قارئین کرام۔جنرل پرویز مشرف نے کبھی کعبے کا دروازہ اپنے ہاتھوں سے کھولا تو کبھی جنرل باجوہ نے کھولا تو کبھی جنرل راحیل شریف نے اسلامی ممالک کی کمانڈ کی،تو کبھی نواز شریف نے اور کبھی عمران خان ننگے پیر مدینے کی سڑکوں پر چلے .مگر..سلطان صلاح الدین ایوبی حکومتی معاملات اور صلیبیوں کے مقابلے میں اتنا مشغول رہے کہ کبھی کعبہ نہ دیکھ سکے، ایوبی نے حاجیوں پر حملہ کرنے والے صلیبیوں کو ختم کرنے کا وقت تو نکال لیا لیکن اپنی خواہش کے باوجود کبھی جنگ اور کبھی فتنوں کی وجہ سے حاجی نہ بن سکے.یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
کیونکہ مسلم حکمرانوں کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا دفاع اپنی انفرادی عبادات سے پہلے آتا ہے، اسی لیے حکمران کو پرکھنے کا معیار یہ نہیں ہوتا کہ وہ تہجد کتنا پڑھتا ہے یا کعبے کے دروازے اس کیلیے کتنی بار کھولے گئے بلکہ معیار تو یہ ہے کہ حکمران کو جہاں اقتدار ملا ہے وہاں اللّہ کا دین غالب ہے یا نہیں؟ مظلوم کو protection حاصل ہے یا نہیں؟اب اگر کوئی حاکم لوگوں کے معاملات کو بگاڑ دے، دین نافذ نہ کرے، سودی قرضے لے، ٹیکس سے غریب کو بھوکا ماردے، کفار کے حملوں سے مسلمانوں کو تحفظ نہ دے، کشمیریوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، مسجد اقصٰی پر یہودی قبضے اور معصوم مسلمانوں پر ظلم و بربریت دیکھتے ہوئے آنکھیں پھیر لے،اور حج پر حج اور عمرے پر عمرہ کرے،حاجیوں کو زم زم پلاتا رہے، رات بھر تہجد وہ بھی مسجد نبوی میں پڑھتا رہے تو بھی اس نے خیر نہیں کیا، اس نے اجر نہیں کمایا… اور وہ اچھا حکمران نہیں بلکہ بظاہر نیک شخص اور نااہل حکمران کہلائے گا!یہی حال آج عربوں اور باقی مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ہے!!! (( اللہ تعالی کا فرمان ہے :ترجمہ:کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جہاد کیا / جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
اسکے علاوہ انسانی زندگی ایک فلم کی طرح ہے اگر ہمارے اسلامی ملک کے کسی ایک حکمران کی ایک دن کی زندگی کافلم بنایا جائے کیا وہ فلم فیملی عوام اور دوستوں کیساتھ دیکھا جا سکتاہے۔ ہوشیار باش رہیں غرور ،تکبر، فحاشی اور عریانی سے دور رہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج ہمارے اسلامی ممالک کے معاشروں اور پارلمینٹوں میں اگرعورت حجاب کر رہی ہے لیکن میک اپ کے ساتھ اور حجاب کی عبا بہت تنگ، اور نا محرم مردوں کے بیچ خوشبو لگانا۔۔۔ تو یہ قابل غور ہے۔آپ نے داڑھی کو چہرے پر سجایا ہوا ہے لیکن نظریں جھکی ہوئی نہیں ہیں۔۔ تو قابل غور ہے تمام عبادات ٹائم پر انجام دے رہے ہیں لیکن ریاکاری کے ساتھ۔۔ تو قابل غور ہے۔باہر دوستوں کے ساتھ بہت نرم لہجہ اور رویہ لیکن گھر میں ماں، باپ، بیوی اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی۔۔ تو قابل غور ہے مہمانوں کی بہت آؤ بھگت اور خدمت لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی غیبت۔۔ تو قابل غور ہے۔صدقہ بہت زیادہ نکالنا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فقراء کو طعنے دینا۔۔ تو قابل غور ہے تہجد اور قرآن کثرت سے پڑھنا لیکن رشتہ داروں سے قطع تعلق۔۔ تو قابل غور ہے۔ روزہ رکھ رہے ہیں بھوک اور پیاس کی سختی کو برداشت کر رہے ہیں۔
لیکن اس دوران بداخلاقی اور توہین بھی کر رہے ہیں۔۔ تو قابل غور ہے ۔وسروں کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں لیکن کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے نہ کہ رضائے الٰہی کے لئے۔۔ تو قابل غور ہے فیس بک پر لا تعداد بہترین پوسٹیں اور ان پر لا تعداد لائیک اور کمنٹس لیکن سب شہرت کے لئے نہ کہ خدا کے لیے۔۔ تو قابل غور ہے۔اگر آپ منسٹر ہے آپکی حکمرانی میں عوام جینے کا حق مانگ رہے ہیں تو قابل غور بات ہے۔اگر آپکی منسٹر شپ میں ٹارگٹ کلنگ اغواء برائے تاوان جیسے واقعات پیش آتے ہیں تو قابل غور ہے۔اگر آپ کی حکمرانی میں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو قابل غور وافسوس ہے۔اگر آپکی حکمرانی سے تنگ عوام روڈوں پرلاشوں کیساتھ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں تو قابل غور اور صد افسوس کا مقام ہے۔اگر آپکے اسلامک اسٹیٹ میں منافقانہ طرز پالیسی دوطرفہ طرز والی سیاست کو اہلیت کانام دیاجاتاہے تو قابل غور ہے۔اگر آپکے اسلامک اسٹیٹ میں کم سن بچوں اور بچیوں کو اغواء کرنے کے بعد زیادتی کانشانہ بناکر ڈھیروں پر پھینکا جاتا ہے تو قابل تشویش بات ہے۔اگر آپکے اسلامی ملک میں ذخیرہ اندوزی کو تجارت کا نام دیا جاتاہے تو قابل افسوس بات ہے۔ اگر آپکے ملک میں عوام غربت لاقانونیت ظلم جبر اور زیادتیوں سے تنگ آچکے ہیںتو قابل افسوس بات ہے۔آئیں نیکیوں کو ضائع ہونے سے بچائیں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں جبکہ وہ ساری کی ساری ضائع ہورہی ہیں اور نیکیوں کی تھیلی خالی ھوتی جا رہی ہے۔کیونکہ حقوق عباد کی پامالی سے مظلوم عوام کی چیخیں آج فرش سے عرش تک جارہی ہیں۔