|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2021

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مرکز کوگوادر سے کراچی منتقل کرنے کے فیصلے کے بعد کراچی کی ساحلی پٹی کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ قاسم پورٹ سے لیکر کراچی پورٹ، دیھہ لال بکھر (ہاکس بے)، راس موری (کیپ ماؤنز) سمیت مبارک ولیج تک پھیلی ہوئی ساحلی پٹی پر مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس پٹی پر سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل مزیدگھمبیر اور بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ حکومتی پالیسیوں پر منحصر ہے کہ آیا وہ مقامی ماہی گیر بستیوں کے لئے مثبت حکمت عملی مرتب کرے گی یا منفی پالیسیاں بنائے گی۔ آیا حکومت کے پاس سمندر کے کنارے آباد قدیم بستیوں کے معاشی و سماجی مسائل کے خاتمے کیلیے کونسی جامع پالیسی ہے؟ سی پیک سے ساحلی پٹی کی سماجی اور معاشی پسماندگی کو کس طرح دور کیا جائے گا؟

مقامی آبادی اس منصوبے سے کس طرح مستفید ہوگی؟ سی پیک کے فوائد مقامی ماہی گیروں تک کیسے پہنچیں گے؟ اگر ہے تو کس طرح کی پالیسی ہے؟ ابھی تک ماہی گیروں کے نمائندوں کو سی پیک کے تحت بننے والے منصوبوں کے بارے میں آگاہ نہیں کیاگیا۔ حکومت کو ماہی گیر کمیونٹی کے نمائندوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ جن میں ہر علاقے کے سابق کونسلرز اور سربراہوں سمیت فشر مینز کو آپریٹیو سوسائٹی، علاقے کے ارکان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی شامل ہیں۔ ان نمائندوں کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔ انہیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہے۔ منصوبے میں ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جس سے مقامی افرادکااعتماد بحال ہو، وہ سی پیک کے منصوبوںسے مستفیض ہوسکیں ورنہ یہاں بھی سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل جنم لیں گے۔

سننے میں یہ آرہا ہے کہ کراچی پورٹ کو توسیع دی جائیگی۔ قاسم پورٹ کوگوادر پورٹ کی حیثیت (مرکزی) دی جائیگی۔ دیھہ لال بکھر (ہاکس بے) میں بجلی گھروں کا قیام جاری ہے اور مبارک ولیج اور راس موری کے درمیانی مقام پر سعودی عرب ایک آئل ریفائنری قائم کریگا۔ یہ سارے منصوبے ماہی گیر بسیتوں کے اردگرد بن رہے ہیں۔ جن میں شمس پیر، بابا بھٹ ، یونس آباد، کھکا پیر ، دیہہ لال بکھر، مبارک ولیج، ابراہیم حیدری، لٹھ بستی سمیت دیگر ماہی گیر بستیاں شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے قیام پر مقامی آبادیاں عدم تحفظ کا اظہار کررہی ہیں۔ وہ اپنے گھروں سے بے دخلی جیسی صورتحال پر تشویش کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں سے بننے سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہونگے۔ ان کی اراضی پر قبضہ کیا جائیگا۔ جبکہ سمندر میں مچھلی کے شکار کے مخصوص جگہوں پر پابندی بھی عائدہوسکتی ہے۔

ان کے خدشات کو دور کرنے کے لئے قانونی تحفظ درکار ہوگا۔ قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ اعتماد بحال ہوسکے۔ انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ سی پیک کے منصوبوں سے انہیں کوئی بھی نقصان نہیں ہوگا بلکہ ان کو فائدہ ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کراچی بندر گاہ کے احاطے میں بے شمار قدیم ماہی گیر جزائر ہیں جہاں کے ماہی گیر بیک واٹر میں بھی ماہی گیری کرتے ہیں۔ پورٹ کی توسیع سے ان کے مچھلی کے شکار کی جگہ کا خاتمہ ہوگا وہاں کمرشل سرگرمیاں ہوں گی، نئے برتھ بنائے جائیں گے۔ کنارے پر صنعتی زونز کا قیام ہوگا۔مبارک ولیج اور کیپ ماؤنز (راس موری) کے مقام پر ایک ملکی فاؤنڈیشن ایک سعودی کمپنی کے اشتراک یا مدد سے ایک آئل ریفائنری کمپنی بنانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے جس سے راس موری اور مبارک ولیج کا ساحل ماحولیاتی لحاظ سے تباہ ہوجائیگا۔ اور وہاں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی۔ اس منصوبے سے تین سوسال پرانی بلوچ ماہی گیروں کی پوری آبادی بھی متاثر ہوں گی اور خوبصورت ساحل سمندرگندگی کا شکار ہوجائیگا۔ یہاں پر ماہی گیروں کے معاشی حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ اس پر کسی بھی قسم کی تعمیرات سے ماحول اور آبادی متاثر نہ ہوجائے ۔ ان کے روزگار کے وسائل کی حفاظت کی جائے اور مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو منصوبے میں روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔

میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) ایک بین الاقوامی قانون ہے جس کا مقصد نایاب نسل کے آبی جانداروں کی نسل کو محفوظ رکھنا ہے جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیںان میں وھیل مچھلی، ڈولفن، کچھوے اور دیگر آبی حیات شامل ہیں۔کیونکہ کمرشل بنیادوں پر منصوبوں کو روکنا ہے۔ وھیل مچھلی، ڈولفن، کچھوے اور دیگر آبی حیات کی بڑی تعداد کیپ ماؤنز، کراچی (راس موری) میں پائی جاتی ہے۔ یہ علاقہ ایکالوجیکلی اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے جبکہ مبارک ولیج کے پہاڑی علاقوں میں بڑی تعداد میں گیدڑ، لومڑی، خرگوش اور پرندوں میں ایگل، تیتر کبوتر اور دیگر پائے جاتے ہیں۔ آئل ریفائنری بننے سے نہ صرف ان جانوروں کی پناہ گاہیں ختم ہوجاتی ہیں بلکہ کنارے میں موجود آبی پرندوں کی پناہ گاہیں بھی تباہ ہوجائیں گی۔

اس تناظر میں ماحولیاتی تنظیمیں اور مقامی افراد میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ راس موری اور مبارک ولیج کے مقام پر آئل ریفائنری منصوبے کو ترک کیا جائے۔ اور راس موری کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا قراردیا جائے۔
دیہہ لال بکھر (ہاکس بے) اور مبارک ولیج قدیم سندھی اور بلوچ علاقے ہیں جہاں مختلف قدیم گوٹھ آباد ہیں۔ دیہہ لال بکھر میں جوہری توانائی کے منصوبے (کینپ )کے پاور پلانٹ ٹو اور کے تھری سی پیک کے تحت قائم کئے گئے ہیں جہاں مقامی افراد کے لئے روزگار کے دروازے بند ہیں۔

ہم نے یہ دیکھا کہ سی پیک میں زراعت کو شامل کیاگیا جبکہ ماہی گیری کی صنعت کو شامل ہی نہیں کیاگیا۔ سی پیک میں ماہی گیری کی صنعت کو مکمل طور پر نظرانداز کیاگیا۔ سندھ کی ساحلی پٹی تین سے چار سو کلو میٹر طویل ہے۔ ساحلی پٹی کے 90 فیصد لوگ ماہی گیری سے تعلق رکھتے ہیں۔ سی پیک منصوبے کے تحت ماہی گیروں کی کشتیوں کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں جال اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔ سی پیک منصوبے کے تحت منجھار گوٹھ، مبارک ولیج، سومار گوٹھ، عبدالرحمان گوٹھ، عبداللہ گوٹھ، شمس پیر، کھکا پیر سمیت دیگر ماہی گیر بستیوں میں چھوٹی چھوٹی فش ہاربرز (بندرگاہیں) بنائی جائیں۔ علاوہ ازیں ماہی گیروں کے لئے کولڈ اسٹوریجز کا قیام ضروری ہے۔ تاکہ سی فوڈ بین الاقوامی معیار کے مطابق تیارہوسکے اور وہ پورٹ کے ذریعے پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوسکے جس سے ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوسکے گا اور ماہی گیر بھی خوشحال ہوں گے۔ ماہی گیروں کی معاشی تحفظ کے لئے ڈیپ سی ٹرالنگ کو بند کیا جائے۔ لیکن حکومت اس کے برعکس کام کررہی ہے۔

سی پیک کے تحت ماہی گیر بستیوں میں تعلیم و تربیت کو فروغ دیا جائے۔ وہاں تعلیمی ادارے کے قیام کو یقینی بنائی جائے۔ پروفیشنل ایجوکیشن انسٹیٹیوٹس کا قیام ضروری ہے۔ جن میں پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹس اور ٹیکنیکل ٹریننگ ووکیشنل سنٹرز شامل ہیں۔ ساتھ ساتھ وومن ووکینشنل سینٹرز کا قیام بھی ضروری ہے۔ساحلی پٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے اسکالرشپ کا منصوبہ بنانا چاہئے تاکہ یہاں کے نوجوان سی پیک کے منصوبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔
مقامی ماہی گیر نمائندوں کو نہ صرف اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں سرکاری طورپر اسٹیک ہولڈرز کی حیثیت دی جائے۔ اس کے لئے قانونی سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سی پیک کراچی میں ایک صحیح سمت میں کی جانب گامزن ہوسکے۔ وگرنہ سی پیک کا سمت ساحل کے بجائے گہرے سمندر کی طرف مڑ سکتا ہے جہاں سمندر برد ہونے کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔