|

وقتِ اشاعت :   November 17 – 2021

11اگست 1989ء کو میر غوث بخش بزنجو کا انتقال ہوا۔ سردار عطاءاللہ مینگل نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کیلئے لندن سے کراچی پہنچے ۔نواب محمد اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بلوچستان تھے وہ انہیں اپنے طیارے میں کراچی سے خضدار لائے۔ خضدار سے نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطاءاللہ مینگل بذریعہ سڑک نال پہنچے ۔میر غوث بخش بزنجو کے جنازہ اور تدفین میں شرکت کی ۔میر صاحب کی تدفین اور بعد آخری دعا کے موقع پر میرے دائیں جانب سردار عطاءاللہ مینگل اور بائیں جانب نواب اکبر بگٹی کھڑے تھے ۔نواب بگٹی فاتحہ کے بعد کوئٹہ چلے گئے میں اور سردار عطاءاللہ مینگل تین دنوں تک نال میں میر صاحب کی تعزیت پر بیٹھے رہے ۔
میں یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا مینگل خاندان میں میر فیروز مینگل ولد ضیاءاللہ مینگل کے سسر وفات کے باعث جائیداد کے مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا۔ میر فیروز مینگل ضیاءاللہ مینگل کے فرزند ، سردار عطاءاللہ مینگل اور میر مہر اللہ مینگل کے بھتیجے تھے ،جب فیروز کے سسر کا انتقال ہوا تو ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی بیوہ اور دو صاحبزادیاں تھیں ۔جائیداد کے تقسیم کے مسئلہ پر اختلافات ہوئے، میں نے اس بارے میں سردار عطاءاللہ مینگل سے گزارش کی کہ اس مسئلہ کو حل کریں۔ انہوں نے بڑی فراخدلی سے یہ ذمہ داری مجھے دی اور کہا کہ مہر اللہ مینگل کے ساتھ بیٹھ کر آپ فیصلہ کریں ۔میں نے اسلامی شرعی قوانین کے تحت بیوہ ، صاحبزادیوں اور دیگر کا حصہ مقرر کر دیا۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے سب کو شرعی تقسیم کے مطابق جائیداد میں حصہ دیا اور معاہدے پر تصدیقی دستخط کر دیئے۔ فیصلہ کے مطابق 1/8 حصہ بیوہ کیلئے ،دو حصے بیٹوں کیلئے ،ایک حصہ محمد نور مینگل کزن میر عبدالنبی مینگل کیلئے مقرر کیا ۔
سرکار کی ہمیشہ کوشش رہی کہ بلوچ سیاستدان سرداروں کی کردار کشی کی جائے، ان کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کیلئے ان کے خاندان اور مخالفین کو استعمال کیا گیا۔ 1963ءمیں ایوب خان نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا، ایوب خان نے سردار عطاءاللہ مینگل ، نواب اکبر بگٹی ، نواب خیر بخش کی سرداری ختم کر کے نئے سردار مقرر کئے ۔حماقت انگیز بات ہے کہ سرداری ختم کر کے پھر اپنے پسند کے نئے سردار مقرر کئے ، ایوب خان نے اکبر خان بگٹی کی جگہ ان کے خاندان کے جمال خان بگٹی کو ، نواب خیر بخش مری کی جگہ ان کے چچا دودا خان مری کو اور سردار عطاءاللہ مینگل کی جگہ کرم خان مینگل کو سرکاری سردار مقرر کر دیا۔ اس فیصلہ کو قبائلی عوام نے مسترد کر دیا اور تینوں سردار اپنے علاقوں میں پہنچتے ہی قتل کر دیئے گئے۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے اپنی سیاسی زندگی کی بڑی بھاری قیمت ادا کی، قید و بند کی صعوبتوں کے علاوہ سردار عطاءاللہ مینگل نے اپنے فرزند اسد اللہ مینگل کی قربانی دی جن کی لاش کے بارے میں آج تک معلوم نہ ہو سکا مگر سردار عطاءاللہ مینگل نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ اگر کبھی کسی نے اس واقعہ کا تذکرہ کر بھی دیا تو سردار عطاءاللہ مینگل نے کہا کہ تمام بلوچ نوجوان میرے لئے اسد اللہ مینگل ہیں ۔
نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد سردار عطاءاللہ مینگل حیدر آباد سازش کیس میں اسیر تھے کہ سردار عطاءاللہ مینگل کے فرزند اسداللہ مینگل اور ان کے ساتھی احمد شاہ سردار شیر باز مزاری کے گھر سے نکل رہے تھے کہ دریا خان کھوسہ کے بیٹے خالد کی نشاندہی پر ان پر فائرنگ کی گئی۔ اسد اللہ مینگل زخمی ہوئے انہیں زخمی حالت میں احمدشاہ سمیت اٹھا لیا گیا ،اس کے بعد سے آج تک ان کا پتہ معلوم نہ ہو سکا۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے بڑے حوصلہ سے یہ خبر سنی اور اپنی موت تک یہ دکھ اپنے سینے میں دفن رکھا ۔
اس واقہ پر میں نے ایک قطعہ براہوئی زبان میں کہی ہے
اسد نا قبر نا کسّے خبر اف
اسد کے قبر کا کسی کو نہیں معلوم
اسد نا کیس نا زیروزبر اف
اسد کے کیس کی کوئی معلومات نہیں
خدایا نا خدائی ٹی مریک دُہن
اے خدایا تیری خدائی میں ایسا کیوں ؟
جہان آ کل ٹی ننکن کسرا ف
تیرے جہاں میں بس ہمارے لئے کوئی جگہ نہیں
سبحان وائل عربوں میں ایک بہت بڑے خطیب گزرے ہیں، میری ناقص رائے ہے کہ سردار عطاءالہ مینگل بلوچستان کے سبحان وائل ہیں ۔سردار صاحب بغیر لگی لپٹی اپنی بات کہنے کی جرات اور سلیقہ رکھتے تھے ۔خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کی تقریب تھی گورنر بلوچستان جنرل عمران اللہ خان اس میں مدعو تھے، تقریب میں خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر آغا عبدالقادر بلوچ نے سردار عطاءاللہ مینگل کو شرکت کی دعوت دی۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر وحید بلوچ بھی پروگرام میں مدعو تھے، سردار عطاءاللہ مینگل کی آمد کا سن کر بڑی تعداد میں خضدار کے عوام اور طلباءنے پروگرام میں شرکت کی۔ تقریب میں پہلی نشستوں پر کنٹرولر گل بنگلزئی ، عبدالستار لہڑی ، پروفیسر عبدالرحمان ، شہید حبیب جالب ، محمد عالم جتک کے ہمراہ میں بھی موجود تھا، سردار عطاءاللہ خان مینگل نے ایک گھنٹہ طویل جامع تقریر کی ،سردار عطاءاللہ نے کھل کر مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ۔
1972ءمیں جب نیپ کی حکومت تھی سردار عطاءاللہ مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان تھے ۔خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی سردار صاحب کی کوششوں سے قائم ہوا تھا ،سردار عطاءاللہ مینگل نے دوران تقریر سخت الفاظ میں تنقید کی کہ بلوچستان میں گورنر کیلئے کوئی مقامی شخص نہیں ملا کہ باہر سے ایک شخص کو لا کر گورنر بلوچستان بنایا گیا ہے۔ یہ بات گورنر کو ناگوار گزاری ۔دوسرے دن گورنر عمران اللہ خان نے وائس چانسلر عبدالقادر بلوچ سے بازپرس کی کہ آپ نے سردار عطاءاللہ مینگل کو پروگرام میں کیوں دعوت دی۔ آغا عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ سردار عطاءاللہ خان جھالاوان کے فرزند ہیں وہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں یہ ان کا مادر وطن ہے خضدار انجینئرنگ کالج کا سنگ بنیاد سردار صاحب نے رکھا ،کوئی انہیں کالج آنے سے نہیں روک سکتا ۔
15اکتوبر1955ءکی بات ہے کہ خضدار میں ون یونٹ کے قیام کے موقع پر اسسٹنٹ کمشنرنے ایک رائفل شوٹنگ کا مقابلہ منعقد کروایا ۔سردار عطاءاللہ مینگل نے رائفل شوٹنگ میں حصہ لیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی ،دس روپے انعام حاصل کیا ۔ایک بار کسی تقریب میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے مجھ سے اس واقعہ کے متعلق پوچھا کہ سردار مینگل نے ون یونٹ کے نفاذ کے موقع پر رائفل شوٹنگ میں حصہ لیا،پھر آپ اور بلوچ لیڈران ون یونٹ کے کیوں مخالف ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس زمانہ میں سردار عطاءاللہ مینگل سیاست میں سرگرم نہیں تھے جب وہ سیاست میں متحرک ہوئے انہیں حالات کا ادراک ہوا، ون یونٹ کے سیاسی ، معاشی ، استحصالی پہلوﺅں کے مضمرات کا علم ہوا تو سردار عطاءاللہ مینگل سمیت ہر ذی شعور سیاسی رہنماﺅں نے ون یونٹ کی کھل کر مخالفت کی ،رائفل شوٹنگ میں شرکت کوئی سیاسی عہد نامہ تو نہیں تھا ۔2005ءمیں خضدار پریس کلب کے ایک پروگرام میں سردار عطاءاللہ مینگل کو مدعو کیا گیا اس پروگرام میں طلباء، ٹریڈ یونین ، ورکرز، عمائدین شہر ، مختلف سیاسی پارٹیوں کے ورکرز ، خضدار ہندو پنچائیت کے اراکین شامل تھے۔ سردار صاحب نے بڑی مدلل اور نقد گفتار گفتگو کی ۔سوال جواب کے سیشن میں ایک نوجوان رشید بارانزئی مینگل نے تلخ اور بڑے سخت انداز میں کوئی سوال کیا تو سردار صاحب نے کہا کہ نفرت کے بجائے آپ اپنے حصے کا کام ایمانداری اور جرات سے کریں جیسے کہ دیوان جانی رام کر رہا ہے ۔
خضدار پریس کلب کی بنیاد 1992ءمیں میر محمد خان مینگل نے رکھی ،اس میں میر عبدالرحمان زہری ، چیئرمین ٹاﺅن کمیٹی خضدار اور کمشنر قلات ڈویژن حفیظ اللہ خان کا تعاون بھی شامل تھا۔ سردار عطاءاللہ مینگل ازراہ مذاق میر محمد خان میراجی کے بارے میں کہتے تھے کہ محمد خان دریائے نیل ہے ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا کرتا رہتا ہے ۔
بعد از مغرب ڈیرہ باوا صاحب میں سردار عطاءاللہ مینگل مدعو تھے ،دیوان جانی رام نے ہندو پنچائیت کے ساتھ مل کر یہ پروگرام ترتیب دیا تھا۔ پروگرام میں ہندو پنچائیت کی کثیر تعداد کے علاوہ مجھے شہید امان اللہ زرکزئی ، سردار نصیر احمد موسیانی ، بابو عبدالحق محمد شہی کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے ہندو برادری کی وطن سے محبت کا خصوصی تذکرہ کیا کہ 1839ءمیں قلات پر انگریز حملہ کے وقت خان میر محراب خان کے ساتھ وطن کیلئے جان قربان کرنے والوں میں وزیرخزانہ ریاست قلات دیوان بچامل بھی شامل تھے ۔عطاءاللہ مینگل نے بتایا کہ ایک جنگ میں خان محراب کے ساتھ میرے ایک جد میر ولی محمد خان مینگل بھی شامل تھے ،واضح رہے کہ دیوان جانی رام کراچی سے میت کے ساتھ اقلیتی وفد کے ساتھ وڈھ آئے، تین دن تک تعزیت میں بیٹھے رہے ۔سردار صاحب نے کہا کہ بھائی ہندو بلوچ معاشرے کا حصہ ہیں سردار صاحب نے وڈھ میں اقلیتی برادری کے لئے ایک لاکھ فٹ زمین کا عطیہ بھی دیا اور تجویز دی کہ 50ہندو گھرانے پانچ پانچ ہزار فٹ پر اپنا گھر تعمیر کریں ،اس میں دیوان جانی رام کی کاوش شامل تھی۔ سردار صاحب دیوان جانی رام کو عزت دیتے تھے ۔سردار عطاءخان مینگل بہت ہی قدردان اور مردم شناس انسان تھے ،سیاسی اختلاف کو دوستی پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے ۔سیاسی علمی شخصیات کا احترام کرتے تھے مولانا عبدالعزیز صاحب خطیب چمن پھاٹک مسجد تھے، مولانا عبدالعزیز صاحب نے مسجد سے متصل ایک مدرسہ دارلرشاد قائم کیا تھا آپ اس کے مہتمم اعلیٰ تھے ۔12اپریل1973ءکو مولانا عبدالعزیز انتقال کر گئے آپ ان کی تعزیت کیلئے تشریف لائے اور پورا دن وہاں بیٹھے رہے ۔مولانا عبدالعزیز صاحب امیر جماعت اسلامی بلوچستان تھے ،عطاءاللہ مینگل انہیں وطن کا رہبر اور مرد قلندر کہتے تھے ۔سردار صاحب کہتے تھے کہ مولانا عبدالعزیز جیسی علمی شخصیت کبھی کبھار پیدا ہوتی ہیں ۔
سردار عطاءاللہ خان مینگل اپنے دیرینہ رفیق شفیع محمد عرف بابے لہڑی کا از حد احترام کرتے تھے عطاءاللہ مینگل اکثر تذکرہ کرتے تھے کہ بابے لہڑی کا پورا خاندان بلوچ تحریک کے ہر اول دستے کے بے لوث کارکن ہیں۔ بابے لہڑی نے بلوچ سیاسی تحریک کے ساتھ وابستگی کے دوران مصائب کا بڑی جرات اور حوصلہ مندی سے مقابلہ کیا ۔بابے لہڑی اکثر خضدار میرے پاس آتے تو میں اور بابے لہڑی وڈھ سردار صاحب کے پاس حاضر ہوتے ۔سیاست اور دیگر معاملات پر ہماری بھرپور گفتگو ہوتی۔
سردار عطاءاللہ مینگل اکثر مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی فاضل دیوبند کا ایک جملہ داہرتے تھے کہ مولانا محمد عمر صاحب نے اپنے صاحبزادے آیت اللہ درانی کو ہدایت کررکھی تھی کہ میرے مرنے کے بعد تعزیت نہ لیناکیونکہ جو قوم اپنے حقوق اپنے جیسے بندوں سے حاصل نہیں کر سکتا وہ خدا سے میری کیا مغفرت لے سکتا ہے ۔سردار صاحب اکثر کہتے تھے کہ ہمارا وطن بلوچستان انتہائی مردم خیز ہے ۔سردار صاحب کسی بھی تنازعہ کے فیصلے کیلئے اپنے قبائلی معتبرین اور ٹکریوں سے باہم مشاورت کرتے تھے اور قبائلی جھگڑے قتل اور اراضیات کے معاملات میں انتہائی غیر جانبدارانہ فیصلے کرتے تھے۔ایک مرتبہ دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ حاجی نیک محمد مینگل کا تذکرہ ہوا تو سردار صاحب نے شائستگی اور احترام سے ان کا تذکرہ کیا حالانکہ نیک محمد مینگل کے ساتھ سردار عطاءاللہ مینگل کے سخت سیاسی اختلافات تھے، نیک محمد مینگل کی سرکار سے قربت کچھ زیادہ ہی تھی ۔سردار عطاءاللہ مینگل نے بتایا کہ جب میں جیل سے رہا ہو کر آیا تو مینگل قبیلے کے تمام سرکردہ افراد مجھ سے ملنے آئے ان میں حاجی نیک محمد صاحب بھی تھے ۔اس موقع پر میں نے کہا کہ میں مینگل قبیلے کی سرداریت سے دستبردار ہونا چاہتا ہوں۔ محفل میں موجود تمام لوگ خاموشی سے سنتے رہے مگر حاجی نیک محمد مینگل نے رائے دی کہ سردار صاحب اپنے فیصلہ پر نظرثانی کریں ایسی غلطی نہ کریں ۔حاجی نیک محمد نے کہاکہ آپ کی عزت اور مقام مینگل کی سرداری سے ہے اگر آپ کراچی جا کر دیکھیں کہ کتنے ہی لیڈران کراچی کی سڑکوں پر نظر آئیں گے ۔
سردار عطاءاللہ خان مینگل تمام اہل بلوچستان کی سیاسی قربانیوں اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے تھے ۔مینگلوں میں حاجی نیک محمد اور علی محمد مینگل کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے تھے ۔سردار عطاءاللہ خان مینگل حقیقت پسند اور روایت پسند بے باک انسان تھے۔دوران گفتگو سردار صاحب اپنے دشمنوں کا کم مگر اپنے دوستوں کا ذکر زیادہ کرتے تھے مگر سیاسی دشمنوں کو ڈنکے کی چوٹ پر للکارتے تھے۔سردار عطاءاللہ خان مینگل اکثر میر غوث بخش بزنجو کا تذکرہ بڑے ادب و احترام سے کرتے تھے کہتے تھے کہ ہم سب میں میر غوث بخش بزنجو عظمت کے مینار تھے۔جب بھی ہماری ملاقات بابو عبدالرحمن کرد سے ہوتی تھی تو بابو عبدالرحمن کرد کی نصیحت تھی کہ آپ سب اپنا ناطہ سردار عطاءاللہ خان مینگل سے کبھی نہ ٹوٹنے دیں۔میر غوث بخش بزنجو نے اس ہیرے کو پہچان کر اسے سیاست میں لائے اور آج سردار عطاءاللہ خان مینگل بلوچستان اور بلوچ قوم کا سرمایہ افتخار ہیں ۔کئی برسوں تک میں اور آزات جمالدینی کوئٹہ سریاب میں ایک حویلی میں بمعہ اہل وعیال مقیم رہے۔(جاری ہے)