یہ 19اگست1992ء کی بات ہے کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیربخش مری افغانستان سے آنے والے مری بلوچوں کے استقبال کے لئے دالبندین میں مقیم تھے۔انہی دنوں کراچی میں پنجابی،پشتون اتحاد نے باچا خان ایوارڈ سردار عطاء للہ خان مینگل کو دینے کا اعلان کیا۔سردار عطاء اللہ خان مینگل اپنے جلاوطن مری بلوچوں کے استقبال کو چھوڑ کر کراچی نہیں گئے بلکہ اپنے نمائندے کے طور پر ایوارڈ وصول کرنے کے لئے محمد خان مینگل کونمائندہ مقررکیا۔یہ پروگرام کرائون پلازہ کراچی میں منعقد ہوا ،اسیٹج پر یوسف مستی خان بھی تشریف فرماتھے۔
1998ء کی بات ہے جب سردار اختر جان مینگل وزیراعلیٰ بلوچستان تھے، میرے ایک جاننے والے اسسٹنٹ کمشنر نے حب میں پوسٹنگ کے لئے مجھے بہت تنگ کیا کہ آپ میری سفارش کردیں، سردار اختر جان آپ کو انکار نہیں کریں گے۔ایک دن میں اور شہید صمد خان رئیسانی سردار عطاء اللہ خان سے ملنے وڈھ گئے، مختلف موضوعات پر ہماری گفت گورہی ۔سردار عطاء اللہ مینگل سے میں نے حب میں اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹنگ کی بات کی۔سردار صاحب نے ازراہ تفنن کہا کہ قاضی صاحب سرکاری ملازمین کسی کی مجبوری کے بجائے اپنی جیب کا زیادہ خیال رکھتے ہیں ،اس آفیسر کا ضامن کون ہوگا کہ کل وہ ہماری سفارش کا بھرم رکھ پائے گا؟میں نے کہا کہ میں ضامن ہوں۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل اسی لمحے اختر جان سے رابطہ کیا اور کہا کہ قاضی صاحب کے بندے کا کام کردیں۔ چند دنوں میں اس کی پوسٹنگ بطور اسسٹنٹ کمشنر حب کردی گئی،کوئی چار ماہ بعد ایک دن سردار صاحب سے ملنے وڈھ گئے ،دوران گفتگو سردار صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس آفیسر کو آپ کی سفارش پر حب میں تعینات تو کردیا گیا، ہماراخیال تھا کہ وہ اپنی انگلیوں کو لتھڑے بغیر گزارہ کرے گا مگر اس ظالم نے تو مہینوں تک فضل ربی کا وضو کرلیا۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی یہ میری زندگی کا انوکھا اور دلچسپ واقعہ تھا، اس کے بعد کسی ضرورت مند کے لئے بھی میں نے سفارش سے توبہ کرلی۔1962ء میں آپ قومی اسمبلی کے ممبر تھے، آپ نے اسمبلی میں بھر پور انداز میں بلوچستان کا کیس پیش کیا۔ بلوچ عوام کی محرومیوں اور نا انصافیوں کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔کسی زمانہ میں میر غوث بخش بزنجو ،سردار عطاء اللہ مینگل،نواب محمد اکبر بگٹی،میرگل خان نصیر،ملک محمد عثمان کانسی،عبدالواحد کرد ودیگر بلوچ سیاسی رہنماء جناح روڈ پر کیفے ڈان ،فردوسی اور دیگر مخصوص مقامات پر باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔نوجوان سیاسی ورکران کی محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔کوئٹہ کا جناح روڈ بلوچستان کی سیاست کا مرکز ہوا کرتا تھا ان سیاسی ،ادبی اور علمی مراکز میں ’’گوشہ ادب‘‘ اور’’ قلات پبلشرز‘‘ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔زمرد حسین جسے NAPنے سینیٹر منتخب کیا تھا۔قلات پبلشرز ان کی ملکیت تھی۔زمرد حسین NAPکے سینئر رہنما تھے ۔کتابوں کی اس دکان میں آغاعبدالکریم احمد زئی،میر گل خان اور دیگر رہنماء آتے تھے۔
میری یادداشتوں میں ایک اور واقعہ محفوظ ہے کہ ایک بار حاجی میر عبداللہ جان محمد شہی ،شہید عبدالخالق لانگو اور روشن خیال نوجوان میر عبدالحئی لانگو خضدار تشریف لائے ۔چائے وغیرہ پینے کے بعد عبداللہ جان محمد شہی نے کہا کہ کیوں نہ ہم سردار عطاء اللہ خان مینگل کے پاس چلیں۔ہماری اس گفت گو کے دوران ممتاز قوم پرست رہنماء قلی کیمپ کوئٹہ میں میر غوث بخش بزنجو کے رفیق نیپ کے کارکن بابو عبدالحق محمد شہی تشریف لائے ،ہم سب قافلہ کی صورت میں سردار عطاء اللہ خان مینگل کی خدمت میں وڈھ میں حاضرہوئے۔اس محفل میں میر عبداللہ جا ن محمد شہی نے سردار صاحب سے سوال کیا ۔آخر یہ حکمران اس ملک کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں،ہر آنے والادن بداعتمادی اور مایوسی پیدا کررہا ہے ۔اس پر سردار صاحب نے فرمایا کہ وہ آقاہیں اور ہماری حیثیت محکوموں کی ہے ۔وہ اپنی من مانی کرتے رہیں گے۔بالا دست پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ کیوں محکوموںکی بات کو سنے گا کیونکہ طاقت کے تمام سرچشمے ان کے پاس ہیں ،وہ سندھی ،پشتون،بلوچ کے لئے جو فیصلے کریں ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔سردار صاحب نے کہا کہ ہمیں مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ان کے دست قاتل کو جھٹکنا ہوگا، پنجاب کی بے لگام سول /ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کوئی ایک محکوم قوم نہیں روک سکتا۔اپنے حقوق کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ہمسایہ ممالک میں تغیر ات کا اثر ہم پر بھی پڑے گا۔ہمسایہ ممالک میں کسی قسم کی مداخلت کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل نے اپنے طویل سیاسی زندگی میں بڑی ثابت قدمی،استقلال سے بلوچ عوام کی سیاسی ،معاشی خود مختاری کے لئے لازوال جدوجہد کی۔اپنے فرزند کی قربانی دی،قید وبند کی صعوبیتں برداشت کیں۔عارضہ دل کا شکار ہوئے۔سخت ترین قید اور سفاک آمریتوں کی جانب سے دھونس،دھمکی،جبر کے خلاف اپنے حقوق کے لئے کوئی مصالحت نہیں کی اور نہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار ہوئے۔
سردار عطاء اللہ مینگل نے برجستہ، بر ملا او ر ڈنکے کی چوٹ پر اسٹیبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا۔کراچی میں ان کے بچوں کو ہراساں کیا گیا،جب ان کو پکڑا گیا تو وہ سرکار کے لوگ تھے۔پرویز مشرف نے انتقاماً سردار اختر جان مینگل کو گرفتار کیا اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کو پنجرے کی عدالت میں پیش کیاگیا ۔انہی اسیری کے ایام میں سر دار اختر جان مینگل کو خوراک میں ایسی کوئی چیز دی گئی کہ انہیں رہائی کے بعد جرمنی سے طویل عرصہ تک علاج کے بعد صحت یابی نصیب ہوئی۔
ایک بار سر دار عطاء اللہ مینگل نے سردار اختر جان مینگل کے سیاست میں آنے پر کہا کہ میں لندن میں ہوں۔سردار اختر جان مینگل کو بلوچستان اور بلوچ سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے۔انہیں ہدایت کی کہ سردار اختر جان بلوچستان جائیں اور سیاست کا حصہ بنیں۔کسی نے کہا کہ سردار اختر جان سیاست میں ناتجربہ کار ہیں ۔سردار صاحب نے کہا کہ میں سردار اختر جان کے ہاتھ پائوں باندھ کر بے رحم سیاست کے سمندر میں اسے دھکیل رہا ہوں یا تو وہ ڈوب جائے گایا پھر وہ بلوچستان اور بلوچ قوم کی سیاست کے لئے ایک بااعتماد سیاستدان بن کر ابھرے گا۔اس طرح سردار عطاء اللہ مینگل کی دور اندیشی اور بصیرت نے اختر مینگل کے انتخاب کو درست ثابت کیا ۔آپ بہترینمردمشناس تھے۔
افسوس کہ بلوچستان کی سیاست کا آخری مہتاب 2ستمبر2021ء کر کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔جائیدادوں کی وارثت کے جانشین بے شمار ہوتے ہیں مگر سیاسی اور فکری جانشین ہونا بڑی خوش بختی ہوتی ہے۔یہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی خوش نصیبی ہے کہ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی سیاسی وراثت اختر جان مینگل کی صورت میں موجود ہے۔ امید ہے کہ سردار اختر جان مینگل اپنے والد کی عظمت اور جرات کو کہیں بھی کسی بھی صورت میں داغ دار نہیں ہونے دیں گے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل کی بے لوث سیاسی جدوجہد بلوچ قوم کی تاریخ کا وہ باب ہے جس کے بغیربلوچستان کی تاریخ نامکمل رہے گی۔سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک سردار ہوتے ہوئے 1972میں جب وہ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں 21جون1972کے اجلاس میں سرداری سسٹم اور اہلیان ریاست کی مراعات کے خاتمے کی قرارداد پیش کی جبکہ دوسری طرف ریاست سرداری سسٹم کو بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے کا پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے۔اس قرار داد کی مخالفت وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ عبدالقیوم خان کی ہدایت پر جام آف لس بیلہ اور چیف آف سراوان نے کی ۔سردار عطاء اللہ خان مینگل کہتے تھے کہ سرداری سسٹم نے اپنی عمر پوری کر لی ہے اسے اب ختم ہوجانا چاہیے مگر سرکار نے اب بلوچستان میں ایک ہی قبیلے کے اندر دو دو،تین تین سردار پیدا کررکھے ہیں۔انہیں بطور کائونٹر فورس کے بلوچستان کے حقیقی سیاسی قوتوں کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے اور انہیں مالی مراعات اور سیاسی آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔
عطاء اللہ منی رب ء عطاء انت
عطاء اللہ رب کی عطاء ہے۔
آئی فکر آلم ء فکر ء حبا انت
اس کی فکر بلند ہے سب سے
سلامان پیش بہ کن شیرزاد عطاء آ
عطاء کو پیش کرتا ہے عقیدت شیر زاد
نگہوان وت تئی شائن خداانت
خدا کے رحمتوں کی برسات ہو نم پر