|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2021

کوئٹہ: سیاسی وسماجی رہنماؤں اورصحافیوں نے کہا ہے کہ بلوچستان مختلف اقوام اورمذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کاگلدستہ ہے یہاں پررہنے والے بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی ،ہندو، سکھ اورکرسچن بھائی بھائی ہیں ، گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں حالات تبدیل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آپس میں دوریاں بڑھ گئے ہیں بحیثیت ذمہ دارشہری ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لاکرپرانی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے عملی کرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کااظہارہارڈبلوچستان کے ایگزیکٹیوڈائریکٹرضیاء بلوچ، جہاں آراء تبسم، شمائلہ اسماعیل، نوابزادہ ہارون رئیسانی، کاشف بلوچ، احمدنوازبلوچ، انوربلوچ، بجار خان مری، غلام فاروق شاہوانی، شیزان ولیم، سیماکنول، سردارجسپیرسنگھ، سینئرصحافی رشیدبلوچ، ظفربلوچ، منظوربلوچ ودیگر نے کہا کہ ہارڈبلوچستان کے زیراہتمام اقلیتوں کے مسائل اوران کے حقوق کے عنوان پرکوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سیمینارکے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینارمیں اقلیتی برادری سمیت ، سول سوسائٹی، صحافیوں اورخواتین شریک تھے۔

اس موقع پر نوابزادہ ہارون رئیسانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں سمیت دیگرمکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کاتحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، اقلیتوں کے لئے مختص پانچ فیصدکوٹے پرعمل درآمدیقینی بنانے کیلئے سروے کیاجائے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں رہنے والے بلوچ، پشتون، سندھی، پنجابی ، ہندو، سکھ، کرسچن سب ایک ہیں، بین الاقوامی گیم کے تحت گزشتہ چنددہائیوں سے ہمارے خطے میںحالات کو خراب کیاجارہا ہے اس سے قبل ہمارے درمیان کوئی فرق نہیں تھا ہندوسکھ اورعیسائی برادری سب ایک ساتھ رہتے تھے ، انہوں نے کہا کہ یہ ہماری نہیں امریکہ کی جنگ ہے جو وہ یہاں بیٹھ کر معاملات کو چلاتے ہیں، اورہمارے ملک کے اندرونی معاملات کو باہرممالک میں جاکراچالاجاتا ہے جواچھی روایت نہیں ہے۔سینئرصحافی رشیدبلوچ نے کہا کہ گزشتہ چنددہائیوں سے بلوچستان میں حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔

اس کے ساتھ لوگوںکے رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے جس کوبدلنے کے لئے ہمیں خود سے ابتداء کرناہوگا۔کوئٹہ پریس کلب کے سابق جنرل سیکریٹری ظفربلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے صحافیوں نے اپنی ذمہ داریاں ایمانداری کے ساتھ نبھاتے ہوئے صوبے کے مسائل کواجاگرکیاہے ، انہوں نے کہا کہ موجودہ دورحکومت میں میڈیاپرپابندیاںعائدکی گئی ہیں اورہمارے سینکڑوں ورکروں کو فارغ کردیاگیا ہے مگراس بارے میں آج تک کسی نے بات تک نہیں کی،جس کی مثال سینئرصحافی حامدمیراورہمارے دیگردوست ہیں جن کواسکرین سے آف ایئرکردیاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود ایک مشکل صورتحال سے گزررہے ہیں ،واضح رہے کہ میڈیابھی ملکی قوانین کاپابندہے تاہم کسی غلطی کی صورت میں ہم پربھی بھاری جرمانے عائد کرکے پروگرامزتک بندکردیئے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مختلف میڈیاہاؤسزمیںایک ہی رپورٹردن بھربہت سارے بیٹ کی کوریج کرتاہے جس کی وجہ سے کام کادباؤبھی بڑھ جاتاہے مگراس کے باوجودہم نے اقلیتوں سمیت تمام اقوام کے مسائل کواجاگرکیا۔

اس موقع پر دیگرمقررین نے کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورہمارے نبی نے دیگرمذاہب کااحترام کرنے کادرس دیاہے،انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق اوران کے مسائل کے بارے میں ہمیں صرف باتوں کی حد تک محدودرہنانہیں چاہئے بلکہ معاشرے پران چیزوں عمل کرتے ہوئے آپس میں باہمی اتفاق اورپیارومحبت کوفروغ دیناہوگا، میڈیاکے ذریعے پالیسی ڈائیلاگ، سول سوسائٹی اوردیگرمکاتب فکرکے ساتھ بات چیت کرکے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیناہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نفرتوںکوختم کرنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ اوررویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، اپنے بچوں کوان چیزوں سے دوررکھناہوگا۔