|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2021

تحریر: سنگت ظفر بلوچ
زمانہ قدیم میں سیاسی رہنماء سماج کے فلاح و بہبودکے لیے ہروقت فکر مند رہتے۔ ذات پات، نسل، قوم ،تہذیب ،مذہب سب سے بالاتر ہو کر سیاست انسانیت کیلئے درد رکھتا جس میں تمام انسانیت کا سکھ شامل ہوتا تھا۔لیکن اب اگر ہمارے سیاسی معاشرے کو پرکھا جائے تو سماج کے جذبات سے کھیل کر انکے احساسات کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ سیاست بطور عبادت کوئی ترجیح نہیں رہی بلکہ اب ذریعہ معاش بن چکا ہے۔ آج اس سماج کی بدحالیوں کے پیچھے سیاسی قیادت مفادات حاصل کررہی ہے ۔ لوگ بھوک افلاس غربت اور بیروزگاری سمیت دیگر گْھٹن سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اور سیاستدان عوام کی بے بسی پر تماشائی بن کر گِدھ کی طرح انہیںنوچنے کے لیے تیار ہیں۔
سودی نظام، حرام حلال میں تمیز نہیں، رشوت کا بازار گرم، انسانیت کا قتل عام، مہنگائی کا راج، آئینی بحران، ناانصافی کے عروج سمیت دیگر انسان سوز واقعات میں ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمران ریاست مدینہ کے فلاحی ریاست کی توہین کررہے ہیں۔ پھر بھی نام ایک مقدس ریاست کا لیا جاتا ہے حالانکہ کسی فلاحی ریاست میں اس طرح کے ظلم کسی بھی طرح قابل برداشت نہیں ہوتے مگر یہاں سب کچھ ہونے کے باوجود ریاست مدینہ کی بات ہورہی ہے۔
نبی پاک انسانیت کیلئے رحمت اللہ عالمین تھے، وہ نہ صرف مسلمانوں کی آسانیوں کیلئے فکرمند رہتے بلکہ تمام انسانیت کے سکون کیلئے یکساں قوانین لاگو کرتے، ان قوانین میں پوری انسانیت کی تسکین تھی اس لئے وہ رحمت اللہ عالمین کہلائے۔
سیدنا عمر کی جیسی فلاحی ریاست تشکیل دینے کی بات ہمارے حکمرانوں کے منہ سے اچھا نہیں لگتا کیونکہ سیدنا عمر انصاف کاپیکر تھے۔ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں انصاف کو ایساعملی جامہ پہنایا کہ اسکے بعد تمام حکمرانوں کیلئے وہ مشعل راہ ثابت ہوئے۔ سیدنا عمر ہر وقت سماج کیلئے فکرمند رہتے اور ہرممکن سماج کو انصاف دلانے کی کوشش کرتے، اسی کوشش میں 22لاکھ مربع میل تک اسلامی فلاحی ریاست پھیل گئی حتیٰ کہ انہوں نے سپر طاقتوں کو بھی عبرتناک شکست دی۔
ہمارے سماج میں اب نہ سیدنا عمر کی طرح کی سیاست رہی اور نہ ہی کوئی اس کا مشعل راہ پر چلنے والا۔ سیاستدان عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے میں مصروف اپنی باری کے انتظار میں ہیں جبکہ حکمران عوام کی بربادی کیلئے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں۔ قتل و غارت گری کے بازار میں ہر گھر سوگوار ہے، بھوک و افلاس سے ہر چہرہ اداس ہے، ہر طرف مایوسی کا راج ہے، ناانصافی اپنے عروج پر ہے، عوام کا جینا محال ہے۔مگر نہ کوئی حکمران سیدنا عمر کو مشعل راہ سمجھ کر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اور نہ ہی کوئی سیاستدان ناانصافیوں کے خلاف اْبھرتا ہے۔ سب گفتار کے غازی عوام کو گِدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔ اس لئے عوامی اعتماد اب موجودہ براہ فروخت سیاستدانوں سے اٹھ چکا ہے۔ سوداگر سیاستدانوں کو خرید رہے ہیں اور سیاستدان براہ فروخت کے بورڈ لگاکر گھوم رہے ہیں۔