|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2021

معروف بین الاقوامی میگزین دی اکانومسٹ کی حالیہ رپورٹ میں 43 ممالک میں افراط زر کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد تھی۔پاکستان میں مہنگائی کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ مزید برآں پی ٹی آئی کی حکومت میںشروع دن سے لے کر اب تک مہنگائی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے ۔ اب پاکستان میں سب کچھ غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔ تمام چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے چاہے ادویات ہوں، اشیاء خوردوش اور انسانی ضروریات کی دیگر بنیادی چیزیں۔ آئیے ایک نظر نواز شریف اور عمران خان کے دور حکومت میں مہنگائی پر ڈالتے ہیں۔
*نواز شریف کا دور حکومت*
2013 میں، نواز شریف کے دورحکومت میں توانائی کی قلت، انتہائی مہنگائی، ہلکی اقتصادی ترقی، زیادہ قرضوں، اور بڑے بجٹ خسارے کی وجہ سے تباہ حال معیشت کے دور میں واپس آئے۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد، پاکستان نے “6.3 بلین ڈالر کی IMF توسیعی فنڈ سہولت پر کام شروع کیا، جس میں توانائی کی قلت کو کم کرنے، عوامی مالیات کو مستحکم کرنے، محصولات کی وصولی میں اضافہ، اور ادائیگیوں کے توازن کی پوزیشن کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی تھی۔” تیل کی کم قیمتیں، بہتر سیکیورٹی، زیادہ ترسیلات زر اور صارفین کے اخراجات نے مالی سال 2014-15 میں 4.3 فیصد کے سات سال کی بلند ترین سطح کی طرف ترقی کی اور غیر ملکی ذخائر بڑھ کر 10 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئے۔ مئی 2014 میں، آئی ایم ایف نے تصدیق کی کہ افراط زر 2008 میں 25 فیصد کے مقابلے 2014 میں کم ہو کر 13 فیصد پر آ گئی ہے، جس سے اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور موڈیز کارپوریشن کو پاکستان کی رینکنگ کو اپنی طویل مدتی ریٹنگز پر مستحکم آؤٹ لک میں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔
*عمران خان کا دور حکومت*
گھی، چینی، آٹا اور پیٹرول کی قیمتیں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر پاکستانی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان میں افراط زر کی شرح 9 فیصد ہے اور گزشتہ تین سالوں میں اس نے 70 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی صورتحال کتنی سنگین ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں دگنا ہونے کے ساتھ کئی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی اخبار دی نیوز انٹرنیشنل نے وفاقی ادارہ شماریات کے حوالے سے بتایا کہ گھی، تیل، چینی، آٹا اور مرغی کی قیمتیں تاریخی سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’گھی کی قیمت 108 روپے سے بڑھ کر 356 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔‘‘ دریں اثنا، بجلی کے نرخ بھی 57 فیصد بڑھ کر 4.06 روپے فی یونٹ (اکتوبر 2018 میں) سے کم از کم 6.38 روپے فی یونٹ (اکتوبر 2021 میں) ہو گئے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں ایل پی جی کی قیمتوں میں 51 فیصد اور پٹرول کی قیمت میں 49 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اشیائے خوردونوش میں چینی کی قیمت 54 روپے فی کلو سے بڑھ کر 100 روپے فی کلو تک پہنچ گئی جو کہ 83 فیصد کا زبردست اضافہ ہے۔ دالوں کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نیوز انٹرنیشنل آرٹیکل کے مطابق، “سرکاری ریکارڈ کے مطابق، گائے کے گوشت کی قیمت تین سالوں میں 48 فیصد بڑھ کر 560 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔” ڈوئچے ویلے کے ایک مضمون میں اسلام آباد کے ایک مقامی قصائی آفاق احمد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہاں کوئی گاہک نہیں ہے۔ میں نے 2018 میں عمران خان کو ووٹ دیا تھا اور مجھے اپنے فیصلے پر افسوس ہے۔ ان کی حکومت سے پہلے حالات اچھے تھے لیکن اب ہر طرف تناؤ ہے۔
غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں غربت 5 فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ ورلڈ بینک (ڈبلیو بی) نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان میں غربت 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہو گئی ہے، کیونکہ 20 لاکھ سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے آ چکے ہیں۔میں نے ایک مزدور کی کمائی اور دن میں خرچ کا موازنہ کیا ایک مزدور جو دن میں تقریباً 500 سے 800 تک کمالیتاہے۔ گھی فی کلو 350 روپے ، چینی فی کلو 110 ، چاول جو آخری درجے کا 100 روپے اور آٹا 80 ودیگر اشیاء کو ملا کر 1000 ہوجاتے ہیں لیکن مزدور کی کمائی 800 روپے ہے بچوں کی پڑھائی ، بیماری اور زندگی کی اور بہت سی ضروریات ہوتی ہیں۔ مزدور طبقے ان پیسوں سے کیا کرسکتاہے۔۔۔۔میرے والد محترم ایک دوا جو 1993سے استعمال کر رہے ہیں اس دوا کی قیمت 1993سے لے کر 2018 تک 50 روپے تھی لیکن جب پی ٹی آئی کا دور حکومت آیا اور اس کی قیمت 60 روپے سے زائد کااضافہ ہوگیا ، تین سال میں اس دوا کی قیمت میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔
ہمارے حکمران خواب خرگوش میں ہیں دن بدن مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ کر رہے ہیں۔عوام بھوک و افلاس سے خودکشیاں کررہے ہیں لیکن حکمران ریاستِ مدینہ کادعویٰ کرتے ہیں۔ کیا ریاستِ مدینہ ایسا ہوتاہے۔۔۔ جہاں لوگ افلاس سے مررہے ہیں اور کمرتوڑ مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں۔ ریاستِ مدینہ وہ تھا جس کی مثال آج تک دی جاتی ہے۔خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرادیتے تھے اور لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔کہتے تھے اگردریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔ حکمران ایسے ہوتے ہیں۔
لہذا حکومت پاکستان کو مہنگائی پر قابو پانے کی ضرورت ہے ورنہ جلد ہی پاکستان مہنگائی میں سرفہرست ہوگا۔۔۔۔