرم بنالیا۔
سندھ حکومت نے ایک بار پھر ضلع ملیر کے منتخب عوامی نمائندوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اب منصوبہ کا روٹ تبدیل کرکے ملیر ندی کی بائیں جانب کے بجائے اب دائیں جانب تعمیر کیا جائے گا مگر ہنوز دلّی دور است۔