|

وقتِ اشاعت :   November 11 – 2021

جام کمال خان صاحب کو فی الحال سابق وزیراعلیٰ بنانے کیلئے عبدالقدوس بزنجوکو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کر دئیے گئے ۔یہ دونوں حضرات ایک تصویر کے دو رخ ہیں اور فی الحال ایک چھتری کے نیچے ایک دوسرے سے مختلف جہت کیے ہوئے تشریف فرما ہیں ۔اس میدان میں خاندانی طور جام صاحب بہت سینئر ہیں،قدس بزنجو اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یقیناً اس میدان میں ایک نام بن جائیں گے۔اسٹیبلشمنٹ کے لئے کسی زمانے میں مشہور یہی تھا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اختیارات استعمال کرتے اور پھر پھینک دیتے ہیں مگر اب لگتاہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رویہ تبدیل کردیا ہے اور ایک بار اگر کچھ لوگوں کی تربیت کرتے ہیں تو یہی لوگ ہر جانے والا نئے آنے والے کو جہیز یا حد یہ میں دے دیتا ہے۔ وفاق یاصوبہ ہر جگہ آج کل یہی لوگ مزہ سے اقتدار کے نام اور مراعات سے مستفید ہورہے ہیں بالفاظ دیگر علی بابا اور چوروں کے ٹولہ میں آج کل صرف علی بابا کی تبدیلی پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے ۔
بلوچستان کی حالت زار کوئی نئی بات یا جام کمال کی پیدا کردہ نہیں ہے جس کو حل نہ کر سکنے کا الزام حالیہ جام صاحب کے ذمہ پر ہو، نہ میر بزنجو صاحب کوئی نیا چہرہ ہیں جن کو بلوچستان کے غم نے پگھلا کر مغموم کردیا ہو اور وہ جھنڈا اٹھا کر مظلوم بلوچستان کو اس کے حقوق اور حیثیت واپس دلا سکے کم از کم یہ دونوں چہرے ان لوگوں میں سے ہیں جو صرف کرسی پر بیٹھے وقت وی آئی پی ہیں مگر اندرون خانہ یا پس پردہ انہیں یہ ہمت نہیں کہ وہ حقائق بیان کر سکیں اور اپنی زمین کا اپنے اوپر قرض ادا کرسکیں ۔
کما ل کو پیچھے دھکیلنا اور میر عبدالقدوس بزنجو کا آگے بڑھنا مقتدروں کے ٹائم پاس کے بہانے ہیں، بلوچستان کی مصیبت ’ مصیبت رہے گی اور نا عاقبت اندیش مقتدرہ اس خطہ کا سکون تباہ اور امن کے راستے کو مسدود کرتی رہے گی ۔ اس کھیل میں بظاہر جام صاحب نے وزارت اعلیٰ اور اپنی پارٹی کی قیادت گنوادی ہے اور نوجوان قدوس صاحب نے دوسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر سرفراز ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں، مہرے پھر بھی مہرے ہوتے ہیں ۔جام بزنجو کے عروج وزوال کی داستان بظاہر ایک پارٹی کی دھڑے بندی تھی لیکن مشاہدہ میں آیا کہ اس کھیل میں دیگر جماعتیں اپنی پارلیمانی گروپوں میں بھی جام سے خلاصی کی کوشش کو اپنی محنت و مجاہد قرار دیتے رہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ہمارے پیارے نئے ایم پی اے میر زاہد ریکی تو جام کے رخصت ہونے پر سجدہ ریز ہوئے اور اتنا خوشی کا اظہارکر بیٹھے کہ جتنا امریکا کی شکست پر طالبان نے خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اب کیا ہوگا؟ ظاہر ہے مقتدرہ کے فیصلے آناً فاناً ہوگئے اور وزارت علیا کے بعد دیگر مناصب و مراتب کی بند ر بانٹ بھی ہوجائے گی اور ہمیشہ بندر بانٹ سے عوام تک کیا پہنچا ؟اس بار بھی وہی ثمرات عوام کے حصہ میں آئیں گے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی فکری رسائی اور سیاسی حکمت عملی وہ ہے جو ہوتا رہا ہے یعنی خوش نما وعدے ،کچھ میٹھی باتیں اور عملاً کچھ نہیں ۔جام صاحب نسلی اور پیدائشی حاکم اور حاکم زادہ ہیں اور انکی حاکمت بیلہ کے لوگوں کے ایمان کا حصہ بھی ہے لیکن نسل درنسل خدمات کی کوئی خاص نشانی ؟؟
میر قدوس بزنجو کے پدر بزر گوار کوئی نواب یا سردار نہیں مگر سیاسی میدان میں اترنے کے بعد جس حد تک ہو سکا، کامیابی نے ان کے قدم بوسی کو اپنی عزت قراردیا اور میر عبدالمجید بزنجو ذاتی دینداری او رروشن چہرہ کے ساتھ عوام میں بھی مقبول خاص و عام تو ہوگئے لیکن حقیقی آزادی کی شعور؟ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوا، اس کے باوجود کہ میر عبدالمجید سیاست میں آئے تو میر سیاست ہی رہے۔ اب موجودہ وزیراعلیٰ دراصل میر عبدالمجید بزنجو کی سیاست کا تسلسل ہے مجموعی طورپر بلوچستان پہلے بھی مسئلہ تھا اب بھی مسئلہ ہے اس سے نہ تو دستبرداری ممکن ہے اور نہ اس کو مکمل ہاتھ میں لینا آسان۔
بلوچستان کی صحیح قیادت کے لیے عوامی بیداری تو موجود ہے مگر لائق آدمی جو بلوچستان کا درد رکھے ،دوا کرنے کی ہمت کرے ایسے لوگ آگے نہیں آسکتے ۔پہلے تو کسی زمانے میں دیندار اور دین دشمن کے معیارات تھے اب یہ معیار نہ رہے ۔جام کمال تو بہت اچھے دیندار اور دین دوست ہیں لیکن محلاتی سازشوں میں انکا حدف بننا غیر معمولی نہیں ہے ،اسی اسمبلی میں تجربہ کار اور پھر پور صلاحیتوں سے مالا مال ملک سکندر اور ثناء بلوچ موجود ہیں حق تو یہی تھا کہ تمام ممبران اسمبلی پارٹی پالیسیوں سے قطع نظر زندہ ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کو وزارت علیا کی ذمہ داری تفویض کرتے اور ان سے دستیاب وسائل کے صحیح استعمال کا انتظا کرتے کیونکہ بلوچستان کو اس کے جائز حق نہ ملنے کے باوجود جتنا کچھ ملتا ہے وہ بھی کاغذی قبرستان میں یا فاسد بیورو کریسی کی ریگستانی غلام گردشوں میں ہی ختم ہوجاتا ہے ۔
مقتدرہ کی ذہنیت بھی عجیب ہے یہ پاکستان کے ابتدائی دنوں کی بات ہو یا 2021کی، سو فیصد زنجیر ایک اور اس کی کڑیاں بھی ایک سائز کی ۔ اگر بلوچستان سے مقتدرہ کو اپناالو سیدھا کرنے والے لوگ ملتے رہے ہیں اور ملتے رہیں گے لیکن ان بلوچوں کو بھی کچھ نہ کچھ سود وزیاں کا احساس ہونا چائیے ۔ان کو اگر بکنا ہے تو بلوچستان کے حساب سے بک جائیں گے اور اگر ان کو جھکانا ہے تو بھی بلوچستان کے کھاتے میں آئیں گے انہیں بکتے جھکتے وقت بلوچستان کا بھی کچھ خیال رکھنا چائیے تھا۔
میر زاہد صاحب کا سجدہ شکر وقتی حل کیلئے ہوسکتا ہے لیکن میرے عزیز دوست کو خاطر جمع ہونا چائیے کہ بظاہر اور بشرط زندگی یہی جام ایک بار پھر مستقبل کا وزیراعلیٰ بنے گاجب کہ یہی میر قدوس بزنجو یا اس کے ہم عصر وہم نوائوں میں ہر صاحب ایک اور بوتل میں یہی محلول پیش کرتے ہوئے ملیں گے۔