|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2021

پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سندھ کے لئے ڈیموگرافک بم ثابت ہوگا۔ کراچی کی ساحلی پٹی پر سی پیک کے منصوبوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے شہر اور گردونواح کی اراضی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ مختلف ہاؤسنگ اسکیمز بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ نہ صرف ہاؤسنگ اسکیمز بلکہ کراچی میں الگ شہر بنانے کے منصوبے بھی زیرغور ہیں۔ دوسری جانب بعض انڈیجینس لوگوں کی آبادی اور اراضی پر سرکاری اداروں اور لینڈ مافیا کی نظریں ہیں۔

انہیں مختلف بہانوں سے تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈیموگرافک تبدیلی کو روکنے کے لئے حکومتی حلقوں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے سندھی اور بلوچ آبادیاں عدم تحفظ کا شکارہوگئی ہیں۔ ڈیموگرافک تبدیلی سے سندھی عوام کی قومی تشخص کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ صرف سندھ کے دارالحکومت کراچی کی آبادی اتنی بڑھ جائیگی کہ پورے صوبے کے دیگر اضلاع کے برابر ہوجائیگی۔ جس سے سندھی عوام کے اقلیت میں تبدیل ہونے کے خدشات ہیں۔ دیکھا جائے کراچی کی یہ ترقی سندھی عوام کے لئے موت ثابت ہوگی۔ سندھی عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والی جماعت پیپلزپارٹی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کو کراچی میں ڈیموگرافک تبدیلی کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

سپرہائی وے میں بے شماربڑی اسکیمیں بن رہی ہیں۔ مستقبل میں کراچی جامشورو اور حیدرآباد کوملایا جائیگا۔ تین اضلاع کی آبادیاں آپس میں مل جائیں گی۔ ان اضلاع کو جدا کرنے والی تمام خالی اراضی پرشہرکے شہر بنائے جائیں گے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی پھیلتے پھیلتے اب ضلع جامشورو کی حدود میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ضلع جامشورو کی حدود میں آنے والے گوٹھوں کو چار دیواری میں بند کر کے آس پاس کی زمینوں پر اس کی ہیوی مشینریز کام کر رہی ہیں، پہاڑوں کے کاٹنے کا عمل جاری ہے ، ندیوں کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ یہ علاقے نیشنل کھیرتر پارک کے پروٹیکٹیڈ ایریا کی حدود میں آتے ہیں۔ جہاں نایاب جنگلی حیات پائے جاتے ہیں ۔سندھ حکومت کی بحریہ ٹاؤن کو مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کی آشیرباد سے بحریہ ٹاؤن کراچی کو سیاسی بنیادوں پر ہزاروں ایکڑ اراضی ہاؤسنگ اسکیم کو اونے پونے داموں میں الاٹ کی گئی۔ جس کی مالیت 460 ارب روپے بنتی تھی۔ جس پرعدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کو دی جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی تھی۔ جس پر بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے واپس کرنے پر آمادگی ظاہرکردی تھی۔

جبکہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے کو ڈی ایچ اے فیز نائن اور بحریہ ٹاؤن جامشورو کے لئے منظوری دی گئی ہے۔ یہ اربوں روپے کا منصوبہ نجی ہاؤسنگ اسکیموں کے لئے تیارکیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ضلع ملیر کے لوگ تعلیم اورصحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ملیرایکسپریس وے ڈی ایچ اے کریک ایونیو سے شروع ہوکر جام صادق پل، شاہ فیصل کالونی روڈ، فیوچرکالونی سے ہوتا ہوا ایم نائن پر کاٹھور تک جائیگا۔ اس منصوبے کے بننے سے تقریباً دو درجن سے زائد قدیم گوٹھ متاثر ہونگے۔ بے شمار زرعی اراضی صفحہ ہستی سے مٹادی جائے گی۔ یہ منصوبہ ترقی کے نام پر ملیر کے قدیم باسیوں کے لئے ایک موت کاپیغام ثابت ہوگی۔ کراچی کے دو جڑواں جزائر ڈنگی اور بھنڈار پر ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ ہے۔ یہ دونوں جزائر کراچی کے ساحل پر ابراہیم حیدری کے قریب واقع ہیں۔ دونوں جزائر پر مینگرووز کے جنگلات موجود ہیں۔ ان جنگلات کو کاٹ کر آئی لینڈ سٹی کے نام پر ایک نیا شہر بسایا جائیگا۔ اس سلسلے میں امریکا کے بڑے سرمایہ کار تھامس کریمر کی ایسوسی ایٹ کمپنیاں اوربحریہ ٹاؤن آف پاکستان کے مابین ایک معاہدہ ہواہے۔ آئی لینڈ سٹی میں بارہ ہزار ایکڑ رقبے کو 5سے دس سالوں میں ڈویلپ کیا جائے گا۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنائی جائے گی۔ نیٹ سٹی، ایجوکیشن سٹی، ہیلتھ سٹی، رپورٹ سٹی اور دوسرا انفراسٹرکچر بنے گا۔ آئی لینڈ سٹی کراچی ڈیفنس سے ساڑھے تین کلومیٹر سمندر کے اندر بنایا جائے گا۔ سمندر کے اوپر دنیا کا جدید ترین 6 رویہ پل بنا کر اسے کراچی ڈیفنس سے منسلک کیا جائے گا۔

سی پیک کی وجہ سے نیا بننے والا ضلع کیماڑی کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی۔ کیماڑی کے علاقے لال بکھر، گابوپٹ، اللہ بنو اور دیھ من کے اراضی کی الاٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ مقامی افراد کی جدی پشتی اراضی کے تیس سالہ لیز اور 6 فارم لیز کو کینسل کیا جارہا ہے۔ ان اراضی کو بلڈرز مافیا اور وفاقی اداروں کے حوالے کیا جارہاہے۔
ماری پور، گریکس ولیج سمیت دیگر علاقوں کو صدیوں پرانی آبادی ہونے کے باوجود مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان علاقوں میں نئی آبادیاں بسائی گئیں ہیں جنہیں مالکانہ حقوق حاصل ہیں۔ ان میں جاوید بحریہ، نیول کالونی اور دیگر شامل ہیں۔ حالانکہ جاوید بحریہ مقامی افراد کی اراضی پر قائم کی گئی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں باغات ہوا کرتے تھے۔ لوگ کھیتی باڑی سے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ ان کے باغات کو بزور طاقت قبضہ کیاگیا۔ محکمہ ریونیو سندھ نے ہاکس بے کی خوبصورتی کو مہندم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ ہاکس بے میں بڑے بڑے گودام بنائے گئے۔ دنیا میں ساحلی علاقوں میں گودام اور ویئر ہاؤسز بنانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ وہاں سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ٹورازم سے ریونیو جنریٹ کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں دنیا کے برعکس پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ جس سے پوری ساحلی پٹی آج گوداموں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جہاں بڑے بڑے ہیوی وہیکلز کا راج ہے۔ ان گوداموں کا خاتمہ کیا جائے ان کی جگہ وہاں تعلیمی، صحت کے مراکز اور پارکس تعمیر کئے جائیں۔

اسی طرح دیھ لال بکھر (ہاکس بے) میں 30 سے زائد قدیم گوٹھ آباد ہیں۔ ان کے مال مویشی اور زرعی اراضی پر کالعدم کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نے ترقی کے نام پر قبضہ کرلیا جہاں 42 ہزار سے زائدگھر بنانے کا منصوبہ ہے۔ جس کو کے ڈی اے اسکیم 42 کا نام دیاگیا۔قدیم گوٹھوں کے چاروں اطراف میں دیواریں (باؤنڈری وال) لگادی گئیں۔ ان کی آبادی کو محدود کرنے کی سازش کی گئی۔ پوری کی پوری آبادی کو جیل میں تبدیل کردیاگیا۔ جب شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو انہوں نے لیاری کے عوام کو رہائشی سہولت فراہم کرنے کے لئے پہلے مرحلے میں 500 گھربنا کردئیے۔ جو پانچ سو کوارٹرز ہاکس بے کے نام سے مشہور ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے کے ڈی اے کو کالعدم قراردے کر ان کی جگہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا۔جس کا مقصد تھا کہ لیاری اور موجودہ کیماڑی ضلع میں قائم قدیم گوٹھوں کے عوام کو پانچ سو کوارٹرز کی طرح مزید ہاؤسنگ اسکیمز دی جائیں تاکہ لیاری اور موجودہ کیماڑی ضلع کے قدیم گوٹھوں کے باسیوں کو ایک چھت مل سکے۔ اس سلسلے میں ایل ڈی اے کو دیھ مواچھ میں دو ہزار سات سو اراضی بھی دی گئی۔ تاکہ وہاں مزید ہاؤسنگ اسکیم شروع ہوسکیں۔ تاہم ایل ڈی اے حکام نے اس کے برعکس کام شروع کردیا۔ سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے ایل ڈی اے ایک قبضہ مافیا بن گیا۔ ایل ڈی اے نے اپنے دائرہ کار کو بڑھاکر دیھ لال بکھر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جبکہ ان کی حدود دیھ مواچھ تک محدود ہے۔ دیھ لال بکھر کے مقامی زمینداروں کی اراضی بلڈرمافیاز کے حوالے کی جارہی ہے۔ پولٹری فارمز سمیت زراعی اراضی کو بلاجواز غیرقانونی قراردے دیاگیا لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اپنے نام سے روح گردانی میں مصروف ہے۔

ضلع کیماڑی کے علاقے دیھ من اور دیھ اللہ بنو سمیت مبارک ولیج میں ہزاروں ایکڑ اراضی نیوی کو دی گئی۔ یہ اراضی مقامی افراد کی ملکیت ہے۔ جہاں قدیم سندھی اور بلوچ گوٹھ آباد ہیں۔ یہ آبادیاں تین سو سال پرانی ہیں۔ گوٹھوں کو محدود کیا گیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے مزید اراضی نہیں دی جارہی جس سے آبادی گنجان ہورہی ہے۔ جہاں کسی زمانے میں مقامی کسان کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اور اپنا گزربسر کرتے تھے۔ مقامی افراد کی زمینوں کی ملکیت ان کی مرضی اورعلم کے بغیرتبدیل کی گئی۔ اور انہیں ان کی ملکیت سے محروم کیا گیا۔

کراچی پورٹ سے منسلک مختلف جزائر آباد ہیں۔ جن میں شمس پیر، بابا، بھٹ اور دیگر شامل ہیں۔ جہاں سندھ کے اصل باسی ’’میر بحر‘‘ آباد ہیں۔ ان جزائر کے ماہی گیروں نے سی پیک کے تحت کراچی پورٹ کو توسیع دینے کے بہانے ان جزائر پر انہیں گھروں سے بے دخل کرنے کے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔
سی پیک کراچی کو ترقی دینے کے نام پر دراصل سندھ کے عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک آئینی اور قانونی ہتھیار ہے۔ جس کے تحت سندھ میں سندھی قوم اقلیت میں چلی جائیگی۔

One Response to “’’ سی پیک ‘‘ ڈیموگرافک بم”

  1. Shakeel Silawat

    ایک بھیانک سہ ڈر پیدا ہو گیا ہے عزیز سنگور آپ کی شاندار تحریر سے بہت عمدہ بہترین آرٹیکل ہے ڈیر

Comments are closed.