یہ ایک ہفتہ قبل کی بات ہے کہ میں اور ڈاکٹر عزیز ایک تعلیمی سیمینار میں پہلی صف پر لگائی گئی کرسیوں پر ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔اکتوبر کے مہینے میں یہ دوسرا موقع تھا کہ ہم ایک ساتھ کسی پروگرام میں شرکت کررہے تھے۔ میں نے حسب معمول ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی کہ اب آپ ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں کیا اچھا ہو کہ آپ اپنی آٹو بائیوگرافی لکھیں۔ کہنے لگے “اگر زندگی نے ساتھ دیا ضرور یہ کام کرونگا۔’ میں نے جواباً کہا کہ اللہ پاک آپ کو اچھی صحت عطاء فرمائے۔ پھر میں نے ڈاکٹر صاحب سے استفسار کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو سخت دور کا کب سامنا رہا تھا؟ کہنے لگے “وہ دور جب ہمیں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ماؤ ماؤ کے طعنے دیئے گئے”۔
اِس مجلس سے قبل نیشنل پارٹی کے زیراہتمام ڈاکٹر کہور خان کے اعزاز میں گوادر پریس کلب میں منعقدہ پروگرام میں بھی میرے اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان گفتگو ہوئی تھی۔ جس میں میرا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ملٹی ڈائیمنشنل شخصیت ہیں۔ سیاست، طب کا پیشہ، سماجی سرگرمیوں، ادب میں لگاؤ، مطالعہ یہ آپ کی شخصیت کا خاصا ہیں۔ اگر بالفرض آپ سیاست اور پیشہ ورانہ امور پر قلم کشائی کرتے ہیں تو ایک طرف بلوچستان کے قوم دوست سیاست اور تاریخ کو بھی موضوع بناکر اس کو محفوظ کریں تاکہ نئی نسل اِس سے استفادہ کریں اور آگے چل کر اْن کو آپ کے طفیل رہنمائی کا شرف بھی حاصل ہوسکے؟ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا لیکن جیسا ڈاکٹر صاحب کہنا تھا زندگی نے ان کے ساتھ وفاء نہیں کیا اور وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
ڈاکٹر عزیز ایک قوم دوست، روشن فکر، ترقی پسند سیاسی اور نظریاتی اصولوں پر قائم رہنے والے کامریڈوں کی صف میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ستر اور اَسی کی دہائی میں سویت کیمپ کی امید پر تبدیلی لانے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔ زمانہ طالب علمی کے دوران ڈاکٹر صاحب غنی پرواز کے ساتھ نظریاتی طورپر یکجاء ہوتے ہیں۔ اِس کے بعد دونوں کے بی ایس او کے دوستوں کے ساتھ اختلاف جنم لیتے ہیں۔ بی ایس او کے دوست دونوں کو ماؤسٹ قرار دیتے ہیں۔ اْس زمانے میں جب بھی بی ایس او والے غنی پرواز اور ڈاکٹر عزیز لابی کو جہاں بھی دیکھتے تو ان کو ماؤ ماؤ کے طعنے کھستے۔ اِس طوفان بدتمیزی کے خلاف غنی پرواز اْس زمانے میں ماؤ ازم کیا ہے؟ کے عنوان پر کتاب تصنیف کرکے اپنا مؤقف بیان کرتے ہیں۔
یوں وقت گزرتا ہے۔ سویت یونین جو کہ بی ایس او اور پروفیسر غنی پرواز کے ساتھیوں کا فکری اور نظریاتی قلعہ تھا شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔ بی ایس او سے فارغ شدہ سینئر دوست بی این وائی ایم، پی وائی ایم اس کے بعد بی این ایم تشکیل دے کر پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتے ہیں جس کے بعد وہ وزیر منتخب ہوتے ہیں۔ دوسری طرف غنی پرواز اور ڈاکٹر عزیز سمیت بہت سارے دوست عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے سرکاری ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ جو سرکاری ملازمت کا حصہ نہ بن سکے وہ سیاست میں حصہ لیتے ہیں اس طرح مارکس ازم اور لینن ازم کے رومانس کا سحر ختم ہو جاتا ہے۔
میری ڈاکٹر صاحب سے شناسائی نوے کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم کچھ دوست طلبہ سیاست سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی یعنی پی این پی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پہلے سے ہی پی این پی کے مقامی سرگرم رہنماء تھے۔ اْس وقت پی این پی کے صدر میر بزن بزنجو اور سیکریٹری جنرل حفیظ پیرزادہ تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ناکو حسین اشرف کی ایم پی اے شپ کے دوسرے ٹرم کا آخری سال چل رہا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا ناکو حسین اشرف اور کپٹن سلیمان کے ساتھ قریبی سیاسی رفاقت قائم تھی۔ اْس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کا ملا موسیٰ موڈ پر کلینک بھی واقع تھا جہاں شے علی بھی ان کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ کلینک میں بیماروں کے علاج کے علاوہ مجھ جیسے جونیئر ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات پر ڈاکٹر صاحب سے حال حوال بھی کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے نزدیکی اور ان کی شخصیت پر غور کرنے کے بعد میں نے یہی اخذ کیا کہ ڈاکٹر صاحب ایک بے غرض، بے لوث، بلوچ دوست، ترقی پسند اور روشن فکر کی حامل شخصیت کے مالک ہیں۔ اْن کو اپنی مٹی سے بے پناہ محبت تھی۔
مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک شام میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر بیٹھا تھا۔ اْس روز ڈاکٹر صاحب نے این جی اوز کے کردار پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا “ملکی اور غیر ملکی این جی اوز ہمارے معاشرے کو غیر سیاسی پن کی طرف لے جارہے ہیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے سیاسی لوگ پر کشش تنخواہ کے عوض این جی اوز کا حصہ بن گئے ہیں جو دھیرے دھیرے سیاسی بیگانگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ روش بلوچ سماج کے لئے بہت تباہ کن ثابت ہوگی”۔ اس موضوع پر ہماری ڈاکٹر صاحب سے اچھی خاصی بحث بھی ہوئی تھی۔
میرے مطابق ڈاکٹر صاحب کا یہ موقف ایک حد تک درست بھی تھا۔ اگر ہم سازشی تھیوری کو ایک منٹ کے لئے الگ رکھ کر اِس کو پرکھیں تو این جی اوز کا عمومی مقصد بھی یہی ہے کہ سماجی تبدیلی اور اصلاح لائی جائے۔ چہ جائے کہ اْن کا ہدف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو ان کے پاس ریاستی اداروں کا کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ عوام کی بہتری کے لئے پالیسیاں مرتب کرتی ہیںجوسماج کے بڑے سے بڑے ٹائکون اور مزدور تک کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سماج کا ہر طبقہ سیاست میں حصہ لے۔ البتہ سیاسی شعور سماج کے ہر طبقہ میں موجود ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے لئے وژنری اور دیانت دار رہنماء کا انتخاب کرسکیں۔
ہر ایک کو یہ شخصی آزادی حاصل ہونا چاہیئے کہ وہ عملی سیاست کا حصہ بنے یا این جی اوز میں شامل ہو۔ چاہے وہ پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھے یا اپنے قلم کا استعمال کرے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ ان کی سوچ کا بنیادی محور سماج میں تبدیلی لانے، عوام کو سہولت کی فراہمی اور ترقی ہو۔ سماج ایک طرح سیاست، معیشت، ادب، اسپورٹس، تجارت، اسپورٹس، فن اور مذہبی سرگرمیوں کے مجموعہ کا نام ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ڈاکٹر صاحب کا ایک سیاسی کریٹیکل ایونٹ آج بھی ذہن نشین ہے۔ یہ 1998 کا سال ہے۔ اس وقت اختر مینگل وزیر اعلٰی بلوچستان تھے۔ بی این پی کا مرکزی کونسل سیشن جاری تھا۔ بند اجلاس میں پارٹی دولخت ہوتی ہے۔ گوادر کے پارٹی دوست کپٹن سلیمان کی قیادت میں میر بزن بزنجو اور میر حاصل خان بزنجو لابی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر عزیز گوادر سے واحد پارٹی رہنما ہوتے ہیں جو اختر مینگل کے دھڑے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت سے لیکر اپنی آخری سانسوں تک ڈاکٹر صاحب اختر مینگل کی پارٹی کی سوچ کو ماننے والوں کے صف میں سے تھے۔
سچ یہی ہے کہ ڈاکٹر عزیز نے بلوچ کے روایتی اور محرومی کا شکار سماج کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک پتھر پھینکا تھا۔ آج یہ پانی دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف بہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے سیاسی افکار، سماجی خدمات کو خراج پیش کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی انسان دوستی، وطن پرستی، ترقی پسند اور روشن فکر خیالات اور افکار کو اپناتے ہوئے اسے اگر اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق استعمال کریں تو یہ بعید نہیں کہ بلوچ پر طاری سیاہ راتیں ختم ہوں اور ایک نئی روشن صبح دستک دے۔